عصرِ حاضر میں خواتین کی شاعری

محمد صدیق نقوی- ادونی٬ آندھرا پردیس

روایات کی پاسداری سے ہٹ کر جدید تقاضوں کی تکمیل کے سلسلے میں اگر عصری شاعری کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ در حقیقت مردوں کے مقابلے میں عورتوں نے شاعری کے آزاد رویے کو اپنی فطرت سے قریب سمجھا اور عصری افکار کی پیش کشی کے لیے آزاد نظم کو وسیلے کے طور پر استعمال کیا ۔اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ خواتین نے پابند نظم نگاری کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ پابند شاعری کے دوران بھی خواتین کے لب و لہجے کی احتجاجی لپک تیز سے تیز تر ہوتی نظر آتی ہے۔برِّ صغیر کی خواتین نے ہی عصری حسّیت سے ہم آہنگ شاعری کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ مہاجر خواتین نے بھی اپنے تجربات اور احساسات کو شعری پیراہن میں ڈھال کر اظہار کے وسیلے کو احساس کی گرمی سے مالا مال کردیا۔یہ حقیقت ہے کہ نئی تعلیم سے آشنا خواتین نے جب اردو شاعری کی طرف توجہ دی تو اِس شاعری میں احتجاج کے لہجے کے ساتھ ساتھ نسائی حسّیت بھی رونما ہونے لگی لیکن اردو شاعرات کی نسائی حسّیت میں مغرب پرستی کا رجحان کم کم ہی نظر آتا ہے جب کہ مشرقی نسائی حسّیت اپنا گریبان چاک کرکے راز ہائے دروں پیش کرنے کی مساعی ضرور کرتی ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ عصری شاعرات نے کم و بیش اپنے لہجے کو احتجاجی رکھا ہے اور مرد کی برتری کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے نسائی شناخت کو شعر وادب کے توسط سے نمایاں کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ایسی اہم شاعرات جنہوں نے نسائی حسّیت کو برقرار رکھتے ہوئے مرد کے بھرم کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے اُن میں کئی اہم ناموں میں پروین شاکر اور اُن کی احتجاجی آواز کو اردو شاعری کبھی نظر انداز کرسکتی کیونکہ پروین شاکر نے مرد کی بالا دستی کو نہ صرف نظر انداز کیا ہے بلکہ اُس کی برتری کو ختم کرنے کے لیے عورت کی خود اپنی شناخت کو بھی برقرار رکھنے کی طرف توجہ دی ہے جس کا اندازہ چار مصرعوں پر لکھی ہوئی اُن کی نظم ”ضد“ سے لگایا جاسکتا ہے۔
میں کیوں اُس کو فون کروں
اُس کے بھی تو علم میں ہوگا
کل شب
موسم کی پہلی بارش تھی

اس نظم میں پروین شاکر نے عورت کو ہمیشہ مرد کے زیرِ نگیں رہنے کے تصوّر کی مخالفت کرتے ہوئے عورت کی اپنی شناخت اور اس کے نسائی وجود کو منوانے کے لیے مرد کے انتظار میں آنکھیں بچھائے رہنے کی مخالفت کی ہے اور صاف طور پر احتجاجی لہجے میں یہ کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے جذبات کے اظہار پر پابندی لگا کر مرد کو اظہار کی دعوت سے مالا مال کرنا چاہتی ہیں۔بنیادی طور پر عورت اور اُس کے وجود کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،اس پر ظلم و ستم کرنا ہر مرد کا شیوہ نہیں البتہ عورت کے رویے کی وجہ سے ہی وہ اپنے دام میں آپ گرفتار ہوتی ہے لیکن تانیثی ادب نے شاعری کے توسط سے نسائی معیار کو بلند کرنے کے معاملے میں نفسیاتی اور جذباتی نقطہ نظر کے بجائے حقیقی نقطہ نظر کا سہارا لیا ہے جس کے توسط سے عورت کو مرد کے مساویانہ حقوق کی دلیل پیش کی گئی ہے اور اس قسم کی آزادی کو نہ تو زیادتی سمجھا جائے گا اور نہ ہی تانیثی ادب میں اِسے ناقابلِ اعتنا سمجھا جاتا ہے۔اس کے بجائے مغربی تانیثیت میں مرد کے وجود کا انکار اور عورت کا مرد پر بالا دستی قائم کرنے کا جذبہ بنیادی طور پر عورت کے وجود کو مسمار کردے گا۔اس پس منظر میں عورت کی کھلی آزادی کسی لحاظ سے بھی برداشت نہیں کی جاسکتی البتہ تانیثی ادب طبقہ نسواں میں ادبی اور ثقافتی آگہی کے ساتھ ساتھ نسوانی روایات کے فروغ کا کام انجام دیتا ہے تو ایسے شعر وادب سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔جہاں تک عورتوں کے ادب اور اُس کے توسط سے شاعرات کی نمائندگی کا معاملہ ہے اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ محبت کے پردے میں گلے و شکوے شاعری کا اعزاز رہے ہیں اور اس قسم کی شاعری سے جو معاشرہ پید اہوا اس پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کشور ناہید لکھتی ہیں:
مری بنّو !
سورج مکھی کی طرح
گھر کے حاکم کی رضا پر
گردن گھماتے گھماتے
میری ریڑھ کی ہڈّی چٹخ گئی ہے
جسم کا سارا بوجھ سہنے والی۔۔۔ہڈی چٹخ گئی ہے۔

کشور ناہید کی شاعری میں احتجاج کی لَے شدید نہیں بلکہ دھیمی نظر آتی ہے اور انہوں نے عورتوں کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے والے مردوں پر طعنہ زنی کرتے ہوئے اس احساس کی نمائندگی کی ہے کہ مشرقی عورت صرف عورت ہے اور اُسے گھر کے کام کاج میں لگا کر زندگی کا کھلونا بنا دینا ہی مرد کی فطرت ہے اور عورت اسی فطرت کے آگے سر جھکائے زندگی گزارنے پر مائل نظر آتی ہے۔عورت کے اس ماحول سے آزادی دلانے کا تصوّر عصری نظم نگار شاعرات کے کلام میں نمایاں ہوتا ہے۔

عصری حسّیت کو نظم کے توسط سے نمایاں کرنے والی شاعرات کے ناموں کی فہرست مرتب کی جائے تو اُن کا شمار دو سے تین درجن کی تعداد میں ہوجائے گا ،ان تمام خواتین نے احتجاج اور مشرقی تانیثیت کو فروغ دینے کے لیے فطری طور پر آزاد نظم کا سہارا لیا،صرف ایک ایسی شاعرہ دکھائی دیتی ہے جس نے پابند شاعری کے ذریعے بھی احتجاج کی لے کو قائم و دائم رکھا اور اس شاعرہ کا نام شفیق فاطمہ شعریٰ ہے جب کہ اردو کی دوسری نظم گو شاعرات نے تانیثی عمل اور احتجاج کی شاعری کو پیش کرنے کے لیے آزاد نظم کو ہی بہتر وسیلے کا درجہ دیا چنانچہ سارا شگفتہ ہو یا شکیلہ رفیق ،شبنم عشائی ہو یا غزالہ خاکوانی،فہمیدہ ریاض ہو یا نسیم سیّد حمیرا رحمٰن ہو یا ادا جعفری ان تمام شاعرات کی نظموں کا محور”آزاد نظم“ ہے اور وہ کبھی طویل نظموں سے کترا کر مختصر نظم کی طرف بھی مائل ہوجاتی ہیں اور چونکہ ان شاعرات کی عصری حسّیت میں احتجاجی لب و لہجے کی دھمک سنائی دیتی ہے اس لیے اُن کی شاعری میں صنائع لفظی و صنائع معنوی کا رجحان ناپید دکھائی دیتا ہے البتہ ان شاعرات کی نظمیں یہ واضح کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک جانب علامت اور اشارے کے علاوہ پیکری ریاضت کو ضرور کام میں لایا ہے جس کے نتیجے میں نظم آزاد لب و لہجے کی نمائندہ ہونے کے باوجود بھی اشاریت کے ذریعے مفہوم کی گہرائی تک پہنچ جاتی ہے،اس اشاریت کو احتجاجی لب و لہجے کے ساتھ سمجھنا ہو تو شہناز نبی کی نظم ”معصوم بھیڑیں“ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے چنانچہ وہ لکھتی ہیں:
اک چراگاہ
سو چراگاہیں
کون ان ریوڑوں سے گھبرائے
پڑگئیں کم زمینیں اپنی تو
کچھ سفر کچھ حضر کا شغل رہے
کچھ نئی بستیوں سے ربط بڑھے
ان کو آزاد کون کرتا ہے
یہ بہت مطمیں ہیں تھوڑے میں
اک ذرا سا گھما پھرا لاﺅ
کچھ ادھر کچھ اُدھر چرا لاﺅ
بھیڑیں معصوم
بے ضرر سی ہیں
جس طرف ہانک دو
چلی جائیں

شہناز نبی نے احتجاج کی دھیمی لے کو استعمال کرتے ہوئے معصوم بھیڑیں کی اشاریت کو نمایاں کیا ہے اور قاری خود نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ معصوم بھیڑیں کس علامت کی نشانی ہیں اور اُن کے ساتھ مرد کا ناروا سلوک کس طرح مشرقی عورت کی بے بسی اور مجبوری کا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔

شبنم عشائی نے پیکری تصوّر کے ساتھ احتجاجی رویے کو انتہائی دھیما رکھا ہے لیکن انہوں نے زندگی کے فلسفے کو جس مختصر انداز میں سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے اُس کا یہ انداز بھی ملاحظہ ہو:
عفرا میری گُڑیا !
یہ اسکول کا بستہ نہیں
تمہارے ننھے کاندھوں پر
زندگی لادی جارہی ہے،ہاں زندگی
یہ بہت بھاری ہوتی ہے
یہ چیخنے سے نہیں
سہنے سے ہلکی ہوجاتی ہے
روﺅ مت میری گڑیا !

نئی فکر کی سوچ لے کر جن شاعرات نے نظم کے توسط سے نئی شعری تفہیم کی طرف توجہ دی ہے اُن کے لب و لہجے میں تازگی اور راست پن محسوس کیا جاسکتا ہے چنانچہ خواتین شاعرات نے خیال کی پیش کشی پر توجہ دیتے ہوئے لفظوں کی اُدھیڑ بُن سے خیال کو آزاد کرنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن احتجاجی لہجے کے دوران بھی عورتوں کی شاعری محاورات اور لفظوں کی بندشوں سے آزاد نہیں ہوسکی جس کی مثال حمیرا رحمٰن کی اس نظم” بے دھیان مسافتوں کے ہم سفر کے لیے ایک نظم “سے دی جاسکتی ہے۔
دُکھ میں کوئی دلدار نہ ہو تو
دھوپ کہیں دروازے سے باہر
آنکھیں موندے،چُپ سادھے بیٹھی رہتی ہے
یہ دنیا اظہار کی دنیا ہے
جس میں ہر کوئی اپنے
جذبے اور لفظوں کو ظاہر کرے تو پہنچانا جائے
گو ہم دونوں نے لفظوں کے کاندھے پر
کم سر رکھا ہے
لیکن بے دھیانی میں چلتے چلتے
دونوں کتنا آگے نکل گئے ہیں

نظم کی شعری حسّیت میں خواتین نے صنائع معنوی و صنائع لفظی کے سلسلے میں جس قدر اجتناب برتا ہے اُس کی مثال کسی اور شاعری میں نہیں ملتی بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لفظی مینا کاری اور حُسن کاری سے بے نیاز ہوکر عصری حسّیت سے مالا مال شاعرات نے شعرگوئی کی ہے جس کی وجہ سے اُن کی نظمیں سپاٹ لب ولہجے اور احتجاج کے رویے کی وجہ سے انتہائی غیر فطری نظر آنے لگتی ہیں کیونکہ فطری طور پر انسان حُسن آفرینی اور دیدہ زیبی کا شائق ہے اور یہ حُسن نظم میں دکھائی نہ دے تو قاری کو کمی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ عصری حسّیت سے مالا مال شاعرات کی نظمیں ان بنیادی وسائل سے بے نیاز ہیں اس لیے اس میں حُسن آفرینی کی تلاش بے فیض ہے لیکن خیال اور اظہار کی جو خصوصیت عصری شاعرات کی نظموں میں نمایاں ہے اُس کی مثال کسی دوسری شاعری میں دستیاب ہونی مشکل ہے،اس کیفیت کو محسوس کرنے کے لیے شکیلہ رفیق کی ایک نظم ”جواب“ پیش کی جاتی ہے۔
کب مل رہے ہو؟
ابھی نہیں مل سکتا
بہت جی چاہ رہا ہے نا !
مصروف بہت ہوں
ایسی بھی کیا مصروفیت؟
کچھ یاد ہے تمہیں
کیا
جب میں بے چین تھا تب۔۔۔
تب؟
تب تم نے انکار کر دیا تھا !
وہ ۔۔۔مجبوری تھی
میں کسی مجبوری کو نہیں مانتا
میں۔۔۔
انگریزی کی ایک کہاوت سنی ہے تم نے؟
کون سی؟
کہ اگر ایک بس چھوٹ جائے تو۔۔۔دوسری بہت دیر میں آتی ہے
مگر ۔۔۔
میں دوسری بس کا انتظار نہیں کرتی
پھر ؟
میں روٹ بدل دیا کرتی ہوں

مکالماتی انداز سے لکھی گئی یہ نظم مختصر جملوں کے توسط سے اظہار و نفی کی علامت بن کر ظاہر ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ شاعرات نے عصری حسّیت کو ظاہر کرنے کے لیے مردانہ اور زنانہ جذبات کی پیش رفت کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور جہاں مرد کی ہٹ دھرمی کو مثالی سمجھا جاتا ہے وہیں عورت کی ہٹ دھرمی بھی عصری حسّی شاعرات کے کلام میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔غرض یہ بات قبول کرنے میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہونی چاہیے کہ اردو کی عصری نظم گو شاعرات نے اپنے کلام کو آزاد نظم کی حد تک محدود رکھا اور جن خیالات کی نمائندگی کی وہ تمام خیالات انسان کے جسمانی اور فکری خیالات کے ساتھ ساتھ عصری معاشرے کی دین ہیں اس لیے خواتین نے اُن کے اظہار پر خصوصی توجہ دی اس لیے یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ خواتین نے حسن آرائی اور روایتی پیکر تراشی کو نظر اندا ز کر کے جو نیا لب و لہجہ اپنی شاعری کے لیے استعمال کیا ہے وہ لاثانی اور لاجواب ہی نہیں بلکہ اردو شاعری کی آبرو ہے جس میں نسائی حسّیت کے ساتھ ساتھ احتجاجی لب و لہجے اور عورتوں کی موجودہ معاشرے میں بے حسی کو جگانے کا بہترین عمل ہے اور توقع ہے کہ اس قسم کی نسائی آوازوں کا اعتراف کرتے ہوئے ادبی خدمات کی ضرور ستائش کی جائے گی ۔
Bazm e Qalam
About the Author: Bazm e Qalam Read More Articles by Bazm e Qalam: 2 Articles with 13093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.