اشتہارات اور پروپیگنڈا

* بھاگ کر شادی کرنی ہو تو کریم بک کریں
* باپ کی مت سنو
* چار دیواری کے یہ داغ اب نہیں رہیں گے

ایسے بے شمار نعروں پر مبنی اشتہارات جس میں کسی نہ کسی طور ہمارے کلچر، مذہب اور مشرقی روایات کا مذاق اڑایا جاتا ہو یا دانستہ طور پر لوگوں کو اس کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی جاتی ہو۔۔۔

میں چونکہ میڈیا کا طالب علم ہوں اور اس طرح کی اشتہارات، میڈیا کنٹنٹ اور اسکی تشہیر پر قدرے تنقیدی علم بھی رکھتا ہوں، چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کریں

سب سے پہلی بات، اس سرمایہ دارانہ ماحول میں اخلاقیات، روایات اور اقدار کو محض ایک کاروباری ذریعے کے بطور دیکھا جاتا ہے، ہر سرمایہ دار چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکھٹی کرے خواہ وہ کسی بھی ذریعہ کو استعمال کریں

دوسری بات، لبرل اور سیکولر طاقتیں بھی مذہب پسندوں کیطرح اس مسلسل کوشش میں لگی رہتی ہیں کہ اپنی سوچ کو ہر انسان تک مختلف انداز میں پہنچا سکیں کیونکہ یہ لوگ بھی اپنا ایک مخصوص نظریہ اور ایجنڈا رکھتے ہیں مگر مذہبی طاقتوں یا مذہب کو سنجیدہ لینے والوں کے مقابلے میں یہ لوگ کافی سمجھدار اور سسٹم کو اپنے لئے بطور ذریعہ استعمال کرنے میں ماہر ہیں جس کیوجہ سے ابھی تک کامیابی کیساتھ محو سفر ہیں، یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیکولر طاقتیں حملہ آور اور مذبی طاقتیں بلخصوص اسلام پسند (ناکام) محافظ بنے ہوئے ہیں۔۔۔اور اسکے الٹ سوچنے کا تو کبھی ایک دور ہوا کرتا تھا

یہاں پر بات کرنا آج کل کی ایرئیل کمپنی کی نئی اشتہار پر مقصود ہے، انہوں نے بھی (ہمیشہ کیطرح) ایک خاتون کو بطور تلوار استعمال کرتے ہوئے ایک کھلاڑی کے طور پر دکھایا ہے جو والد اسے کرکٹ کی اجازت نہیں دیتا مگر یہ بغیر اجازت بھاگ کر ٹرائل دے دیتی ہے اور کامیاب ہوکر پورے محلے میں مشہور ہوجاتی ہے، اسی طرز پر Q مبائل کا اشتہار، جس میں "باپ کی بات مت مانو" پر زور دیا گیا تھا اور کچھ ہفتے پہلے کریم کمپنی کا اشتہار جسے لڑکیوں کو بھاگ کر شادی کرنے پر ورغلانے کی کوشش کی گئی تھی

ان جیسے اشتہاروں کو جان بوجھ کر بنایا جاتا ہے اور اس میں ایک متضاد پہلو اپنی تشہیر کیلئے دیا جاتا ہے جس کیوجہ سے جذباتی لوگ اشتغال میں آکر اس اشتہار کو برا بلا کہہ کر پورے صارفین تک (غیر ارادی طور پر) پہنچا دیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اشتہار وائرل ہوجاتا ہے، صحافت کی زبان میں اسے Negative Propaganda Technique کہا جاتا ہے

اس سے کمپنی والوں کو کئی فوائد حاصل ہوجاتے ہیں، پہلا فائدہ تو اسکی تشہیر دگنی بلکہ کئی گنا ہوجاتی ہے، یعنی اشتہار کا بنیادی مقصد صارف کو اپنی یاد دلانا اور یقین دہانی کرانا مقصود ہوتی ہے جو اس طریقے سے وہ بڑی حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں، اسی طرح ان کی اس خاص ذہنیت کو بھی تسکین مل جاتی ہے جس وجہ سے یہ اشتہار بنایا گیا ہوتا ہے اور ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ بعض دفعہ کچھ قوتوں کیطرف سے اس جیسی اشتہارات سپانسرز ہوتی ہیں اور بھاری معاوضہ ملتا ہے اسلئے کمپنی کو ایک طرف سے اگر معاوضہ ملتا ہے دوسری طرف دگنی سے بھی زیادہ تشہیر تو "پیاسے کو پانی کے سوا کیا چاہئے" کی مصداق پر وہ خوشی خوشی اس پیشکش کو قبول کرتی ہے

اور جب کبھی کھبار عوام کی بھرپور احتجاج پر حکومت مجبور ہوجاتی ہے یا یوں کہئے کہ کسی اعلٰی شخصیت میں تھوڑی کچھ غیرت سر اٹھاتی ہے تو وہ اس کمپنی کے مالکان کو زیادہ سے زیادہ اس اشتہار کو ہٹانے کا (مؤدبانہ) گزارش کرتی ہے کیونکہ بعض دفعہ حکومت میں یہی سرمایہ دار سٹیک ہولڈر کیطرح حصہ دار ہوتے ہیں، یوں وہ قانونی طور پر بھی با حفاظت بری ہوجاتے ہیں

Jعرض یہ ہے کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں اور نہ آخری ہوگا یہ چلتا رہے گا اور اسے چلتا رہنا بھی چاہئے کیونکہ یہی تو اصل طاقتیں ہیں جو ملکی نظام کو قابو میں لاتے بھی ہیں، پریشر بھی ڈالتے ہیں اور جب مرضی ہوئی تو تعیر بھی کرتے ہیں اور ان طاقتوں کی بنیاد پر ہی تو ہمارا نظام بدلتا ہے

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں درمیانے اور متوسط سوچ کے دانشوروں اور سیاسی شخصیات کی شدید ضرورت ہے جو معاشرے کی ہر تبدیلی کو اپنے حدود و قعود سے موازنے کی حس بھی رکھتے ہو اور جرات بھی، اور عوام کی طرف سے ایسے لوگوں کو داد و تحسین دینے کی بھی ضرورت ہے...
 

Javed Hussain Afridi
About the Author: Javed Hussain Afridi Read More Articles by Javed Hussain Afridi: 15 Articles with 11714 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.