آؤ عید منائیں ۔۔۔۔۔ایک نئے انداز میں

عید ایک ایسا تہوار ہے جو دنیا بھر کے مسلمان ہر سال میں دوبار مناتے ہیں۔ اس دن سب لوگ نت نئے لباس پہنتے ہیں ۔ نئے جوتے لیتے ہیں۔بالوں کی تراش خراش کرائی جاتی ہے۔خواتین بیوٹی پارلرز کا رخ کرتی ہیں۔بچے اپنی پسند کی گھڑیاں خریدتے ہیں اور عید والے دن ڈھیروں کے حساب سے عیدی اکھٹی کرتے ہیں۔ گھر میں انواع واقسام کے پکوان پکائے جاتے ہیں۔ گھر کے سب مردحضرات عید کے نماز پڑھنے عید گاہ جاتے ہیں اور گھر کی خواتین گھر میں ہی نماز کا اہتمام کرتی ہیں۔نماز کے اختتام پر سب لوگ اپنی پسند کے کھانے کھاتے ہیں۔ عزیز اور رشتہ داروں کے گھر جاتے ہیں اور مل کر عید کی خوشیاں مناتے ہیں۔اس طرح کی عید ہم سب ہی مناتے ہیں اور گزشتہ کئی سال سے ہر گھر میں ایسی ہی عید منائی جاتی ہے۔ جس میں ہم اپنی خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں اور دل کھول کر اپنے اور اپنے گھر والوں کے اوپر روپیہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ہمیں ضرور اپنا کمایا ہوا روپیہ پیسہ اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا چاہیے مگر ہمارے معاشرے بہت ذیادہ تعداد میں ایسا بھی سفید پوش طبقہ ہے جس کو یہ تما م سہولیات میسر نہیں ۔ ان کے لیئے عید اور عام دنوں میں کوئی فرق نہیں۔ اپنی خوشیوں کے لیئے یہ لوگ ہاتھ پھیلانا بھی نہیں جانتے ۔ صرف صبروشکر کرکے یہ لوگ اپنی زندگی کی گاڑی کو چلاتے رہتے ہیں۔

مجھے معاشرے میں موجود ایسے لوگوں کے بارے میں واضح طور پر تب اندازہ ہوا جب ان میں سے کچھ خاندانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ نہ تو یہ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں اور نہ ہی ان کو اچھا لباس اور کھانا کھلاسکتے ہیں۔ ان کے بچے کچی آبادیوں اور سستی رہائشی سکیموں کی گلیوں میں پل کو جوان ہوتے ہیں۔ بانٹے اور گلی ڈنڈا کھیلنے والے یہ بچے معاشرے کے فعال شہری نہیں بن پاتے اور اکثر چھوٹے چھوٹے جرائم کرنے شروع کردیتے ہیں۔ان میں سے کچھ تو کسی مستری کے پاس کام سیکھ کر استاد بن جاتے ہیں یاپھر انہی گلیوں میں چلتے چلتے غنڈے اور بدمعاش بن جاتے ہیں۔ہم سب لوگ ہی ان سے واقف ہیں اور اپنے اردگرد ان کو اکثر دیکھتے ہیں۔ لیکن ان کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے ۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ یہ تو حکومت کے کام ہیں کہ وہ ان بچوں کو سنبھالے۔ کسی حد تک تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے میں اس بات سے متفق ہوں لیکن اس سے ذیادہ یہ ہماری اپنی ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دینے میں ہمیں اپنا کردار ادا ضرور کرنا چاہیے۔ ورنہ یاد رکھئیے ! ان میں سے ہی کوئی نوجوان آپ کے گھر ڈاکہ ڈالنے بھی آسکتا ہے۔ کسی مسجد میں بم دھماکہ بھی کر سکتا ہے۔ آپ کو قتل بھی کرسکتا ہے۔ یا آپ کے بچے کو اغوا بھی کرسکتا ہے۔ آپ کی معصوم بچیوں کی عزت تار تار بھی کرسکتا ہے۔ سٹرک پر چلتے ہوئے آپ کا موبائل بھی چھین سکتا ہے۔ اور آپ کی موٹرسائیکل چوری بھی کر سکتا ہے۔ پھر آپ کس کو مورد الزام ٹھہرائیں گے ۔ آئیں ان تمام نقصانات سے بچنے کے لیئے آج ہی ان لوگوں اور اس طرح کے معصوم بچوں کو راہ راست پر لانے کے لیئے عملی اقداما ت کریں اور اگر ہم میں سے ایک شخص کسی ایک ایسے بچے کی زندگی کو درست ڈگر پر لانے میں کامیاب ہوگیا تو پورے معاشرے کو سدھرنے میں دیر نہیں لگے گی۔

عید تو ہم ہر سال مناتے ہیں ۔ اس مرتبہ تھوڑی مختلف قسم کی عید منائیں۔ اپنا ایک وقت کا کھانا ان غریبوں تک پہنچائیں۔ نئے کپڑے نہ سہی پرانے کپڑے ہی ان کو دے آئیں۔ اپنے بچوں پر خرچ ہونے والی رقم کا صرف ایک فیصد ان بچوں پر خرچ ضرور کریں۔ جو بچے گلیوں میں آوارہ پھر رہے ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک بچے کو کسی سکول میں داخل کروا کر اپنے حصے کا پودا ضرور لگا دیں۔ انشاء اﷲ یہ پودا ایک دن آپ کے ضرور کا م آئے گا۔ اگر آپ کی زندگی میں آپ کے کا م نہ بھی آیا تو آپ کے بیوں بچوں کے ضرور کام آئے گا۔

بڑی نیکی کرنے سے ہم لوگ اکثر خوف ذدہ رہتے ہیں کہ ہم تو نہیں کر سکتے ۔لیکن چھوٹی نیکی پر تو پیسہ اور وقت بھی ذیادہ صرف نہیں ہوتا ۔اپنے آپ کو ہمت دلانے کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس موجود پیسہ کسی نہ کسی طرح خرچ ہوجائے گالیکن اگر اسی پیسے کو کسی نیک کام میں خرچ کریں گے تو پھر یہ پیسہ اور اس کی برکتیں کبھی ختم نہیں ہونگی۔اپنے پیسے کو اس طرح خر چ کریں کہ یہ آپ کے لیئے آخرت کا ذادہ راہ ثابت ہو۔ اس سے بڑی سرمایہ کاری کوئی اور نہیں ۔ اس سرمایہ کاری میں لگایا ہوا پیسہ کئی گنا ہو کر آپ کو ملے گا۔ کسی کی مدد کرتے وقت یہ نہ سوچیئے کہ وہ حقدار بھی ہے یا نہیں۔ بلکہ یہ دیکھیے کہ اﷲ نے آپ کو جو نعمتیں دی ہیں آپ ان کے کس حد تک حقدار ہیں۔اس بات کا فیصلہ آپ نہیں کر سکتے کہ کس کودینا درست ہے اور کس کو دینا غلط ہے۔ یہ فیصلہ صرف اﷲ ہی کرسکتا ہے۔ اور پھر آپ نے کونسا اپنے پلے سے دینا ہے۔ آپ نے تو اﷲ کے دیئے ہوئے رزق میں سے ہی دینا ہے۔ لہذا سوچیئے مت بس جایئں اور کسی ایسے شخص کی مدد کردیں جو آپ کی مدد کا منتظر ہے۔ یقین رکھیں کہ اس کی آپ کی بہت سی مشکلات حل ہوجایئں گے۔ اور اﷲ آپ کو اس سے کئی گنا ذیادہ رزق عطا کرے گا۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 81877 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.