قوانین فطرت اور جادو، معجزہ، کرامات و سائنس و ٹیکنالوجی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

خدا وند تعالیٰ نے انسان کو خلق فرمایا اور اُس میں اپنی روح پھونکی : پس جب میں اسے مکمل کر لوں اور اس میں اپنی خاص) روح)پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ۔(سورہ حجر 29)یہاں خداوند تعالیٰ یہ بتارہا ہے کہ وہ جوہر اور قوت و طاقت جو میرے پاس ہے وہ میں نے انسان میں منتقل کردی ہے، لہذا انسان میں خدا جیسی صفات پائی جاتی ہیں، البتہ محدود دائرہ میں۔
اللہ چاہتا ہے کہ تمہارا بوجھ ہلکا کرے (کیونکہ) انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔(سورہ نساء 28)
انسان اپنی کمزوری کے سبب اپنی بھلائی اور کمال کے حصول کیلئے اپنے سے زیادہ طاقتوروں کا محتاج ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جسے بھی طاقت و نعمت دی ہے اُن پر بھی فرض کیا ہے کہ وہ خود کو اپنی اُس صلاحیت جو خدا نے اپنے اِن خاص بندوں کو عطا کی ہے کمزوروں کی مدد کریں۔
اور ان کے مالوں میں سے سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے محتاج سب کا حصہ تھا۔(سورہ ذاریات 19)
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اپنی قدرت و اختیار سے تخلیق کیا اور پھر پہلی آیت کے مطابق اپنی طاقت و قوت کو بھی انسان میں پھونک دیا یعنی اُس کو عطا کردیا۔
اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا ہے بغیر ایسے ستونوں کے جو تم کو نظر آتے ہوں پھر وہ عرش (اقتدار) پر متمکن ہوا۔ اور سورج و چاند کو (اپنے قانون قدرت کا) پابند بنایا (چنانچہ) ہر ایک معینہ مدت تک رواں دواں ہے وہی (اس کارخانۂ قدرت کے) ہر کام کا انتظام کر رہا ہے اور اپنی قدرت کی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا یقین کرو۔(سورہ رعد 2)
خدا وند تعالٰی نے اس کائنات کو قوانین ، اصولوں اور ضابطہ کا پابند بنایا، موجودہ کائنات میں جو قوانین حاکم ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو کچھ اور ہوتےلیکن ہماری دنیا اور کائنات میں وہی قوانین ہیں جن کا ہم روزآنہ تجربہ کرتے ہیں اور ماضی میں بھی کرتے رہیں ہیں اور آگے بھی کرتے رہیں گے۔ ان قوانین کی بھرپور شناخت اور قدرت استعمال بھرپور انداز میں تو خداوند متعال کے پاس ہی ہے مگر وہ اولیاء جن کو خداوند تعالیٰ نے اپنی روح پھونک کر اختیار دیا اور کمزوروں کی استعانت اُن پر فرض کی ان پر بھی اِن قوانین کی جانکار ی اور ان کا استعمال بوقت ضرورت لازم قرار دیا۔ البتہ یہ ذہن میں رہے کہ اس کائنات کا ہر لمحہ انسان کی "آزمائش " کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔
وہ (خدا) وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں (پہلوں) کا خلیفہ اور جانشین بنایا اور تم سے بعض کو بعض پر درجات کے اعتبار سے بلندی عطا فرمائی تاکہ جو کچھ تمہیں عطا کیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا پروردگار بہت جلد سزا دینے والا اور بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا بھی ہے۔(سورہ انعام 165)
اس قانون کوعالم کبھی الہٰی ہوتا ہے جو کہ پیغمبر، امام کی صورت میں معاشرے میں موجود ہوتا ہے اور کبھی جادوگر اور سائنسدان کی صورت میں ہوتا ہے۔ پیغمبر اور امام کو الہٰی اجازہ کی بنیاد پر ان قوانین علم اور ان کا استعمال کا وقت عطا کیا جاتا ہے جبکہ جادوگروں اور سائنسدانوں کی ذاتی محنت اور محدود دائرہ کا رمیں جستجو اور تجربات ان قوانین کا علم ان کی کوشش کی بنا پر عطا کیا جاتا ہے۔ پیغمبر و امام اور جادوگر اور سائنسدان کے علم میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر کے علم کا مقصد الہٰی ذکر کے ذریعے انسان کی دنیوی اور اخروی فلاح ہوتا ہے جبکہ موخر الذکر کا مقصد صرف دنیا کی آسائشات اور محدود مستقبل کیلئے مادّی وسائل کو جمع کرلینا ہوتا ہے۔
لہذا بظاہر دونوں گروہ ایک جیسے نظر آتے ہیں مگر باطن اور معنوی طور پر مغرب و مشرق جیسا فرق رکھتے ہیں۔ قوانین فطرت وہی قوانین ہیں جن کی بنیاد پر موت و حیات، رزق وتنگدستی وغیرہ کا عمل انجام پاتا ہے اور بظاہر ان دونوں گروہوں میں یکسانیت ہونے کے باعث عام افراد غچہ کھا جاتے ہیں کہ کون الہٰی ہے کون نہیں ! کون زیادہ طاقتور ہے ۔
جادو ، معجزہ ، کرامات، ٹیکنالوجی انہی قوانین فطرت پر تصرف کرنے کا نام ہے، مگر ان میں دونوں گروہوں کی خصوصیات ہیں ، پرانے زمانے میں سائنس کو جادو، معجزہ یا کرامات کہا جاتا تھا آج اُسے سائنس یا ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا ہے۔ سامری نے موسیٰ ؑ کے قدموں کی خاک دھات کے مجسمے پر ڈال کر اُسے زندہ کردیا تھا آج مسلمانوں کے علوم کی خاک سے سائنس و ٹیکنالوجی وجود میں لائی گئی ہے۔
قدرت تکوینیہ یعنی خلق کرنے اور بنانے کی قدرت تو خداوند قدوس نے ہر انسان کو عطا کی ہے اس میں صرف نبی ، پیغمبر یا امام کو مخصوص کرلینا ان کی تخلیقی قدرت کی عظمت ہے۔ جادوگر اور سائنسدان اُس سامری کی طرح ہیں جو دھوکہ دیتے ہیں اور اصل منبع اور اصل بنیاد نہیں بتاتے جس کے طفیل وہ ٹیکنالوجی اور علم کے مالک بنے، یہ رویہ کچھ عرصے تک تو ایسے دھوکہ بازوں اور جھوٹوں کا ساتھ دے سکتا ہے مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، جیسا کہ قرون وسطیٰ میں یہ سلسلہ منحرف ادیان کے ساتھ نہ چل سکا۔ہ ں گے
ایسے احسان فراموش افراد و گروہ جو علم و معرفت اور نعمتوں کے حصول میں دوسرے "انسانوں" کے محتاج رہے ہیں اور ان سے حصول نعمت کے بعد خود خدا بن بیٹھتے ہیں اور"وسیلہ الہٰی " کو کنارے کرکے خدا خدا کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے ہی انکاری ہوتے ہیں، کیونکہ خدا نے اسی انسان کو سجدہ کروایا ہے جو کمزور انسانوں کی فلاح دنیوی اور اخروی کیلئے اُس نے خلق کیا ہے۔ اُسے علم و معجزہ و ٹیکنالوجی وغیرہ کی نعمتیں دی ہیں اور جو لوگ خدا کے اس وسیلے کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس نبی، امام کو اہمیت نہیں دیتے اُن کیلئے کوئی اجر نہیں ہے۔
اور کافر لوگ یہ خیال نہ کریں کہ وہ بازی لے گئے (بچ گئے)۔ یقینا وہ اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے۔ (سورہ انفال 59)


 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 58919 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.