عقائد کیونکر کمزور ہوتے ہیں؟؟

کہتا ہے کہ میرا دوست جس کا بچپن اچھا گزرا، اچھی تعلیم حاصل کرتا ہے، کالج، یونیورسٹی سے لے کر پاکستان کے اچھے بلندمعیار تعلیم اور اصولوں کاپاسدار ادارے میں تربیت پانے والا،زندگی کے ایسے ٹرننگ موڑ پر آجاتا ہے کہ اس کو کسی بھی طرف موڑ ا جا سکتا تھا، دین سے دوری، مسلک اور عقیدہ کی تبدیلی وغیرہ وغیرہ۔ کہتا ہے زندگی کی 40بہاریں درمیانہ معیار زندگی گزارنے۔۔۔۔

وقت اور حالات کا مدو جذر کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے

زندگی کے پیچ و خم اور وقت کے مدو جذر نے انسان کو انسانیت کے دائرہ میں کس کسمپرسی میں رہنے پر مجبور کر دیا اس کا بیان کرنا ایک بڑا مشکل کام ہے۔ اللہ رب العزت کا قانون(قرآن مجید) اور اسوہ حسنہ ہوتے ہوئے آدمی/انسان کے عقائد کیوں کمزور ہو جاتے ہیں یا وہ کمزور عقیدے کی طرف کیوں رخ موڑنے پر مجبور ہو جاتاہے؟؟ ایسا ہی ایک واقعہ جو سچا ہے، زندگی کا اتار چڑھاؤ کس طرح عقیدے کمزور کرنے پر مجبو ر کرتا ہے!!

کہتا ہے کہ میرا دوست جس کا بچپن اچھا گزرا، اچھی تعلیم حاصل کرتا ہے، کالج، یونیورسٹی سے لے کر پاکستان کے اچھے بلندمعیار تعلیم اور اصولوں کاپاسدار ادارے میں تربیت پانے والا،زندگی کے ایسے ٹرننگ موڑ پر آجاتا ہے کہ اس کو کسی بھی طرف موڑ ا جا سکتا تھا، دین سے دوری، مسلک اور عقیدہ کی تبدیلی وغیرہ وغیرہ۔ کہتا ہے زندگی کی 40بہاریں درمیانہ معیار زندگی گزارنے کے بعد جب زندگی نے ایک بڑے اور کٹھن امتحان میں ڈالا تو بزرگوں کے کہے گئے قول،اقوال، معقولے، اردو، پنجابی کی سب کہاوتیں سچ ثابت ہونے لگیں۔ معاشی بد حالی زندگی کو ایسے دوہراے پر لے آئی کہ وہ اپنے اندر کے مسائل کسی سے شیئر بھی کر پاتا، کیونکہ قیض اٹھانے سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہو تا ہے۔ راز داں بنانے والے اکثر بعد میں تمسخر اڑاتے ہیں، اخلاقی اور معاشی داد رسی کی بجائے رنگی برنگی محفلوں میں بیٹھ کر تذلیل کرتے ہیں۔ کوئی ایسا دوست نہیں تھا جو اس کی آنکھوں کو دیکھ کر، چہرے کو پڑھ کر اس کے اندر کی ہل چل کو سمجھ سکتا۔دوست آتے، ملتے چائے پانی بھی پیتے لیکن کبھی چائے کے کپ کے علاوہ ان کی نظر نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا پسند نہ کیا۔ رشتہ دار منہ موڑ گئے، سایہ ساتھ چھوڑ گیا، گھر فاقوں کا شکار، میاں بیوی میں معمولی بات پر بحث و تکرار، لڑائی جھگڑا وغیرہ روز کا معمول بن چکا تھا۔ آہستہ آہستہ اپنے پرائے فصلی بٹیرے سب اپنی اپنی راہیں بدل چکے تھے۔ جن کو اسے ملے بغیر نیند نہ آتی تھی، ان کے آنے اور جانے کی خبر تک نہ پتہ ہوتی۔ جب اسے پتہ چلتا خاموش ہو جاتا۔ رب کریم کے سامنے روتا، رات کو اپنے رب سے گلہ کرتا اور نفل ادا کرتا، رب کے حضور گڑ گڑا کر معافی کا طلب گار ہوتا لیکن اس کے ساتھ کچھ اس طرح ہوا کہ ”جوں جوں دعا کی مرض بڑھتا گیا“حتیٰ کہ وہ دن بھی آگیا جس دن بھوکے بھی سونا پڑا۔دن بدن ابتر ہوتے گئے امتحان تھمنے پہ نہ آیا، اس میں خشیت ایزدی کیا تھی وہ رب کائنات ہی جانتا ہے جس نے امتحان میں ڈالا۔ بے رب کریم سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے کہ”میں کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا “کیونکہ بندہ جلد باز ہے سمجھ نہیں پاتا ہے کہ اس کی طاقت کتنی ہے اور رؤف الرحیم اس سے کتنا پیار کرتا ہے۔ خیر وقت کے معاشی مسائل نے اس کو اس حد تک پہنچا دیا کہ وہ نیٹ پر سرچ کرنے پر مجبور ہو گیا کہ اگر مسلک، عقیدہ یا خدا نخواستہ مذہب، دین تبدیل کرتا ہوں تو مجھے کون اپنائے گا اور میری معاشی معاملات میں کون مددکر ے گا۔۔ اللہ کا کرنا کچھ ایسا ہوا اسے کوئی بھی ایسا لنک نہ ملا۔ میں نے پوچھا ایسا کیوں کیا؟؟ وہ کہنے لگا دوست جو آدمی ان حالات میں گزر رہا ہوتا ہے وہ ہی اس سختی کو سمجھ سکتا ہے، جس کے زخم رس رہے ہوں لیکن تیمارداری کرنے والا صرف چند الفاظ میں مشورہ تو دیتا ہے لیکن اس کی مدد کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں۔ جو آدمی اسلامی معاشرہ میں رہ رہا ہو، گنجان آباد علاقے کامکیں ہو۔ ایک شریف النفس انسان ہو جس کے قول وفعل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے تو وہ ایسی سوچ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے انسان کی قدریں کم ہو جائیں تو پھر شیطان کو بہترین موقع ملتا ہے اسے بے راہ روی پر مجبور کرنے کا۔ جب بندہ ایسے حالات کا شکار ہو جائے تو پھر عقیدے کی مضبوطی کمزوری میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ پھر اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ میرے جیسا ایک مضبوط اعصاب کا بندہ بھی سیدھی راہ سے اکھڑ سکتا ہے تو پھرہماری جوان نسل کو ہٹانا تو بہت ہی آسان ہے، جس کی کوئی اولاد نہیں، اس کی مجبوری کو سامنے رکھتے ہوئے motivation کرو تو اس سے جودل میں آئے کروا سکتے ہیں، بم دھماکے،جنت اور حوروں کے خواب، معاشی بدحالی کو بدلنے کے لیے راہزن اور ڈاکو، لوٹ مار کا بادشاہ وغیرہ وغیرہ۔ پھر وہ کہنے لگا کہ اس میں زیادہ قصور ریاست اور وقت کے حکمران کا ہوتا ہے۔ جب ریاست اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں فیل ہو جاتی ہے تو سفید پوش بے بس اور لاچار ہو کر بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر معاشرہ اور اس کا اڑوس پڑوس جو اس کی بیوی، بہن، بیٹی کے گھر سے آنے جانے کے اوقات اور پہنے ہوئے کپڑوں کی تفصیل تو جانتا ہے لیکن اس کے گھر کے حالات نہیں جانتا۔
وہ کہنے لگا زندنگی کا امتحان ضرور ہونا چاہیے تاکہ اپنے، پرائے، اور فصلی بٹیروں کا پتہ چل سکے، خون دینے والے اور چوری کھانے والے مجنوں کی پہچان ہو سکے۔ کہنے لگا ”میرے رب کریم، کل کائنات کے مالک اپنے بندوں کو ایسے امتحان میں نہ ڈال جس سے وہ دنیاداری میں رہتے ہوئے بے بس ہو جائیں بے شک تیری پاک ذات کہتی ہے کہ ”میری رحمت سے مایوس نہ ہو“ لیکن بندہ، بندہ ہے شیطان کے بہلاوے میں آجاتا ہے۔ اپنی ہر پریشانی کا مداوہ فوراً چاہتا ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے معاشرے کو سچااور کھرا اسلامی معاشرہ بنا د ے آمین۔

 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 157086 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More