گندم بحران ۔خبردار !!! ہوشیار !!

گندم انسانی غذا کا ایک ایسا جز ہے جس کے بغیرایک انسان کے لیے زندگی گزارنے کاتصور کرنا بھی ناممکن ہے ۔تھائی لینڈ اور چائنہ جیسے ممالک میں گندم کی نسبت چاول کھانے پر زیادہ انحصار کیا جاتاہے مگر پاکستان میں روٹی کااستعمال سب سے زیادہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ گندم غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سب سے بڑا اوراہم زریعہ ہے ،گندم کو پیس کرآٹا تیار کیا جاتاہے جس سے صرف روٹی ہی نہیں بلکہ ،ڈبل روٹی ، بسکٹ ،دلیہ سمت بہت سی کھانے کی چیزوں کو بنایا جاسکتاہے ،اس کے علاوہ گندم کے بیچ کے خمیر سے بہت سی چیزوں کو تیار کیا جاتاہے یعنی صرف انسانوں کے لیے نہیں اس کی ضرورت تو جانوروں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری سمجھی جاتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں گندم اور آٹے کی کوئی کمی بھی نہیں ہے اور اس سلسلے میں حکومتی اسٹاک موجود ہوتاہے لہذااگر کسی وجہ سے آٹے اور گندم کی کمی کا کوئی مسئلہ پید اہوتواس کمی کا فائدہ اٹھانے والے زخیرہ اندوز اور آڑھتی مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتوں کو بڑھا دیتے ہیں ،اس پر صوبائی حکومت کی ذمہ دا ری ہوتی ہے کہ وہ دیکھے کہ مقررہ مقدار میں گندم اور آٹابازار میں مہیا ہے بھی کہ نہیں ؟۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث جو گندم کی فصل خراب ہوئی ہے وہ ایک بڑ انقصان ہے، اس کے باوجود پاسکو کا دس لاکھ ٹن گندم ایکسپورٹ کرنے کارادہ تھا جبکہ اس سلسلے میں 6لاکھ ٹن گندم کی منظوری بھی مل چکی تھی مگریہ اﷲ کا خاص کرم ہوگیا کہ کسی وجہ سے پاسکو صرف دولاکھ ٹن گندم ہی ایکسپورٹ کرسکی اگر خدانخواستہ یہ گندم دس لاکھ ٹن ایکسپورٹ ہوجاتی تو ہمیں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا،جبکہ حکومت کو اس معاملے پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔دوسری جانب معیشت کو خراب کرکے وفاقی حکومت کے خلاف عوام کو بڑھکانااور یہ کہنا کہ یہ سب کچھ وفاقی حکومت کا کیا دھرا ہے ان ہی پلاننگ کا حصہ ہوتے ہیں جب سیاسی مخالفین ایسے مصنوعی بحرانوں کوجنم دیدتے ہیں اور یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ سندھ حکومت ہمیشہ سے ہی عوامی مسائل کو نظر اندازکرتی چلی آئی ہے تھر میں بچوں کی صحت کا معاملہ ہو یاغذا کا سندھ حکومت کے پاس سندھ کے باسیوں کے لیے کوئی میکنزم نہیں ہے جب کراچی جیسے شہر میں عوام بوند بوند پانی کو ترس رہی ہوتو پھر اندورون سندھ کے لوگوں کو کون پوچھے گا بلکل اسی طرح سے باقی اشیاء خوردونوش میں بھی ڈنڈی مارنے کا سلسلہ جاری رہتاہے اب شہروں میں پانی کی کمی ہو یا پھر آٹے کی قیمتوں کو پر لگ جائیں تو پھر سیدھے سیدھے یہ باتیں حکومتی نالائقیوں کو عیاں کرتی ہیں ، رمضان المبارک سے دس روز قبل چیئرمین نیب کی ہدایت پرنیب سکھر نے مجسٹریٹ کے ہمراہ کندھ کوٹ اور کشمور کے گندم گوداموں پر چھاپامارکر گندم بحران پیدا کرنے کی ایک سازش کو بے نقاب کردیا تھا کیونکہ ان گوداموں سے ایک ایک ارب بیس کروڑ کی گندم غائب کردی گئی تھی اور اس کے علاوہ جو گندم موجود تھی اس میں بھی مٹی ملائی گئی تھی یہ ایک چشم کشا حقیقت صرف ایک ماہ قبل ہی قوم کی نظروں سے گزرچکی ہے اس کے باوجود اس بات کاخدشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ سندھ میں ایک بار پھر سے گندم بحران پیدا کرنے کی سازشیں سراٹھانے لگی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ عید کے بعد گندم کی مصنوعی قلت پیدا کردی جائے گی اور اس کے بعد جو گندم درآمد کرناپڑی تو وہ مہنگے داموں فروخت ہوگی جو غریب اور پریشان حال عوام کی قوت خرید سے بہت دور ہوگی ،آج اسی گندم کی کمی کے باعث سندھ میں غذائی قلت کے باعث شیر خوار بچوں کی اموات کا ہمیں نیوز چینلوں کے زریعے معلوم ہوتارہتاہے آئے روز کمسن اور شیرخوار بچے غذائی قلت کے باعث اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ،میں اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلو کہ اس وقت آٹے کا تھوک میں نرخ فی کلوانتیس سے تیس روپے کلو تک ہے جو بعد ازاں پیتیس سے چالیس روپے تک چلا جائے گاجبکہ عوام تک پہنچتے پہنچتے یہ نرخ اس قدر بڑھ جائے گا کہ جسے قابو کرنا نہایت مشکل ہوجائے گا،لہذا سندھ حکومت یہ تمام تر باتیں جانتے ہوئے بھی اگر ایسا کریگی تو خود اس کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ ہوگا، اور انہیں ایک بدترین عوامی ردعمل سے گزرنا پڑیگا،لہذا ضروری ہوگا کہ نہ توخود زخیرہ اندوزوں کی سرپرستی کی جائے اور نہ ہی گندم کو زخیر ہ کرنے کی کسی کو اجازت دی جائے یہ ہی اس کا بہترین او ر واحد حل ہے ۔دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان بھر میں گندم کی پیداوار کی کوئی کمی نہیں ہے ،مگر اس بار سندھ میں جہاں زخیرہ اندوزی کرنے کا ایک بڑا رحجان ہے وہا ں اس بارگندم کی اضافی ترسیل پنجاب میں جارہی ہے کیونکہ پنجاب میں بارشوں کے زیادہ پڑجانے سے گندم کی فصل کو تقریباً پچیس فیصد تک نقصان اٹھانا پڑاہے یعنی جنوبی پنجاب میں تین لاکھ 62ہزار ایکڑ پر کھڑی فصل کو شدید نقصا ن سے دوچار ہونا پڑاہے ، مگر ان تمام باتوں کے باجود موسم کی خرابی اور بارشوں کی زیادتی کا تزکرہ کرکے قیمتوں کو بڑھا دیناایک بہانہ ہی ہوسکتاہے کیو نکہ بہت سے زخیر اندوز اور آڑھتی ان تمام باتوں میں اپنا ہی فائدہ سوچتے ہیں یعنی گرمی زیادہ ہو یا بارشیں ان لوگوں نے اپنا ہی فائدہ ڈھونڈنا ہوتاہے اور حکومتی لوگوں سے چونکہ ان کی ساز باز ہوتی ہے لہذا پھر یہ لوگوں کی آہ بقا پر کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں ،زخیر ہ اندوز ی کی سوچ رکھنے والے بہت سے لوگ ان بحرانوں کا بہت جلد فائدہ اٹھاتے ہیں تاکہ بحرانوں کی صورت میں اپنی من پسند قیمت پر گاہک کوفروخت کی جاسکی جبکہ شدید بحران کی صورت میں وہ ہی شے قلت کے باعث عوام مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔جس پر سندھ حکومت کو اس جانب فوری توجہ مرکوز کردینے کی ضرورت ہے ۔موجودہ بحرانوں کے خدشات کے پیش نظر اب سندھ حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس معاملے کو فلور ملز مالکان اور دیگر ذمہ داران کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کرے۔اور پھر ایک ایسا لائحہ عمل بنائے کہ آٹے کی قلت اور قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے بچا جاسکے ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملات وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ بلکہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس وقت جو عوام میں یہ تاثر ہے کہ ان کا موجودہ مہنگائی کی وجہ سے بہت برا حال ہے اس کا سارا ملبہ بھی وفاقی حکومت پر ہی جاکر گرے گا کیونکہ بہت سے لوگ اس با ت کو نہیں سمجھتے کہ ہر ایک چیز کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس نہیں ہوتابلکہ بہت سے معاملات میں صوبائی حکومتیں خود مختار ہوتی ہیں۔یعنی اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت اپنی خود مختاریوں کا رونا بھی حسب حال سیاسی ضرورتوں میں ہی پورا کریگی تو عوام بھی اب باشعور ہوچکے ہیں وہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ کس کی کیا ذمہ دار ی ہے اور کون ان کے دکھوں اور غموں کی سیاست کرکے اپنی جیبوں کو بھرتے ہیں ۔ٹیلی ویژ ن پر بیٹھ کر سندھ کے حکمران بڑے بڑے بھاشن دینے کی بجائے عملی اقدامات کریں تو یہ تمام چیزیں کہیں دکھائی نہیں دینگی اس لیے اربا ب اختیار کو چاہیے کہ وہ گندم کے بحران سے قبل ہی اس جانب توجہ دیں کیونکہ یہ آپ لوگوں کی بنیادی ذمہ داری ہے اور آپ نے اگر اس پر فوری توجہ نہ دی تو سندھ میں غربت اور افلاس مزید بڑھے گا ۔لہذا ان معاملات سے بچنے کے لیے سندھ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کردے کہ گندم کو زخیرہ کرنے والوں کے خلاف چھاپے مارے جائیں گے اورجو بھی ان زخیروہ اندوزوں کے خلاف ہمیں اطلاع دیگا حکومت اسے انعام دیگی اور اگر سندھ حکومت ایسا نہیں کرتی تو ہمیں یہ سمجھ لینا ہوگا کہ سندھ کے حکمرانوں کے دلوں میں کھوٹ ہے اور یہ سب کچھ ہوبھی ان ہی کی مرضی سے رہاہے ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔
 

Mehmood Molvi
About the Author: Mehmood Molvi Read More Articles by Mehmood Molvi: 5 Articles with 6505 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.