میں نے پیار کیوں کیا

یوم تجدید محبت کے دن جب سب لوگ اپنی محبت کا اظہار مختلف طریقوں سے ادا کر رہے تھے تو مجھے پتا نہیں کیوں کچھ عجیب سی بے چینی سی ہو رہی تھی۔ میرا ذہن اس ستم گر کی یادوں میں کھو سا گیا جس سے میری ملاقات اسی یوم تجدید کے منائے جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی ہوئی تھی اور اس کے آنے سے قبل ہی میری محبت کی داستان اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی ۔میں اپنے بارے میں آپکو بتاتا چلوں کہ میرا نام فرہاد (فرضی نام)ہے ۔میں ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اور شاید اسی کی وجہ سے میں اپنی محبت کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہوں کہ آجکل دھن دولت ہی سب کچھ ہے یا پھر ہمیں دوسروں کے احساسات وجذبات کی فکر نہیں ہے محض اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کی جانوں اور جذبات کو داﺅ پر لگا دیتے ہیں خیر میں اپنی داستان شروع سے بیان کرتا ہوں کہ کیوں میں آجکل سب سے ناطہ توڑے بیٹھا ہوں اور سب لڑکیوں کو ہی ناقابل اعتبار سمجھنے لگا ہوں جو کہ فطری عمل ہے کوئی ہمارا بھروسہ توڑ دے تو کسی پر اعتماد کرنے کا دل نہیں کرتا ہے۔

محبت کے بار ے آپ کو بتاتا چلوں کہ محبت ایک عجیب جذبہ ہے اور محبت کرنے والے لوگ عجیب تر ہوتے ہیں۔محبت کو میں ایک ایسا پہاڑ سمجھتا ہوں جس کو سر کرنا اگر ناممکن نہیں ہے تو ممکن کرنا بھی کسی معرکے سے کم نہیں ہے۔محبت انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ محبت کے بل بوتے پر کسی سے بھی کچھ بھی کروایا جاسکتا ہے۔ اگر ہماری زندگیوں میں محبت کا جذبہ نہ ہو تو شاید زندگی کی بیشتر رعنائیاں ختم ہو جائیں ۔محبت کے بغیر زندگی بیکار ہے۔جیسے مچھلی کا پانی کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا ہے اسی طرح سے محبت کے بغیر انسان زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ چاہے یہ محبت انسانوں سے ہو یا اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ سے ،ہماری زندگیوں کا لازمی جز محبت بن چکی ہے۔میری محبت کی کہانی کا آغاز موبائل فون کی بدولت ہوا تھا میرے خیال میں ٹیلی فون کی ایجاد کے بعد اتنا نقصان لوگوں کو نہیں پہنچا ہوگا جتنا کہ اس موبائل فون کی وجہ سے لوگوں کو ہو رہا ہے ۔ دوسروں کو بلاوجہ مس کالز / رانگ کالز اور کالیں کر کے تنگ کرنا ہمارے پاکستانی بھائیوں کی عادت سی بن گئی ہے۔ اور خوش قسمتی یا بدقسمتی سمجھ لیں اگر دوسری جانب کسی خاتون بولیں تو پھر اس وقت تک اس کی جان نہیں چھوٹتی ہے جب تک اس سے دوستی کی آفر کر کے اسے دوستی کرنے پر مجبور نہ کردیں۔اور جب دوستی ہو جائے تو پھر اس کے گھر سے باہر ملنے کا کہتے ہیں بصورت دیگر اگر وہ ملنے سے انکار کر دے تو اس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور اس تمام تر صورت حال سے وہ خاتون صرف اس وقت ہی چھٹکار کسی حد تک پاتی ہیں جب وہ اپنا موبائل نمبر تبدیل نہ کرلیں۔ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ ان کی حرکتوں کی وجہ سے بہت سی معصوم لڑکیاں نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ پوری خاندان میں بدنام ہو رہی ہیں ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ صرف موبائل دوستی ومحبت کی وجہ لڑکے ہی ہیں یقیناً کچھ ایسی لڑکیاں بھی ہیں جن کو گھر والوں کی بے جا سختی،والدین کی محبت سے محرومی اور بُری صحبت کے شکار دوست بھی لڑکوں سے دوستی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے ۔ مومنہ(فرضی نام) بھی انہی لڑکیوں میں شمار ہوتی تھی جو والدین سے بہت سی باتوں پر شاکی تھی۔ جس سے میری حادثاتی طور پر رانگ کال کے ذریعے سے بات چیت شروع ہوئی جو بعد ازاں دوستی کی شاہراہ سے ہوتے ہوئے محبت تک جا پہنچی۔ ہماری بات چیت روز ہونے لگی جس کی وجہ سے ہم روزبروز ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر ہونے لگے اور ذہنی طور پر ایک دوسرے کو اچھی طرح سے سمجھ لینے کے بعد ہم نے فیصلہ کر لیا کہ ہمیں اب ایک ہو جانا چاہیے۔میں چونکہ بہت جلدی دوسروں پر بھروسہ کرنے کا عادی ہوں اسلئے مومنہ پر اس قدر بھروسہ ضرور ہو گیا تھا کہ وہ میرے لئے اپنے گھر والوں کوراضی کر لے گی ۔ اسی بناء پر میں نے اپنے گھر والوں کو اس کے گھر باقاعدہ رشتہ لینے کے لئے بھیجوا دیا اور خوشی فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ وہ راضی ہو جائیں گے مگر مجھے علم نہ تھا کہ قدرت کچھ اور ہی میرے ساتھ کرنے والی ہے ۔ انہی دنوں میں اسکے کسی قریبی رشتہ دار سے شادی کی بات نہ بن سکنے پر مبارک پور جیسے پسماندہ قصبہ سے اس کے لئے رشتہ آیا چونکہ وہ لوگ میرے سے زیادہ قدرے معاشی طور پر مستحکم تھے ۔میری معمولی نوکری اور اچھی تعلیم کی کوئی اہمیت تصور نہ کی گئی۔اسکے والدین بالخصوص والد صاحب نے ایسا فیصلہ کیا جس کی بنیاد دھن دولت پر مبنی تھی اسلئے مجھے انکار سننا پڑا جس کی مجھے کسی طور توقع نہ تھی کہ مومنہ نے اشارے کنائے میں اپنی والدہ سے اس بات کی خواہش جاننے کا اظہار کیا تھا کہ ماسوائے کچھ ظاہری دھن دولت کے میرے پاس سب کچھ ہے تو ہے اور شہری زندگی میں گزارا کرنا دیہات سے بہتر ہے اور شہر بھی وہ جس کی تمنا اس کو جانے کب سے تھی؟مگر ہمیں اسلام کے اصولوں کے مطابق لڑکیوں کو اپنی پسند کا حق دینے میں پتا نہیں کون سی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ زندگی جنہوں نے زندگی گزارنی ہوتی ہے انکی خوشی کا نہیں سوچتے ہیں۔چاہے زور زبردستی اور ذاتی مفادات پر قائم ہونے والے رشتے جلدی ہی کیوں نہ ٹوٹ جائیں ۔ایسی مثالیں ہمارے ارد گرد بہت سی ہیں۔انکار ہوجانے کے بعد بھی ہمارے بات چیت ہونے لگی مگر صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کے لئے کسی قسم کے اقدام کا اس نے دل سے جواب نہیں دیا کہ لڑکیوں کو اپنی زندگی والدین کے فیصلوں پر گزارنے کا سیکھا یا جاتا ہے۔ اسلام کے اصولوں کے مطابق اپنا حق کے مطابق زندگی بسر کرنے پر مائل نہیں کیا جاتا ہے۔اسی وجہ سے اس نے مجھے سے آہستہ آہستہ دوری اختیار کرنے کا سوچا مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بات کبھی کبھار کرنے بھی لگی اس دن بھی جس دن وہ” سجاد“ نامی فوج کے نوجوان کے نام کر دی گئی؟جس کی معاشی حالت مجھ سے بہتر تھی اسلئے وہ اسکے جیون ساتھی بن گئی؟خدا کا کرنا دیکھئے کہ میرے گھرانے کو انکار کرنے کے بعد ہی محض دو ماہ بعد میری تنخواہ اور عہدہ اپنے ”رقیب “ سے بھی زیادہ عمدہ ہوگیا جس نے میرے گھر کی حالت زار بھی سدھار دی ہے لیکن کمی ہے تو بس اُس ستم گر کی جس نے ساتھ نبھانے اور مرنے جانے کی بات کی مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا؟ابھی کچھ روز قبل بھی اس نے مجھ سے بات چیت کر کے میری حالت زار کو پوچھا ہے۔ مگر بات زیادہ دیر نہ ہو پائی کہ دلوں میں بوجھ کافی تھا۔بات کرتا بھی تو کیا کرتا کہ کہنے کو باقی کچھ رہ ہی کیا گیا ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ وہ اگر بھرپور ساتھ دیتی تو شاید ہم ایک ہو جاتے مگر میں اس کے دل کی بات نہیں جانتا کہ اس نے محض اس بات کہ”والد صاحب کا دل وہاں ہے“ کچھ اور نہیں بتایا اور نہ ہی مجھے اس بات کی خبر ہونے دی کہ میری شادی فلاں دن ہو رہی ہے؟کیا میں نے واقعی پیار کیا ہے اگر کیا ہے تو کیوں کیا ہے؟ اس شخص سے جس نے محبت کی لاج نہیں رکھی ؟جب ہم کسی کے ساتھ دیتے ہیں تو کیوں بیچ راہ میں چھوڑ دیتے ہیں کیا محبت کی جنگ لڑنا ہمارا فرض نہیں ہے ؟ہمارے ساتھ معاشرہ ایسا برتاﺅ کیوں کرتا ہے کہ ہمیں پشیمان ہونا پڑے کہ ہم نے پیا ر کر کے غلطی کی ہے؟
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482063 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More