بنیاد پرست٬ شدت پسند اور دہشت گرد

جب سے دنیا پہ ۱۱/۹کا عذاب اترا ہے دنیا مذکورہ تینوں الفاظ کی تعریف میں سر بگریباں ہے لیکن آج تک کوئی نابغہ ان الفاظ کی وہ تعریف وضح نہیں کر پایا جس پہ سب متفق ہو سکیں۔ایشیائی ان الفاظ کی کچھ اور تشریح کرتے ہیں تو یورپی اس کا کچھ اور مطلب نکالتے ہیں۔مسلمان اس کا کچھ اور مطلب نکالتے ہیں تو ہندو اپنا راگ الاپتے ہیں۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔جس طرح مسلمانوں ہندوؤں اور یورپین اقوام کے رہن سہن ،طور طریقوں ،شرم و حیا کے معیار اور ایمان و نفاق میں فرق ہے بعینہ اسی طرح ان الفاظ کی تشریح بھی مختلف ہے۔وہ بنیاد پرستی اور شدت پسندی میں اگر کوئی فرق نہیں جانتے تو یہ ان کا قصور نہیں اس کی وجہ ان کی وہ تاریخ ہے جو وہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں رقم کر چکے ہیں جب کیتھولک اور پر و ٹسنٹ آپس میں باہم دست و گریباں تھے۔نہ صرف دست و گریبان بلکہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے۔جب کہ ہمارے ہاں بنیاد پرست اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اسلام کے بنیادی ارکان کا پیرو ہو۔کلمہ نماز روزہ زکٰوہ اور حج اسلام کے بنیادی ارکان ہیں۔مسلمان اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان ارکان پہ ایمان نہیں لاتا۔ان ارکان پہ عمل بھی ہر مسلمان کرنا چاہتا ہے اور جو کسی وجہ سے نہیں کر پاتا وہ بہرحال اس پہ شرمندگی ضرور محسوس کرتا ہے۔یہی بنیاد پرستی ہے جو اسلام کی روح ہے اور مسلمان کی آن۔کوئی مسلمان خواہ وہ کتنا ہی لبرل کیوں نہ ہوکتنا ہی نام کا مسلمان کیوں نہ ہو ان بنیادی ارکان سے انکار نہیں کرتا۔ہمارے ہاں یہی بنیاد پرستی ہے اور ہر مسلمان بنیاد پرست ہے۔

اب آتے ہیں شدت پسندی کی طرف۔بنیاد پرستی کی طرح شدت پسندی کی بھی اپنی اپنی تعریفات ہیں۔اسی طرح اس کی اپنی اپنی اقسام بھی۔مذہبی شدت پسندی،سیاسی شدت پسندی،سماجی اور معاشی شدت پسندی۔ان میں مؤخر الذکر دو اقسام کی بات کم ہی کی جاتی ہے۔جب کوئی آدمی اپنے خیالات میں اس قدر پختہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں کسی دوسرے کے خیالات کو خاطر میں نہیں لاتا تو وہ شدت پسند کہلاتا ہے۔یہ دنیا مفادات کی دنیا ہے۔یہاں ہر شخص ہر ادارہ ہر قوم ہر ملک اپنے اپنے مفادات کی سوچتا اور بات کرتا نظر آتا ہے۔مذہبی شدت پسندی میں آج کل مسلمان دنیا کی منقار پر ہیں۔اس میں کچھ تو گوروں کے اپنے خدشات ہیں کہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد انہیں اگر کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہ صرف اسلام سے ہے۔اسلام سے یہ خوف انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے لٹھ لے کے پڑے رہیں۔کچھ اس میں مسلمان شدت پسندوں کا بھی کمال ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو صرف نظر کر کے انہوں نے دوسروں پر اپنی روایات اور پسند کو اسلام کا نام دے کر مسلط کرنے کی جو شعوری کوششیں کی ہیں اس نے عام آدمی کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بے پناہ شکوک و شبہات پیدا کر دئیے ہیں۔اسی بناء پہ ان حلقوں میں جو باوجود کوشش کے اسلام میں ایسی کوئی چیز تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے جس سے وہ اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات کے اثر سے بچا سکتے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام یورپ کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن رہا تھا لیکن ان نام نہاد مسلمانوں کی ان حرکات کی وجہ سے لوگ ان سے تو متنفر ہوئے ہی ،اسلام کو بھی خوف اور دہشت کا مذہب تصور کرنے لگے۔دوسری طرف ہندو ہیں جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔ان کی عبادت گاہوں کو گرا دیتے ہیں۔اس میں مسلمانوں سکھوں اور عیسائیوں کی کوئی تخصیص نہیں۔انہیں کوئی شدت پسندی کا طعنہ نہیں دیتا۔وہ کشمیریوں کی نسل کشی کرتے ہوئے لاکھوں کشمیریوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں لیکن کوئی انہیں سیاسی شدت پسند قرار نہیں دیتا۔جب وہ پاکستان کے حصے کا پانی بھی اپنے استعمال میں لے آتے ہیں تو کوئی انہیں معاشی شدت پسند قرار نہیں دیتا۔جب وہ ورلڈ کپ میں جیتنے کی پیش گوئی کرنے والے طوطے کو مار دیتے ہیں تو کوئی انہیں سماجی دہشت گرد قرار نہیں دیتا۔وجہ کیا ہے اس کی؟ پاکستان کی جڑیں کاٹنا امریکہ اور اس کے حواریوں کے مذہبی اور سیاسی مفاد میں ہے جب کہ بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانا ان کے معاشی مفادات میں ہے۔ورنہ شدت پسندی کہاں نہیں۔کیا امریکہ میں نہیں جہاں عافیہ کو تو پچاسی سال کی سزا سنائی جاتی ہے اور ریمنڈ ڈیوس کے لئے سفارتی استثناء کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

یہ موضوعات گو کہ ایک پوری کتاب کے متقاضی ہیں اور انہیں ایک کالم میں بیان کرنا آسان نہیں لیکن آخر میں ہم دہشت گردی کی بس اتنی ہی تعریف کرتے ہیں کہ ہر وہ آدمی جو اپنا نقطہ نظر بندوق کے زور پر اپنے نظریات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو۔بھلے اس کے نظریات سو فیصد صحیح ہی کیوں نہ ہوں شدت پسند ہی کہلائے گا۔کم از کم اسلام اس شخص کو دہشت گرد ہی قرار دیتا ہے۔اسلام ہی ایسا دین ہے جو سبز درختوں اور کھڑی فصلوں تک کی زمانہ جنگ میں بھی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔شدت پسند اگر اپنے نظریات کی تبلیغ چاہتا ہو اسے دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہو تو اسے برا قرار نہیں دیا جا سکتا۔کہ اپنے خیالات اور افکار عقائد اور نظریات ہر شخص کو عزیز ہوتے ہیں اور اسے بلاشبہ دوسروں تک پہنچانے کے اس کے حق کو سبھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے لئے باہمی گفت و شنید ہی کا رستہ مسلمہ ہے۔اگر ایک شخص بات چیت کے لئے راضی ہے ۔دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے کے لئے وہ راضی ہے تو اسے دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔ دہشت گرد صرف وہی ہے جو کسی دوسرے کو اپنے نظریات خیالات اور فیصلے ماننے پر کسی بھی حربے اور کسی بھی طریقے سے مجبور کرتا ہے۔اب اس نتیجے کی روشنی میں فیصلہ میں آپ پر ہی چھوڑتا ہوں کہ اس وقت دنیا میں سب سے بڑا دہشت گرد کون ہے اور چھوٹا دہشت گرد کون۔بنیاد پرستی کہاں تک جائز ہے۔شدت پرستی کو کہاں تک برداشت کرنا چاہئیے اور دہشت گردوں کو کیسے کیفر کردار تک پہنچانا چاہئیے۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.