آتشہ رفتہ کا سراغ: کچھ اس ناول کے بارے میں

’میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو‘
’لے سانس بھی آہستہ‘ کے فوراً بعد— ’آتشِ رفتہ کا سراغ‘

قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے والوں کے نام دہشت پسندی کی مہر لگا دی گئی۔ سائنسی انقلابات نے ارتقاء کے دروازے تو کھولے لیکن ڈی ان اے اور جنیوم سے زیادہ شہرت اے کے ۷۴ اور اسلحوں کو ملی— ایک زمانے میں جہاں علوم و فنون کے لیے برٹنڈرسل جیسے دانشور بھی مسلمان سائنسدانوں کی مثالیں دیا کرتے تھے، وہاں دیکھتے ہی دیکھتے مغرب نے جیش، لشکر طیبہ، جواہری اور اسامہ بن لادین کے نام جپنے شروع کر دیئے— انحطاط اور ذلّت کی حد یہ ہے کہ مسلسل مسلمانوں کو اپنی وفاداری اور حب الوطنی کی شہادت پیش کرنی پڑتی ہے۔

میں نے مسلمانوں کے مسائل پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا— مسلمان، بیان، ذبح— سن ۱۱۰۲ تک آتے آتے اس پر تصادم دنیا کے درمیان مسلمانوں کی عام حالت کسی کٹھ پتلی جیسی ہوچکی ہے۔ اس تحریر کے لکھے جانے تک مصر میں بغاوت کا پرچم لہرایا جاچکا ہے۔ چین اور اس کے جیسے سہمے ہوئے کئی ملکوں نے فیس بک اور گوگل پر پابندی عائد کردی ہے— ان واقعات کو بھی مسلمانوں کے اصل انحطاط اور محرومیوں و ناکامیوں سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے— ہندوستان کی بات کیجئے تو لبراہن کمیشن سے بابری مسجد فیصلے تک، جمہوریت کی ڈگ ڈگی بجا کر مسلمانوں کو خاموش رہنا سکھایا جاتا ہے۔ ہزاروں فرضی انکاؤنٹرس کی داستانیں سامنے آتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ انکاؤنٹر کرنے والوں کو حکومتی اعزاز اور تمغے بھی مل جاتے ہیں۔

میں ایک بڑے ناول کی اسٹریٹجی تیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے نقطہ نظر سے جدید دور کے تقاضوں تک اپنا موقف سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن اس میں ایک خطرہ بھی تھا— اور ایک چیلنج بھی— عام نقاد ایسے ناولوں کو محض رپورٹنگ بتا کر قارئین کرام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ شروع میں میرے ناول بیان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا— یہ جاننا ضرور ی ہے کہ اس طرح کے ناول محض خلاء میں تحریر نہیں کیے جاسکتے— سماجی اور سیاسی شعور کے بغیر کوئی بڑا ناول قلم بند نہیں کیا جاسکتا— ایک خطرہ اور بھی تھا، اگر اس ناول میں بابری مسجد کا نام آتا ہے تو کیا میں بابری مسجد کی جگہ کوئی اور فرضی نام استعمال کروں؟ یا جیش محمد، لشکر طیبہ کی جگہ کوئی فرضی تحریک، یا پھر ۰۳۔۰۲ برسوں کی سیاست میں جو سیاسی رہنما ہمیں ’تحفے‘ میں ملے کیا ان کے ناموں کو بھی تبدیل کردیا جائے؟

میں کہہ سکتا ہوں، یہاں میں آزادی اظہار کا اعلان کرتے ہوئے ہر طرح کے تیر و کمان سے لیس تھا۔ میرے سامنے روسی ناول نگاروں کی مثالیں موجود تھیں، جنہوں نے اپنے عہد کی داستانوں کو قلم بند کرتے ہوئے، اس عہد کی سیاست اور سماجیات کو نئی معنویت کے ساتھ متعین کیا اور یہ سلسلہ اب تک چلا آ رہا ہے— اس لیے مجھے ان ادبی فتوؤں کا ڈر نہیں کہ سیاسی شعور کو کچھ لوگ ابھی بھی رپورٹنگ کا درجہ دیتے ہیں۔

ناول کے آغاز سے قبل ایک مشکل اور بھی سامنے آ رہی تھی کہ اسے شروع کہاں سے کیا جائے— مسلمانوں کی آج کی سیاسی سماجی زندگی کی عکاسی کے لیے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر سے بہتر مثال میرے نزدیک کوئی دوسری نہیں تھی۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو میں نے محض علامتوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اصل بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کا اس ناول سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ کچھ لوگ بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ لباسوں پر انگلیاں اٹھتی ہیں— کچھ نوجوان خاموشی سے غائب ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کو کرائے کے گھر نہیں ملتے۔ کال سینٹر سے لے کر ہر جگہ ایک مسلمان نام کا ہونا شک کی وجہ بن جاتا ہے— پچھلے دس برسوں میں صرف انصاف کی موہوم سی امید کو لے کر مسلمانوں نے جینا تو جاری رکھا ہے مگر زندگی کے اس سفر میں شک ، ب ندشیں نا انصافیوں اور محرومیوں کا ہی تحفہ ملا ہے— اب کچھ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے بارے میں— کہ اسی انکاؤنٹر سے۔ مجھے اس ناول کی تحریک ملی اور یہاں کسی قدر میں نے اپنے معنی و مفہوم کو سامنے رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔
سرسری اس جہان سے گزرے
”میرا خواب ہے کہ ایک دن
جارجیا کے پرانے غلاموں/
اور پرانے زمیں داروں کے بیٹے/
بھائی چارے کے ساتھ ایک جگہ رہیں/
میرا خواب ہے کہ میرے بیٹے ایسے امریکہ میں سانس لیں
جہاں انہیں رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں/
انہیں عملی نمونہ کے طور پر پرکھا جائے/“
— مارٹن لوتھر کنگ

براک اوباما کے امریکی صدر بنتے ہی مارٹن لوتھر کنگ کا خواب تو پورا ہو گیا اور شاید دنیا کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز بھی ہوگیا— یہ بھی کہا گیا کہ اوباما لہر نے برلن سے بڑی دیوار توڑ دی— نفرت اور عصبیت کی وہ دیوار جو سینکڑوں برسوں سے کروڑوں لوگوں کے دکھ درد کا سبب بنی ہوئی تھی— لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسی ایک دیوار ہندوستان میں بھی ہے اور دور دور تک اس دیوار کے ٹوٹنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ آج سے ۷ سال قبل (۳۱ مئی ۳۰۰۲) نیو یارک کے ریورسائڈ چرچ میں اروندھتی رائے نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا— ’ہم ایسے بے رحم دور سے گزر رہے ہیں جہاں تیزی سے، ہم سے ہماری آزادی چھینی جا رہی ہے‘— جامعہ کے فرضی انکاؤنٹر سے ملک کی ۵۲ کروڑ مسلم آبادی (جسے ہندی انگریزی میڈیا صرف ۵۱ کروڑ ظاہر کرتی ہے اور اردو میڈیا ۵۲ کروڑ سے کم کے تخمینے پر راضی نہیں۔ کیا یہ بھی ایک طرح کی فرقہ واریت ہے؟) ایک بار پھر یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوئی ہے کہ وہ یہاں محفوظ نہیں ہیں۔

اس سوال کو خوف و ہراس اور بزدلی کا درجہ مت دیجئے۔ اس سوال کو برلن کی طرح مضبوط ہندوستان کی جمہوری دیوار کا راستہ مت دکھائیے۔ یہ سوال ہر بار بنا ہوا ہے۔ یہ سوال اکثر و بیشتر ایک تسلی، یقین یا امید کی کرن میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ مگر اچانک کسی غیر متوقع حادثہ کے احساس سے ایک بار پھر جاگ جاتا ہے— سن ۷۴، بارودی ڈھیر پر ایک خوفناک آزادی ہمارا انتظار کر ہی تھی۔ جنہیں یہاں تحفظ نظر نہیں آیا۔ وہ پاکستان چلے گئے— یہ مت بھولیے کہ پاکستان بننے کے پیچھے بھی شیخ عبد اللہ یا جناح جیسے قد آور رہنماؤں کی ایک منطق رہی تھی کہ جو قوم ان کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی نہیں پی سکتی، کیا وہ موجودہ حالت میں انہیں ان کا رتبہ دے سکتی ہے؟ اگرچہ اس دلیل کو کاٹنے کی صلاحیت ہے ہم میں، کہ دو بھائیوں کی طرح ہم آزاد ہندستان میں پلے، بڑھے اور نوکریاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے— عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں— اور وہ لوگ جو پاکستان چلے گئے، ان کے پاس بھی اپنے جواز تھے۔ چنانچہ اپنے لوگ—، اپنی سرزمیں، اپنا پیارا ہندوستان— آخر اپنی مٹی کا کچھ تو جواز ہوتا ہے۔ لیکن آزادی کے بعد کے ہندوستان میں مسلمانوں کا وہ سہما ہوا چہرہ بھی دیکھ لیجئے، جہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کاروائی کے لیے ایک ساتھ ۵۲ کروڑ کی آبادی نشانے پر آ جاتی ہے۔ بہار شریف، بھاگلپور ، جمشید پور، ملیانا میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے الگ کی بھی ایک کہانی ہے جو مجھے چونکاتی ہے۔

گاندھی جی کا قتل ہوتا ہے— مسلمان اپنے اپنے گھروں میں بند ہوجاتے ہیں۔ (کیوں کیسا خوف ہے یہ؟۔ اگر کسی مسلمان نے قتل کیا ہے تو؟)
برسوں بعد اندرا گاندھی کا قتل ہوتا ہے۔ مسلمان ایک بار پھر اپنے اپنے گھروں میں بند —(کیوں؟)
راجیو گاندھی کا قتل ہوتا ہے، جب تک قاتلوں کی خبر نہیں آ جاتی، پورا مسلم معاشرہ دہشت اور خوف کے خیمے میں رہتا ہے کہ اب فسادشروع.... (کیوں—؟)

ایک وقت ایسا لگ رہا تھا کہ ایودھیا تنازعہ یا ہندوتو کا ’ایشو‘ سیاسی گلیارے میں ہلچل پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ لیکن بعد کی واردات نے بتا دیا کہ ایسا سوچنے والے غلط تھے۔ در اصل ہندوستانی تہذیب میں مذہب کی جڑیں، اتنی گہری ہیں کہ ۰۱۱ کروڑ کی جتنا سے لے کر سیاست اور سیاسی گلیارے تک ہمارے عہد کا تنہا فاتح یا ہیرو مذہب رہا ہے— اور یہ بھی کھلا سچ ہے کہ نئے ہزارہ یا نئی صدی کے سال پورا ہوتے ہوتے اسی مذہب کی آڑ لیکر ایک بار پھر سے اسلام کو پاکھنڈ، قرآن شریف کو غلط کتاب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرارد ینے کی کاروائی اپنے آخری مرحلوں میں پہنچ چکی ہے۔ شاید چہرے بدل بدل کر آزاد ہندوستان میں ایک ہی پارٹی اس ملک میں حکومت کرتی رہی ہے— اور وہ ہے ’ہندوتو‘— کانگریس کا نرم ہندوتو اور بھاجپا کا گرم ہندوتو— مگر بھاجپا کے مقابلے کانگریس کا نیا ہندوتو خطرناک ہے۔ ووٹ بینک یا ووٹ کی سیاست میں در اصل کانگریس دونوں ہاتھوں سے لڈو کھانے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ہندوتو کو بھی خوش رکھنا چاہتی ہے اس لیے ’سنگھ‘ اور پرگیہ معاملے میں اس کی چپّی خطرناک حد تک ملک کے لیے انتہاپسند لگتی ہے۔ وہیں وہ مسلمانوں کے ووٹ بینک کو بھی ہتھیائے رکھنے کے لیے اپنے چھٹ بھیے نیتاؤں کو بٹلہ ہاؤس بھیج کر مسلمانوں کے زخموں پر مرہم تو لگانا چاہتی ہے، مگر پورے معاملے پر انصاف اور جانچ کرانے کو تیار نہیں ہوتی کہ اس سے اکثریتی ووٹ کے کٹنے کا خطرہ اسے نظر آ جاتا ہے۔

بار بار جامعہ:
مودی کے سپہ سالار بنجارا اور اس کے انکاؤنٹرس کو لوگ بھولے نہیں ہیں— گجرات سے ممبئی تک میڈیا، انکاؤنٹرس کی خبروں کو ایسے اچھالتی تھی جیسے دیش کا ہرایک مسلمان دہشت گرد ہے— کیونکہ بار بار دہشت گردی کی ہر کاروائی میں نشانہ کسی ایک عاطف یا سلیمان پر نہیں ہوتا تھا، بلکہ میڈیا کے شور وغل میں ملک کے سارے نوجوان مسلمان نشانے پر ہوتے تھے۔ ہر بار دہشت گرد کی جیب میں اردو میں لکھی ایک پرچی ہوتی تھی۔ (آج کی نوجوان مسلم نسل اردو نہیں جانتی)— ہر بار کرتا۔ پاجامہ پہننے والا شخص، چشم دید گواہوں کے نشانے پر ہوتا تھا۔ (تاکہ جائے واردات پر وہ اپنے لباس سے آسانی سے پہچان لیا جائے)— کیا آج کے مسلم نوجوان نسل کرتا پائجامہ پہنتے ہیں؟ کیا جینس کی پینٹ اور ٹی شرٹ پہنے ہوا شخص مسلمان نہیں ہو سکتا—؟ اس کا جواب ہے، ہو سکتا ہے، لیکن پولیس انتظامیہ اور حکومت کی نظر میں جینس اور پینٹ شرٹ پہننے والا شخص ملک کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔ میڈیا کو ایک فیکس یا میل حاصل ہو جاتا ہے— ہربار کسی انڈین مجاہدین کی جانب سے یہ قبولنامہ بھی آ جاتا ہے کہ بھیا، یہ تو ہم نے کیا ہے۔ کیا کبھی حکومت نے ان فرضی فیکس یا میل کی تحقیق یا جانچنے کی کوشش کی؟ ان باتوں کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ ایسی ہر کاروائی ہندوستان میں پیدا ہونے والے ایک ایک مسلمان کے رنج و غم کا سبب بن جاتی ہے۔

جامعہ یا بٹلہ ہاؤس میں جو کچھ ہوا، وہ اچھا نہیں ہوا۔ شاید بہت سے لوگوں نے انکاؤنٹر کے بعد کا وہ چہرہ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا ہے۔ رمضان کے مہینے ہونے والی اس واردات نے علاقے کے تمام مسلمانوں کو جیسے کسی لاش میں تبدیل کر دیا تھا۔ پولس کسی بھی وقت کسی کے بھی گھر دھمک جاتی تھی۔ یہ کہنے پر کہ بھائی، ہم تو پڑے لکھے لوگ ہیں۔ پولس کا جواب ہوتا تھا ’تم جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی یہ کاروائی کرتے ہو۔“ مالیگاؤں سے لے کر اعظم گڑھ تک کے تار دہشت گردوں سے جوڑ دیئے جاتے تھے۔ سب سے زیادہ نوجوان پریشان تھے۔ وہ گھر سے باہر نکل ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ دہشت اور خوف کہ پولس کی کتوں جیسی آنکھیں کب ان کا شکار کر لیں، کہا نہیں جاسکتا۔ اسی ماحول میں عید جیسا دن بھی آیا۔ عید جسے خوشی کا دن کہتے ہیں۔ لیکن مسجدیں سنسان رہیں— میری جانکاری کے مطابق کئی مسلم نوجوان اس دن مارے ڈر کے مسجد نہیں گئے۔ اس تحریر کو لکھے جانے سے پہلے میں جامعہ اور بٹلہ ہاؤس کے بہت سے لوگوں سے ملا۔ ایک تکلیف دہ بات اور بھی سامنے آئی۔ کچھ مسلم بچے جنہیں نئی نئی اپنی پرائیوٹ نوکری کو جوائن کرنے کا پیغام ملا تھا، انہیں نوکری پر آنے سے منع کر دیا گیا— (شاید یہ بھیانک بات آپ کو معلوم ہو کہ آج بھی دلی سے ممبئی تک کسی مسلمان کا اپنے لیے کرائے کا مکان تلاش کرنا ایک بے حد مشکل کام ہوتا ہے۔ عام طور پر مکان مالک کرائے دار مسلمانوں کو اپنا گھر نہیں دینا چاہتے— جاوید اختر جیسے لوگوں کو بھی مبئی میں اپنا گھر خریدنے پر خبر بننا پڑتا ہے— بھلے ہی ان باتوں کو فرقہ واریت سے جوڑا جائے لیکن یہی سچ ہے۔ جامعہ والی واردات کے بعد تو مسلمانوں کے لیے رہائشی مکانوں کو تلاش کرنا اور بھی مشکل کام ہوگیا ہے۔

اسی ملک میں وہ بھی ہوا ،شاید جس کو کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں لایا جاسکتا تھا— جو شاید بابری مسجد گرانے اور گودھرا کی واردات سے زیادہ شرمناک تھا۔ بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹرس کی وادات کے کچھ ہی روز بعد ایک پورے محلے پر پابندی لگا دی گئی— ہماری گلوبل تہذیب کو کہیں نہ کہیں انٹرنیٹ یا فاسٹ فوڈ کلچر سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ انکاؤنٹر کے بعد جو خبریں آئیں وہ دردناک تھیں۔ انٹر نیٹ ایجنسیوں نے نئے کنکشن دینے سے انکار کر دیا — یہاں تک کہ جنک فوڈ یا پیزہ ڈلیور کرنے والوں نے کہا کہ ہم جامعہ میں ڈلیوری نہیں دیں گے۔ لیجئے نئی دنیا کے دروازے جامعہ کے لئے بند— وہ بھی ایک ایسے فرضی انکاؤنٹر کے لیے، حکومت جس کی مصنفانہ جانچ تک کرانا نہیں چاہتی تھی—

کیا ممبئی کے سیکڑوں انکاؤنٹرس فرضی نہیں پائے گئے؟ جس کے بارے میں میڈیا چیخ چیخ کر عام دنوں میں مسلمانوں کے لیے نفرت اور ذہر بھرا کرتی تھی؟

کیا گجرات میں بنجارہ کے ذریعہ ہونے والے انکاؤنٹرس فرضی نہیں تھے؟ یہ مت بھولیے کہ جب سہراب اور اس کی بیوی پر میڈیا دہشت گردی کے الزام طے کرتی ہوئے ۴۲۔۴۲ گھنٹے ہر ایک ہندوستانی کے دل میں مسلمانوں کی بری شبیہ پیش کر رہی تھی، ان واردات سے ملک کا ایک ایک مسلمان اپنے دامن پر ان داغوں کو لگا ہوا محسوس کر رہا تھا— لیکن کیا ہوا؟ سچائی سامنے آئی اور بنجارہ آج سلاخوں کے پیچھے ہیں— یہاں میں بڑی بڑی باتوں یا بڑے بڑے فلسفوں میں الجھنا نہیں چاہتا۔ بدلے بدلے سے ہندوستان کا یہ چہرہ بھی دیکھئے۔
(الف) جہاں چھوٹے چھوٹے مسلم معصوم بچوں کو اسکول میں ان کے دوست اسامہ یا دہشت گرد کہہ دیتے ہیں اور ان کے پاس یہ جواب نہیں ہوتا ’کہ دہشت گرد کسی مذہب کے نہیں ہوتے۔‘
(ب) میری نیٹ فرینڈ سومیا بنرجی جس سے میرے رشتے دو سال پرانے تھے، اس نے یہ آف لائنس مجھے بھیج کر چونکا دیا، کہ تم مسلمان ہو، میں اب تم سے رشتہ نہیں رکھ سکتی۔

شاید تقسیم کے بعد سے ہم مسلسل ایسی صورت حال کا شکار ہو رہے ہیں جہاں ہر کاروائی یا واردات میں شک کی سوئی اچانک ہماری طرف تن جاتی ہے— اور بار بار دوستوں وسکی کے ایڈیٹ کی طرح سامنے آکر مسکراتے ہوئے ہمیں یہ جواب دینا پڑتا ہے— کہ بھائی اسامہ ہم نہیں ہیں— پاکستان سے آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے— کہ بھائی دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا— کہ بھائی فلاں کاروائی ہم نے نہیں کی۔

سن ۳۰۰۲، جلتے ہوئے گجرات پر میری کتاب ’لیبارٹری‘ شائع ہوئی تھی— جس کے اجراء میں نامور جی، راجندر یادو اور کملیشور جیسے بڑے نام بھی شامل تھے— اجراء کے ٹھیک دوسرے دن رات کے گیارہ بجے میرے گھر دو پولس والے آئے، مجھ سے کہا گیا، مجھے لودھی روڈ تھانہ بلایا گیا ہے— میرا سارا خاندان پریشان ہو گیا۔ میں نے اس کی اطلاع راجندر یادو جی کو بھی دی۔ انہوں نے کہا۔ جاؤ دیکھو— گھبرانا مت— ٹھیک گیارہ بجے دن میں لودھی روڈ تھانہ میں موجود تھا۔ وہاں اپنی اہلیہ کی موجودگی میں راجویر (انکاؤنٹر اسپیشلسٹ، جس کو قتل کیا گیا) سے جو پہلا جملہ میں نے کہا، یہ وہ تھا—’اگر میں اس ملک کے لیے وفادار نہیں تو اس ملک کے لیے کوئی بھی وفادار نہیں ہوسکتا— وہاں میری پوری فائل کھلی ہوئی تھی۔ مجھ سے بیہودہ اور اس طرح کے شرمناک سوال پوچھے گئے.... جیسے ’کشمیر کے فلاں شخص کو میں جانتا ہوں؟“

”پاکستان کا فلاں آدمی کبھی میرے گھر آیا؟“

میں نے ان سوالوں کے جواب میں کہا ”ہندوستان کی طرح میری کہانیاں پاکستانی اخباروں میں بھی شائع ہوتی ہیں— پاکستان سے کبھی کبھار میرے قلمکار دوست ہندوستان آتے ہیں تو وہ مجھ سے بھی ملنا چاہتے ہیں— لیکن میں ان سے نہیں ملتا۔ میں اسی خوف کی وجہ سے ان سے نہیں ملتا کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں جو آج پیدا ہوئے ہیں۔“ چار پانچ گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ در اصل آپ کا نام دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں ہے۔ ہم آپ کو سکیورٹی دینا چاہتے پیں۔“میرا سیدھا سا جواب تھا— ’مجھے سکیورٹی نہیں چاہئے— جاتے جاتے انہوں نے ایک توپ اور داغی— ’آپ کہانیاں لکھئے— مضامین مت لکھئے— میں نے پوچھا ’کیا میں اسے دھمکی سمجھوں؟ مسکراتے ہوئے جواب ملا— ’دھمکی ہی سمجھئے— مضمون لکھنے سے باز آ جائیے۔‘

فرقہ واریت کے ان چہروں کو دکھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ اب بھی سمجھ جائیے کہ کوئی بھی حکومت آپ کی نہیں ہے— ہم ایک بار پھر تقسیم کے دروازے پر کھڑے ہیں—؟ بھاجپا کے دور اقتدار میں ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کا جو کام میڈیا (منوج رگھو ونشی کے زہر بھرے پروگرام) اور حکومت نے شروع کیا تھا، کانگریس اسی کام کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ علیحدگی پسند کی ایک نئی تہذیب چپکے چپکے اس آزاد بھارت میں پیدا ہو رہی ہے— کیا کسی کو اس کا احساس ہے؟ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے کہاں گم ہو گئے۔ یہ کیسی تہذیب ہے جہاں مسلمانوں کو اپنی حفاظت کے لیے ایک الگ پاکستان تلاش کرنا پڑتا ہے— ایک ایسی بستی جہاں صرف مسلمان رہتے ہوں— (میں جس کالونی میں رہتا ہوں اس کا نام تاج انکلیو ہے— یہاں 358 فلیٹ ہیں مسلمانوں کے۔ آزادی کے بعد کی فرقہ واریت، اڈوانی جی کی خطرناک رتھ یاتراؤں نے غیر محفوظ مسلمانوں کو اس کا احساس کرایا کہ انہیں ایک جگہ رہنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ احساس کس نے کرایا؟ کیا جامعہ جیسے فرضی انکاؤنٹرس کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کا ایسا سوچنا ناجائز ہے؟

ہندی رسالہ پاکھی ، نومبر ۸۰۰۲ کے شمارے کے اداریہ میں، اپورو جوشی نے لکھا۔ ”اگر اس ملک کے مسلمان ایک لمحہ میں اسلام کے نام پر دھندا کر رہے دھوکہ بازوں کو چاہے وہ راج نیتا ہوں یا مذہبی نیتا، سے باز آنے کے لیے کہیں تو یقیناً ہندوتو کے ٹھیکیداروں کی زبان بھی بند ہو جائے گی— پھر کوئی مودی ہزاروں معصوموں کی بلی لے کر بھی اقتدار میں نہیں بیٹھا رہ سکے گا۔“

ہنس (نومبر 2008) میں آشوتوش نے ’جامعہ انکاؤنٹر اور مسلم شناخت‘ کے بہانے صلاح دیتے ہوئے تحریر کیا۔

’اگر مسلمان، مودودی ، اسامہ اور جواہری جیسی سوچ کا شکار ہو گئے تو اس مذہب کا کوئی مستقبل نہیں بچے گا— جو امن اور شانتی کا سبق پڑھاتا ہے— اس ماسٹر مائنڈ کی زبردست مخالفت کرنے کا وقت آ گیا ہے— اگر اب ایسا نہیں ہوگا تو، ام جے اکبر جیسے لوگ تاریخ میں ولین کی صورت میں دیکھے جائیں گے اور ہندو کٹّر پنتھی جیسی طاقتیں اس ملک پر راج کریں گی—‘

ان سوالوں کا سیدھا سا جواب ہے، آخر کسی بھی دہشت گرد کاروائی کے لیے ملک میں پورے مسلمانوں کا سامنے آنا کیوں ضروری ہے؟ کیا پرگیہ معاملہ میں سارے ہندو آکر یہ جواب دیں گے کہ اس کاروائی کے پیچھے وہ نہیں ہیں— یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کسی بھی دہشت گردی کی حمایت میں ملک کا کوئی بھی مسلم نیتا کبھی سامنے نہیں آیا۔ چاہے وہ بخاری ہوں یا شہاب الدین۔ لیکن پرگیہ کے معاملے میں تو جیسے بھاجپا اور سنگھ پریوار کھل سامنے آ گیا تھا۔ اما بھارتی تو پرگیہ کو اپنی پارٹی سے ٹکٹ تک دینا چاہتی تھیں۔ کیونکہ اپنے گھر کو اپنا گھر کہنے کے لیے بار بار مسلمانوں کو اس ملک کے آگے اپنی صفائی دینی ہوگی؟ کیسے حالات ہیں کہ وہ اپنے لیے الگ کالونی یا انکلیو کی مانگ کرتے ہیں۔ کیا یہ افسوسناک صورت حالت نہیں۔

انتظامیہ، فوج وغیرہ سبھی جگہوں پر سنگھ کے بڑے افسر خاموشی سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں تو کیا عام میڈیا اس خبر سے آشنا نہیں—؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ اس طرح کی زیادہ تر دہشت گرد کاروائیوں کے پیچھے صرف سنگھ کا ماسٹر مائنڈ رہا ہے، جو اپنی اس گھناؤنی سازش میں کامیاب ہے کہ اتنے شکار کرو، کہ ہر ایک مسلمان پر دہشت گرد ہونے کا شبہ ہو۔

کیا سنگھ کی ان ناپاک سازشوں کا حالیہ سرکار کے پاس کوئی حل نہیں؟ کیا واحد راستہ نوجوان مسلمانوں کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان لگانا ہی ہے— کیا سنگھ کے معاملے میں اپنی زبان کھول کر کانگریس ہندو ووٹوں سے اپنے ہاتھ دھو بیٹھے گی— ان سے بھی بڑا ایک سوال ہے— میڈیا اس آتنک وادی بازار سے کب اپنا پیچھا چھڑائے گی— جہاں ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں وہ مسلسل ملک کو ایک نئے خطرے کی جانب دھکیل رہی ہے۔

سو سال پہلے امریکی آزادی کے حلف نامے پر دستخط کرنے والوں نے ایک خواب دیکھا تھا— کب ختم ہوگی نا انصافی؟ غلاموں کی زندگی میں کب آئے گی امید کی کرن — ۲۶ برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی بڑھتی پھیلتی آگ بار بار ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں شاید اسی سوال کو اٹھاتی رہی ہے— کب ختم ہوگا، غیر محفوظ ہونے کا احساس—؟ فی الحال تو راجستھان سے ممبئی اور عدلیہ کے حالیہ فیصلے کو دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھ کر ان ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔

آخر میں
میں نے ایک چھوٹی سی آواز بلند کرنے کی ہمت کی ہے— اس میں تلاش ماضی کے بلیغ استعارے نہ سہی، اس میں آج کی آواز تو شامل ہے۔ میں نہیں جانتا، اردو دنیا میں اس ناول کا استقبال کیا جائے گا یا نہیں— مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ میں اپنی تخلیق میں کبھی بھی خود کو دہرانا پسند نہیں کرتا— اس ناول میں بھی میں نے خود کو دہرانے کی کوشش نہیں کی ہے— اب یہ ناول آپ کے سامنے ہے۔ اس یقین کے ساتھ، کہ نئی دنیا کے اس ’بے رنگ تحفے‘ کو آپ تک پہنچاتے ہوئے مجھے کوئی خوشی نہیں ہے۔ لیکن ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ میں نے اپنی بات آپ تک پہنچانے کی جرات ضرور کی ہے۔
Mosharraf Zauqui
About the Author: Mosharraf Zauqui Read More Articles by Mosharraf Zauqui: 20 Articles with 20695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.