بارہ اکتوبر کی دوبارہ واپسی

متحدہ قومی موومنٹ نے ایک دفعہ پھر اپنا روائتی ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہوئے اسمبلی سیشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ متحدہ کے اس اعلان نے حکومتی قلعوں میں لرزش پیدا کردی۔ سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی کارفرمائیوں اور ناعاقبت اندیشیوں نے ماضی قریب میں متحدہ کو کابینہ اور حکومتی اتحاد سے طلاق لینے پر مجبور کردیا تھا۔ صدر اور وزیراعظم کی منت سماجت کے بعد متحدہ نے ہچکولے کھانے والی سرکاری کشتی کو ڈوبنے سے بچالیا تھا مگر دوستی یکجہتی کی پینگیں ابھی افزائش سے گزر رہی تھیں کہ زوالفقار مرزا نے آو دیکھا نہ تاؤ متحدہ پر برس پڑے یوں ریاست کی فضاؤں میں کنفیوژن اور غیر یقینی کے بادل کڑکنے لگے۔ متحدہ کے بغیر حکومتی کشی دلدل میں پھنس جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ذوالفقار مرزا کی چھٹی ہوجائے اور اتحادی نائن زیرو پر آتش عشق کی لذت سے محظوظ ہو رہے ہوں۔۔ متحدہ کو بھی طفل مکتب سے آگے بڑھنا چاہیے۔ بات بات پر عاشق نا مراد کی طرح طلاق لینے سے گریز کرنا چاہیے ورنہ بانجھ پن کا خدشہ اور وسوسہ چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتا ہے۔ متحدہ سندھ میں پی پی پی کے بعد دوسری بڑی سیاسی قوت ہے جس کی سیاسی اہمیت سے سرمو انکار کرنا بدیانتی ہوگی مگر دکھ تو یہ ہے کہ ایک شخص کی لاف زنی پر انا ہٹ دھرمی اور رعونت کا اظہار منجھے ہوئے سیاست دانوں کا شیوہ نہیں کیا ایک ناعاقبت اندیش وڈیرے کی شائیں شائیں پر پورے جمہوری ڈھانچے کو زمین بوس کرنا جمہور دشمنی ہوگی یا جمہور پروری یا جمہوری غداری؟ پاکستان گوناں گوں مسائل میں گردن تک دفن ہوچکا ہے۔ متحدہ کے بائیکاٹ اور پی پی پی سے بیزاری کے اعلانات نے ایک طرف حکومتی اتحاد کو گردن توڑ جھٹکا لگایا تو دوسری طرف شہباز شریف نے اشاروں کنایوں پر جرنیلوں کو بارہ اکتوبر کرنے کی دعوت دیکر سیاسی منظر نامے کو مزید دھندلا دیا ۔ کیا پی پی پی کفار کی جماعت ہے کہ روزانہ نیا بکھیڑا تراش کر اسے غیر مستحکم کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا ٹی وی چینلز حکومت کے خلاف کرپشن اور ناکامیوں کے زہر آلود الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومتی خامیوں کوتاہیوں کو تو خوب اچھالا جارہا ہے تاہم اسکے مثبت اقدامات کو زبان زد عام کیوں نہیں لایا جاتا۔ گیلانی راجدھانی ملکی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ نواز شریف شروع میں اتحادی تھے مگر جلد ہی داغ مفارقت دے گئے مگر پنجاب میں پی پی پی نے25 فروری2011 تک شہباز شریف کا ساتھ دیا۔ پی پی پی کے وزرا کو جس بھونڈے انداز سے کابینہ سے فارغ کیا گیا کیا یہ جمہوری انداز تھا؟ نواز شریف کے 10 نکاتی ایجنڈے کے حوالے سے اپوزیشن نے زرداری و گیلانی کو ننگی تنقید کا نشانہ بنایا مگر جبppp کی صوبائی قیادت نے شہباز شریف کو19 نکاتی ایجنڈہ دیا تو اس پر کسی نے کان نہیں دھرے۔ صدر مملکت اور گیلانی شریف برادران کے تند و تیز لہجے کے باوجود انکے ساتھ رابطے کرتے رہتے ہیں۔ppp نے پختون خواہ میںanp سندھ میں متحدہ پیرپگاڑہ گروپ اور بلوچستان میں ق لیگ اورjui کو اتحادی بنا کر حکومتیں تشکیل دیں تاکہ سیاسی یکجہتی کی خوشگوار فضا میں وزرا اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سیاسی دنگل کی بجائے عوامی فلاح و بہبود خوشحالی و ہریالی کے لئے کام کرسکیں۔ مرکز میں jui متحدANP اور فاٹا کے ممبران کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنائی گئی۔ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لئے سینیٹ کی نشستیں حصہ بقدر جثہ کے تحت تقسیم کی گئیں۔ گیلانی سرکار نے اسمبلی میں نہ تو اراکین کی توڑ پھوڑ کی اور نہ ہی فارورڈ بلاک کا انڈہ دیا اور نہ ہیunification block کا پودا لگایا۔ ق لیگ کے لوٹوں کے ساتھ ملکر پنجاب حکومت بنائی جاسکتی تھی مگر صدر و وزیراعظم نے ایسی وارداتوں کی حوصلہ شکنی تھی۔پی پی پی حکومت کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ ملٹری ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ باہمی ہم آہنگی پیدا کی اور سلامتی و سیکیورٹی کے تمام معاملات آرمی چیف سپرد کردئیے ۔ سول حکومت نے فوج کے ساتھ مفاہمانہ اور دوستانہ روابط استوار کئے ۔ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی مدت ملازمت میں توسیع دی گئی۔ حکومت امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے۔ صدر اور وزیراعظم نے انتہاپسندوں کے خلاف کاروائی اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا اختیار جنرل کیانی کے سپرد کردیا۔ امریکی جرنیلوں نے درجنوں مرتبہ پاکستان یاترا کی اور جنرل کیانی پر شمالی وزیرستان میں عسکری آپریشن کا دباو ڈالا تاہم کیانی ٹس سے مس نہیں ہوئے اور امریکی جرنیل منہ بسار کر واپس چلے گئے۔۔ ایوان صدر وزیراعظم ہاؤس اور کیبنٹ سیکریٹریٹ نے امریکہ کی بجائے آرمی چیف کی حمایت کی۔ حکومت کا ایک اور کارنامہ این ایف سی ایوارڈ تھا جسے چاروں صوبوں کی مشاورت اور تجاویزات کی روشنی میں حل کیا گیا۔ صوبائی خود مختیاری کا گھمبیر ترین تنازعہ ڈائیلاگ سے سلجھایا گیا۔یاد رہے کہ صوبائی خود مختیاری کا معاملہ3 دہائیوں سے اکائیوں کے مابین وجہ عناد بنا ہوا تھا۔ اٹھاریوں ترمیم قابل فخر کارنامہ ہے۔ حکومت نے تمام سٹیک ہولڈرز کو آئینی کمیٹی میں شامل کیا اور ایک نیشنل ایجنڈہ ترتیب دیا اور پھر تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی ممبران کی خواہش کے مطابق اٹھارویں ترمیم کی۔ عدلیہ نے چند تحفظات کا اظہار کیا تو انیسویں ترمیم میں سارے سقم دور ہوگئے۔ سوات آپریشن میں کامرانی اہم ترین فتح ہے۔ کیا گلگت کو صوبائی درجہ دینا احسن اقدام نہیں؟ شمال مغربی سرحدی صوبے کے پختون 62 سالوں سے صوبے کے نام کی تبدیلی کا خواب دیکھتے آئے ہیں۔صدر نے پختونوں کو انکی شناخت دیکر لاکھوں پاکستانیوں کے جذبات کی قدر کی مگر دکھ تو یہ ہے کہ منتخب حکومت کے زریں اقدار کارناموں کو داد نہیں دی جاتی۔ موجودہ حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے ہر روز کوئی شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ دکھ تو یہ ہے کہ غیر جمہوری سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں کو متفقہ طور پر ناکام بنانے کی بجائے سیاسی قائدین اور جماعتیں جرنیلوں کو دعوت دیکر انکے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو مضبوط تر بنانے کی حماقتیں کر رہے ہیں۔ اگر سیاسی قائدین اور حکومت نے دانشمندانہ روش اختیار نہ کی تو پھر کوئی جنرل مشرف بارہ اکتوبر کو لازمی جلوہ گر ہوگا ایسے میں یونیفیکیشن ٹائپ شلغم مولیاں اور گاجریں خش و خاک کی طرح بہہ جاتی ہیں۔ کیا جمہوری حکومت کے ہاتھ مضبوط کر کے روشن پاکستان کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی؟
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 129218 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.