اجتہاد اور علامہ اقبال

اسلامی تاریخ تفکر میں اجتہاد کی بڑی اہمیت ہے زمانے کے جدید تقاضوں کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی صحیح تفسیر پیش کرنا بہت اہم اور نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے،کیونکہ اسلام ہمارے ناقص خیالات کے تابع نہیں ہے، بلکہ وہ صحیح منطقی اصولوں پر استوار ہے،جن کا ادراک آسان نہیں ہے،اگر ادراک بھی کریں تو اس کا بیان اس بھی زیادہ مشکل ہے،کیونکہ علم اور معرفت کی خامیوں کے علاوہ اخلاقی خامیاں اس راہ کی بڑی روکاوٹیں ہیں، اسی وجہ سے انبیاء اور صالحین کو ان روکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی دلسوز مفکر کسی حقیقت کا اعلان کرنا چاہتا ہے تو کتنی ہشیاری اور ظرافت سے کام لیتا ہے،بلکہ اکثر اوقات وہ کسی اہم مقصد کے لئے جاہلوں اور نادانوں کے سامنے تسلیم ہوجاتے ہیں تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔اس وجہ سے کسی دانا اور حکیم کی بات پر انگشت نمائی ہم جیسے خام افراد کے لئے بہت مشکل ہے اور اس بات پر ہمیں یقین ہے کہ ان کے کلام میں جو خامیاں ہمیں نظر آئی ہیں ہم سے پہلے وہ خود ادراک کرچکے ہیں لیکن کسی اہم مقصد کے لئے وہ ان کے اظہار کرنے سے عاجز ہیں یہی وجہ کہ اجتہاد کے بارے میں علامہ اقبال ؒ کے نظریات کا جائزہ لینا ہمارے لئے بہت مشکل ہے۔جن خامیوں کی ہم نشاندہی کریں گے وہ ان سے پہلے سے ہی آگاہ ہیں بلکہ ان کے کلام سے بھی مختلف شواہد پیش کیا جاسکتا ہے ،لیکن ابھی ہم اس پہلو سے قطع نظر کرتے ہیں تاکہ اہل نظر خود ان خامیوں کا جواب نکالیں۔

لہٰذا اجتہاد کے بارے میں ہم عظیم اسلامی مفکر اور شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کے افکار کے کچھ اقتباسات ان کے صاحبزادے کی زبان سے پیش کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ موضوع کتنا اہم ہے اور ملت اسلامیہ کے ہمدرد افراد اس بارے میں کتنے نالاں تھے،اس کے بعد ان کے کلام سے متعلّق کچھ حقائق اور خدشات کا تذکرہ کریں گے: ”اصلاح تمدن کے متعلق اقبال ؒ کے نظریات اس زمانے میں بھی وہی تھے جن کا آپ بعد کی زندگی میں زیادہ تفصیل کے ساتھ اعادہ کرتے رہے ارشاد کرتے ہیں: ” مسلمانوں میں اصلاح تمدن کا سوال دراصل ایک مذہبی سوال ہے۔کیونکہ اسلامی تمدن اصل میں مذہب اسلام کی عملی صورت کا نام ہے اور ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اصول مذہب سے جدا ہوسکتا ہو میرا یہ منصب نہیں کہ میں اس اہم مسئلہ پر مذہبی اعتبار سے گفتگو کروں تاہم میں اس قدر کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ حالات زندگی میں ایک عظیم شان انقلاب آجانے کی وجہ سے بعض ایسی ضروریات پیدا ہوگئی ہیں کہ فقہاء کے استدلالات جن کے مجموعے کو عام طور پر شریعت اسلامی کہا جاتا ہے ایک نظرثانی کے محتاج ہیں میرا یہ عندیہ نہیں ہے کہ مسلمات مذہب میں کوئی اندرونی نقص ہے،جس کے سبب سے وہ ہماری موجودہ تمدنی ضروریات پر حاوی نہیں ہیں بلکہ میرا مدعا یہ ہے،کہ قرآن شریف اور احادیث کے وسیع اصول کی بنیاد پر جو استدلال فقہاء نے وقتاً فوقتاً کیے ہیں،ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو خاص خاص زمانوں کے لئے واقعی مناسب اور قابل عمل تھے، مگر حال کی ضروریات پر کافی طور پر حاوی نہیں ہیں اگر موجودہ حالات زندگی پرغوروفکر کیا جائے تو جس طرح اس وقت ہمیں تائید اصول مذہب کے لئے ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے اسی طرح قانون اسلامی کی تفسیر کے لئے ایک بہت بڑے فقیہ کی ضرورت ہے جس کے قوای عقلیہ اور متخیلہ کا پیمانہ اس قدر وسیع ہو کہ مسلمات کی بنا پر قانون اسلامی کو نہ صرف ایک جدید پیرائے میں مرتب ومنظم کرسکے بلکہ تخیل کے زور سے اصول کو ایسی وسعت دے سکے جو حال کے تمدنی تقاضوں کی تمام ممکنہ صورتوں پرحاوی ہو جہاں تک مجھے معلوم ہے ،اسلامی دنیامیں اب تک کوئی ایسا عالی دماغ مقنن پیدا نہیں ہوا اور اگر اس کام کی اہمیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ایک سے زیادہ دماغوں کا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے کم ازکم ایک صدی کی ضرورت ہے۔ “

علامہؒ کے کلام پر آپ کا فرزند یہ تبصرہ کرتے ہیں: ”اس مضمون کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے،کہ اقبال ارتقائے فکر کے اوائلی دور ہی میں ملّت اسلامیہ کے تنزّل کے اسباب سے باخبر تھے ۔ان کی نگاہ میں حیات انسانی میں ایک ایسا تغیر آچکا تھا جس نے زمانہ حال کو زمانہ ماضی سے منقطع کر کے مسلمانوں کو اپنا انداز فکر تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔اقبال احیائے اسلام کے ماحول میں فرد اور معاشرے کی وابستگی کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے ملّت اسلامیہ کی تعمیر نو قومیت اسلام کے اصول کی روشنی میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ان کی رائے میں اسلامی تمدن دین اسلام کی عملی صورت تھی مگر حیات انسانی میں انقلاب آجانے کے سبب وقت کے جدید تقاضوں کے تحت نئی حاجات پیدا ہوگئی تھیں۔پس جس طرح تائید اصول مذہب کے لئے ایک جدید علم کلام کی ضرورت تھی ۔اسی طرح نئے تمدنی تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اجتہاد کے ذریعہ قانون اسلامی کی جدید تفسیر لازمی تھی اقبال کے استدلال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کی رائے میں سرعت سے بدلتے ہوئے حالات زندگی میں اگر مسلمان نیا علم کلام تخلیق کرنے اور قانون اسلامی کی نئی تفسیر مرتب کرنے کے قابل نہ ہوئے تو اسلام دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب کے طور پر زندہ رہے تو رہے لیکن ایک تمدن یا طریق حیات کی صورت میں اس کا زندہ رہ سکنا محال تھا۔“ ۱ (۱)جاویداقبال؛ زندہ رود؛ حیات اقبالؒ کا وسطی دور؛ ج۲ص۵۸۱۔

حقائق اور خدشات
علامہ اقبال ؒ کے کلام میں کچھ حقائق اور خدشات ہیں جن کو ہم فہرست وار ذکر کرتے ہیں:
الف)ایک حکیمانہ نکتہ انہوں فرمایا جو قابل تحسین ہے وہ یہ کہ” اسلامی تمدن اصل میں مذہب اسلام کی عملی صورت کا نام ہے اور ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اصول مذہب سے جدا ہو سکتا ہو۔“

اس حکیمانہ کلام میں آپ نے اسلام کی مکمل تعریف کی ہے کیونکہ اسلام خدا کی اطاعت ہے ،اور وہ بھی مکمل اطاعت ہو قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات کامطلب بھی یہی ہے کہ فرمایا:
۱)مکمل اطاعت صرف اسی کے لئے ہے۔ سورة نحل آیت۲۵۔
۲)دین تو خدا کے پاس اسلام ہے۔ سورہ آل عمران آیت ۹۱۔
۳)آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کیا۔ سورہ المائدہ آیت۳۔
۴)﴾اور میں تو تمہارے لئے دین کے طور پر[فقط]اسلام پر راضی ہوں ۔سورہ المائدہ آیت۳۔
۵)آگاہ ہوجاﺅ!خالص دین فقط خدا کے لئے ہے۔ سورة زمر آیت۳۔

دین اور مذہب کسی کی چال چلن اور رفتار کو کہا جاتا ہے،جس کے مطابق وہ زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ انسان کی رفتار سے اس کو فائدہ یانقصان ہوتا ہے،لہٰذا ہر قدم پر اس کو علم ومعرفت کی ضرورت ہے، تاکہ اس کو نقصان نہ ہو انسان کا سب سے بڑا فائدہ اور اس کی حقیقی سعادت قرب الٰہی ہے،جو فقط خدا کی طاعت سے ہی حاصل ہوسکتی ہے، خداوند تعالیٰ کی مرضی دیکھے بغیر عمل کرنا ہی اس کی مرضی کے خلاف ہے ،لہٰذا کسی رفتار میں بھی اگر وہ خدا کی مرضی کے مطابق عمل نہ کرے یا کم از کم اس کو معلوم نہ ہو کہ یہ کام خدا کی مرضی کے مطابق ہے ، جس کے بارے میں قرآن لھو اور عبث وغیرہ کی تعبیر استعمال کرتا ہے، اتنا ہی وہ حقیقی سعادت سے دور ہوا ہے،جیسا کہ ارشاد ہے:
پس کیا تم نے یہ خیال کیا کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاﺅ گے؟ (سورہ مومنون آیت۵۱۱)
اور ہم نے آسمان،زمین اوران دونوں کے درمیان کی چیزوں کو کھیل تماشے کے لئے نہیں بنایا ہے،اگر ہم کھیل ہی چاہتے تو اپنی طرف سے ہی بنا لیتے اگر ہمیں ایسا کرنا ہوتا۔ (سورہ انبیاءآیات۶۱۔۷۱)

پس معلوم ہوا کہ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو اصول مذہب سے جدا ہوسکتا ہو۔پس تجارت،معیشت ،گھریلو زندگی،سماجی زندگی ،سیاست،فلاحی کام،تعلیم بلکہ مکان کی تعمیر تک کو اسلامی ہونا چاہئے یعنی اسلامی اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے، تاکہ ہم مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں۔دوسرے الفاظ میں ہم اپنی پسند اور ناپسند کو اسلامی معیاروں کے تحت پرکھیں جیسا کہ امام جعفر صادق -فرماتے ہیں:

سورةالحجرات آیت،۷۔ (۲)برقی ؛ؒاحمدبن محمدبن خالد(۴۷۲ق)المحاسن،ج۱ص۲۶۲۔

فضیل بن یسار سے مروی ہے :میں نے امام جعفر صادق -سے پسند اور ناپسند کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ ایمان کا حصہ ہے؟
فرمایا:ایمان پسند اور ناپسند کے علاوہ ہے کیا؟
پھر آپ- نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:﴾اور تمہارے لئے اللہ نے ایمان کو پسندیدہ بنایا اور تمہارے دلوں میں اس کو زینت دی اور کفر،فسق اور نافرمانی کو تمہاری نظر میں ناپسندیدہ بنایا یہی لوگ ہی راہ حق پر ہیں۔﴿
ب)مسلمانوں سے آپ کی مراد یقینا ًمسلک اہل بیت سے وابستہ افرا دنہیں ہیں اس بنیاد پر انہوں نے جس ضرورت کی نشاندہی کی ہے اور اس کو دور کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے وہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ مسلک خلفا(اہل سنت ) اور اس کے بنیادی اصولوں کے وفادار ہوتے ہوئے کسی مثبت تبدیلی کا امکان نہیں ہے اور ایسی شریعت پیش کرے جو ہماری تمدنی زندگی کے تمام پہلوﺅں کو شامل ہو کیونکہ مسلک خلفاء کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے امت کے سیاسی مستقبل کا کچھ انتظام نہ کیا یہ کام اجماع امت پر چھوڑا گیا قرآن وسنت اس بارے میں خاموش ہیں،جیسا کہ حضرت عمر سے منقول ہے،
(صحیح بخاری ج ۸ص۶۲۱۔ مسلم ابن حجاج؛صحیح مسلم ج۶ص۴و۵۔ احمدبن حنبل؛مسندج۱ص۳۴و۶۴)

جبکہ اصلاح کی ابتدا اور انتہا معاشرے کی سیاسی قیادت پر موقوف ہے۔یعنی معاشرے کی اصلاح اور سیاسی قیادت میں دو طرفہ رابطہ ہے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ معاشرتی مسائل میں سب سے زیادہ نمایاں معاشی مسائل (Economic) ہیں معاشی مسائل کے حل کی اصل کنجی سیاسی قیاد ت کا رویہ اور سیاسی استحکام ہے،اسی طرح نفسیاتی مسائل (Psychological) کا حل بھی کافی حد تک سیاسی قیادت کی حکمت عملیوں پر موقوف ہے،جب حضور اکرم ﷺ نے سیاسی قیادت کا کوئی انتظام ہی نہ کیا ہو تو پھر ان تمام مسائل کو کون حل کرے؟کیسے حل کرے ؟جبکہ سیاسی مسائل دوسرے مسائل کے لئے علّت کی حیثیّت رکھتے ہیں۔اب تک کوئی مصلح پیدا نہیں ہوا جو ان الجھنوں کو سلجھائے یا علامہ اقبال ؒکے بقول ایسا بڑا فقیہ نہیں آیا جس کے قوای عقلیہ اور متخیلہ کا پیمانہ اس قدر وسیع ہو کہ مسلمات کی بنا پرقانون اسلامی کو نئی ترتیب دے ۔

ان حالات میں جبکہ سیاسی استحکام اور سیاسی قیاد ت کا رویہ معاشرتی فکری ڈھانچے پر موقوف ہے اور اسلامی معاشرے کا ڈھانچہ ہی ابتدا سے سیاسی انتشار اور فکری خلفشار سے دوچار ہو تو پھر اصلاح امت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟علاوہ برایں اجماع کا کوئی واضح تصور ہی نہیں ہے جو تمام مسلمانوں کے لئے اور ہر زمانے میں قابل عمل ہو یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اسلامی معاشرے میں کوئی اسلامی سیاسی پلیٹ فارم وجود میں ہی نہیں آئی ،جس کے نتیجے میں اسلامی دنیا یا نیشنلزم (Nationalism)اور قوم پرستی کی آگ کے نذر ہوگئی یا سکیولرازم (Secularism) اور کفر والحاد کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔

ج)آپ کے کلام میں دوسری خامی یہ ہے کہ وہ شریعت میں نظرثانی کو وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں : ” میرامدعا یہ ہے کہ قرآن شریف اور احادیث کے وسیع اصول کی بنیاد پر جو استدلال فقہاء نے وقتاً فوقتاً کئے ہیں ، ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو خاص خاص زمانوں کے لئے واقعی مناسب اور قابل عمل تھے مگر حال کی ضروریات پر کافی طور پر حاوی نہیں ہیں۔“ جبکہ مسلک خلفاء سے برخاستہ نام نہاد شریعت کی اسلام سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے یہ شریعت اُسی وقت بھی کارآمد نہ تھی ،اِسی وجہ سے اسلامی معاشرے کو ایک منظم ڈھانچہ اور سماجی یکجہتی دینے سے قاصر رہی جس کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ سیاسی انتشار کا شکار ہوگیا اور ایک اسلامی حکومت پچاس سے زائد کمزور ریاستوں میں بٹ گئی، اب بھی خطرناک انتشار کا شکار ہے۔معاشرتی اخلاقی اور تعلیمی پہلوﺅں سے بالکل غفلت ہوگئی ۔سماجی کارآمد طبقات غیراسلامی تعلیم وتربیت کی وجہ سے اپنا اسلامی کردار ادا نہ کرسکے،معاشی طور پر اسلامی معاشرہ غیراسلامی بلکہ اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں اسیر ہوگیا۔

د) علامہؒ کے اس کلام پر،جس میں آپ اسلامی شریعت میں نظرثانی کو وقت کا تقاضا سمجھتے ہیں،ایک اہم اعتراض یہ بھی ہے کہ فلسفی نگاہ سے معرفت مطلق (Absolute) ہوتی ہے نہ نسبی (Relative)کیونکہ نسبیت واقع نمائی کے لئے گنجائش نہیں رکھتی،نسبیت کا نتیجہ شکاکیت (Skepticism) ہے،یعنی جس کو میں واقع سمجھ رہا ہوں وہ دوسرے کے لئے واقع نہ ہو،شکاکیت کا نتیجہ جہالت ہے ،جبکہ واقع نمائی معرفت کی ذاتی خصوصیت ہے۔ اگر ہم اسلامی شریعت کو کسی خاص زمان ،مکان ،فرد،افراد یا کسی خاص شرط کے بدلنے سے قابل تبدیل سمجھیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کبھی بھی ہم شریعت کے کسی بیان پر یقین نہ کریں کیونکہ ممکن ہے وہ کسی خاص شرط سے مشروط ہو،جس کا ہمیں علم نہیں۔جبکہ شریعت میں اس کی گنجائش نہیں ہے قرآن وسنت اس بارے میں کامل ہیں یعنی اگر کوئی شرط ہو تو وہ بھی شرعی بیان میں مذکور ہوتی ہے۔مختلف حالات کو پیش نظر رکھا ہوتا ہے ۔ ہاں البتہ یہ گنجائش موجود ہے کہ کسی حکم کا موضوع ہی بدل گیاہوجس کی وجہ سے حکم ہی نہ رہے مثلاً ایک آدمی مسافر تھا اس کا وظیفہ نماز قصر پڑھنا تھا لیکن اس کا سفر ہی ختم ہوجائے تو وہ نماز بھی قصر نہیں پڑھے گا۔ اسی طرح شراب جس کا پینا حرام ہے اگر سِرکے میں بدل جائے تو پھر اس کا پینا حرام نہیں ہے۔پس اگر معرفت مطلق ہے تو پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلامی شریعت کسی زمانے میں کار آمد ہو لیکن کسی دوسرے زمانے میں کارآمد نہ ہو اور اس آیت سے بھی مراد یہی ہے کہ فرمایا:
آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کیا اور میری نعمتوں کو تم پر تمام کیا اور تمہارے لئے دین کے طور پر[فقط]اسلام پر راضی ہوگیا سورہ المائدہ آیت۳۔

ھ)علامہ اقبالؒ نے یہ ضرورت محسوس کیا ہے،کہ جس طرح ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے اسی طرح اسلامی شریعت کو جدید پیرائے میں پیش کرنے کی ضرورت ہے، موجودہ شریعت زمانے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی،اور اب مزید کارآمد نہیں ہے،اس بارے میں یہ عرض کرنا ہے کہ علم کلام مختلف اور مربوط عقائد کا نام ہے، شریعت ان عقائد پر مبنی ہوتی ہے ،مثلاً:
۔خدا موجود ہے۔
۔ اس کے لئے جسم نہیں ہے۔
۔وہ صاحب اختیار ہے۔
۔وہ علم ،قدرت اور ارادئہ مطلقہ کا مالک ہے۔
۔وہ عادل ہے۔
۔قیامت ہے جہاں انسان کے دنیوی اعمال کا محاسبہ ہوگا۔
۔انسان بااختیار ہے۔
۔انسان عقل کے نام سے ایک ادراک کی قوت کا مالک ہے۔
۔عقل کے ذریعے وہ کچھ حقائق کامستقل ادراک کرسکتا ہے۔
۔خداوند تعالیٰ نے انسان کواپنی اطاعت اور عبودیت کے لئے پیدا کیا ہے۔
۔خداوند تعالیٰ کی اطاعت کی طرف انبیاء راہنمائی کرتے ہیں۔
۔انبیاء کی نبوت معجزہ کے ذریعے ثابت ہوتی ہے۔
۔حضور اکرم ﷺ کی نبوت کا ثبوت اور معجزہ قرآن ہے۔
۔سیاسی قیادت امامت کے نام سے ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ کے لئے ایک ضرورت ہے۔
۔انبیا اور آئمہ معصوم ہیں۔

یہ بعض اصول ہیں جن سے علم کلام میں بحث ہوتی ہے،جنہیں اصول دین سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے،اور توحید، عدل، نبوت ،امامت اور معاد کے نا م سے پکارا جاتا ہے، مختلف مکاتب فکر کے ان کے بارے میں مختلف مواقف ہیں۔ان اصولوں کے طے ہونے کے بعد اسلامی شریعت کا ڈھانچہ واضح ہوجاتا ہے ۔ کلامی اصول اور شریعت میں علت اور معلول کا رابطہ ہے۔یعنی شریعت کلامی اصولوں کی عملی صورت ہوتی ہے، لہٰذا اگر کلامی اصول کسی معقول بنیاد پر استوار نہ ہوں تو ان پر مبنی شریعت بھی بے بنیاد ہوگی۔اسی طرح اگر خود شریعت بھی ان کلامی بنیادوں سے عاری ہو تو بھی کسی انسانی ضرورت کو پوری کرنے سے قاصر ہوگی ۔پس اصل مسئلہ شریعت کا ٹھوس کلامی بنیادوں پر استوار ہونا ہے۔اس لئے شریعت پر نظرثانی سے پہلے کلامی بنیادوں پر نظرثانی کرنا ضروری ہے تاکہ شریعت کو ٹھوس کلامی بنیادوں پر استوار کیا جاسکے۔
Muhammad Ali Musavi
About the Author: Muhammad Ali Musavi Read More Articles by Muhammad Ali Musavi: 2 Articles with 2635 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.