قرآن کریم : پارہ16 (قَالَ اَلَمْ ) خلاصہ

قرآن کریم : پارہ16 (قَالَ اَلَمْ ) خلاصہ

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

قَالَ اَلَم‘قرآن کریم کاسولھواں (16) پارہ ہے ۔ قَالَ اَلَمکا مطلب ہے ’’اُنہوں نے کہا کیا نہیں ‘‘ ۔ اس پارہ میں سُوْرَۃُ الْکَھْفِ کاتسلسل ہے ۔ اس کی کل 110آیات ہیں ۔ سُوْرَۃُ الْکَھْف کے بعد سُوْرَۃُ مَرْیَمَ اورپھرسُوْرَۃُطٰہٰکا خلاصہ بیان کیا جائے گے ۔ سابقہ پارہ میں اصحاب کہف کا قصہ بیان کیا جارہا تھا ، اس خیال سے کہ تسلسل برقرار رہے سورہ کہف کی وہ آیات جو پارہ 16 میں تھیں ان کا خلاصہ سابقہ پارہَ میں ہی بیان کردیا گیا تھا ۔ اصحاب کہف کے بعد سورہ کہف میں ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کا قصہ شروع ہوتا ہے ۔

ذوالقرنین ایک طاقت ور اور بے پناہ وسائل والا بادشاہ گزرا ہے ۔ اس کی شخصیت میں اختلاف ہے بعض مفسرین سکندر مقدونی کو ذوالقرنین قرار دیتے ہیں ۔ ذوالقرنین کے لفظی معنی دو سینگوں والے کے ہیں ۔ یہ نام اس لیے پڑا کہ فی الواقع اس کے سرپر دو سینگ تھے یا اس لیے کہ اس نے مشرق و مغرب دنیا کے دونوں کناروں پر پہنچ کر سورج کے قرن یعنی اس کی شعاع کا مشاہدہ کیا، بعض کہتے ہیں اس کے سر پر بالوں کی دو لٹیں تھیں ، قرن بالوں کی لٹ کو بھی کہا جاتا ہے، یعنی دو لٹوں یا دو منڈھیوں یا دو زلفوں والا ۔ قدیم مفسرین نے بالعموم اس کا مصداق سکندر رومی کو قرار دیا ہے جس کی فتوحات کا دائرہ مشرق و مغرب تک پھیلا ہوا تھا، بعض مفسرین تاریخی معلومات کی روشنی میں اس سے اتفاق نہیں کرتے خاص طور پر مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے اس موضوع پر تحقیق کی اور خلاصہ پیش کیا ۔ مولانا کے مطابق (۱) اس ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمراں تھا جس کو اللہ نے اسباب و وسائل کی فراوانی سے نوازا تھا(۲) وہ مشرقی اور مغربی ممالک کو فتح کرتا ہوا ایک ایسے پہاڑی درے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج ماجوج تھے (۳) اس نے وہاں یاجوج ماجوج کا راستہ بند کرنے کے لیے ایک نہایت محکم بند تعمیر کیا (۴)وہ عادل ، اللہ کو ماننے والا اور آخرت پر ایمان رکھنے والا تھا ۔ (۵) وہ نفس پرست اور مال و دولت کا حریض نہیں تھا ۔ مولانا مرحوم فرماتے ہیں کہ ان خصوصیات کا حامل فارس کا وہ عظیم حکمران ہے جسے یونانی سائرس، عبرانی خورس اور عرب کَیخَسرو کے نام سے پکارتے ہیں ، اس کا دور حکمرانی 539قبل مسیح ہے، ان کا یہ بھی لکھنا ہے کہ 1838 میں سائرس کے ایک مجسمے کا بھی انکشاف ہوا جس میں سائرس کا جسم اس طرح دکھا یا گیا ہے کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح پر نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت 85 سے ذوالقرنین کے بارے تفصیل بیان کی ’’ہم نے اسے زمین میں قوت عطا فرمائی تھی اور اسے ہر چیز کے سامان بھی عنایت کر دیے تھے، یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا اس چشمے کے پاس ایک قوم کو بھی پایا ، ہم نے کہا کہ اے ذوالقرنین! یا تو تو انہیں تکلیف پہنچائے یا ان کے بارے میں تو کوئی بہترین روش اختیار کرے ۔ اس نے کہا : جس نے ظلم کیا ، تو اسے ہم عنقریب سزادیں گے پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا ۔ چنانچہ وہ اسے سخت ترین عذاب دے گا ۔ اور جو ایمان لایا اور نیک عمل کیے تو اس کے لیے اللہ کے بدلے میں خوب تر بھلائی ہے اور ہم لازماً اپنے کام میں سے اس کے لیے نہایت آسانی کا حکم دیں گے ۔ ذوالقرنین ایسی جگہ پہنچ گیا جو مشرقی جانب کی آخری آبادی تھی اس آبادی کو مطلع الشمس کہا گیا ہے جہاں اس نے ایسی قوم دیکھی جن کے مکانات نہیں تھے اور وہ میدانون اور صحراؤں میں بسیرا کیے ہوئے تھی،ان کے اور سورج کے درمیان کوئی پردہ اور اوٹ نہیں تھی ۔ پھر وہ ان دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا جو ایک دوسرے کے مقابل ہیں ، ان کے درمیان کھائی تھی جس سے یاجوج ماجوج اس طرف کی آبادی میں آجاتے اور ادھم مچاتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے، یاجوج ماجوج نہایت فسادی قوم تھی ، ذوالقرنین نے اس مظلوم قوم کی درخواست پر حد فاصل کے طور پر لوئے اور تانبے کی آمیزش سے ایک مضبوط دیوا ر تعمیر کردی تھی جس کی وجہ سے وہ قوم یاجوج ماجوج کی یورش اور حملوں سے محفوظ ہوگئے تھے ۔ یہ دیوار قرب قیامت میں ریزہ ریز ہ ہوجائے گی اور یاجوج ماجوج پوری دنیا میں پھیل جائیں گے، تفسیر احسن البیان میں صحیح مسلم کی حدیث بیان ہوئی ہے ، نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا ۔

سورۃَ کہف کی آیت 100 میں صور پھونکے جانے اور ان کافروں کو جن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا ان سب کو ایک ساتھ جمع کرکے جہنم کو ان کے سامنے لایا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت 109 میں فرمایا ’’کہہ دیجئے کہ اگر بن جائے سمندر روشنائی میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے تو ضرور ختم ہوجائے سمندر اس سے پہلے کہ ختم ہوں باتیں میرے رب کی اور خواہ لے آئیں ہم اتنی ہی روشنائی‘‘ ۔ سورہ کہف کی آخری آیت110 میں نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اللہ نے ’’کہہ دیجئے اے نبی! کہ در حقیقت میں بھی ایک بشر ہوں تم ہی جیسا ، وحی کی جاتی ہے میری طرف یہ حقیقت کہ بس تمہارا مُعبود تو واحد ، سو جو شخص ہے امیدوار اپنے رب سے ملاقات کا اسے چاہیے کہ کرے کام اچھے اور نہ شریک بنائے اپنے رب کی عبادت میں کسی کو‘‘ ۔

سُوْرَۃُ مَرْیَمَ

سُوْرَۃُ مَرْیَمَمکی سورۃ ہے،یہ ہجرت حبشہ سے کچھ عرصہ قبل نازل ہوئی،چونکہ اس میں بی بی مریم کا تفصیلی ذکرہے اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام سورۃ مریم ہے ۔ قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے انیسویں (19)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 44ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 6رکو اور 98آیات ہیں ۔ اس کی شروع میں حضرت زکریا علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام کا تذکرہ ہے کہ ان کی بیوی بانجھ تھی اور یہ بہت بوڑھے لیکن جب اللہ کے حضور بیٹے کے لیے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور بیٹا عطا فرمایا اس کا نام بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود ہی یحییٰ رکھا ، پھر حضرت یحییٰ کی نبوت اور ان کی پاکیزگی بیان کی گئی ہے ۔

اس کی ابتدائی آیت میں حضرت زکریا علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام کا تذکرہ بڑھاپے میں بیٹے کی دعا ، قبول دعا آیت 15-1 میں بیان ہوئی ہے ارشاد ربانی ہے ’’ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا جو اس نے کی اپنے بندے زکریا پر، جب اس نے پکارا تھا اپنے رب کو چپکے چپکے ۔ اس نے عرض کیا تھا اے میرے رب! بے شک گھل گئی ہیں ہڈیاں میری اور بھٹک اٹھا ہے میرا سر بڑھاپے کی سفیدی سے اور نہیں رہا میں تجھ سے دُعا مانگ کر اے میرے مالک کبھی نامراد، اور بے شک مجھے سخت ڈر ہے اپنے بھائی بندوں سے اپنے پیچھے اور ہے میری بیوی بانجھ سو عطا کردے تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک بیٹا، جو وارث بنے میرا اور میراث پائے آلِ یعقوب سے اور بناتو اُسے اے میرے مالک! پسندیدہ انسان ‘‘ ۔ حضرت زکریا کی خواہش ، تمنا اور دعا کے بعد معبود برحق نے اپنے نیک بندے کی التجا کو توجہ سے سنا اور اسے اپنے بندے کی خواہش کا اظہار بھی پسند آیا ۔ بظاہر زکریا علیہ السلام کی خواہش کے پورا ہونے کے کوئی آسار دور دور نظر نہیں آرہے تھے، وہ باتیں تو زکریا علیہ السلام اپنی دعا میں از خود ہی کہہ چکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی بات بھی نا ممکن نہیں وہ جب، جو، جہاں ، جیسے چاہے صرف ’’کن‘‘ کہے اور ہوجائے ۔ چناچہ ارشاد ہوا ’’اے زکریا! یقینا بشارت دیتے ہیں تمہیں ایک لڑکے کی جس کانام یَحییٰ ہو گا ۔ زکریا کی دعا قبول ہوئی اللہ نے زکریا علیہ السلام کو بیٹا عطا کیا ،کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریہ علیہ السلام کی بیوی کا نام اشاع بنت فاقود میل تھا اور یہ حنہ والدہ َ مریم کی بہن تھیں ، اس قول کے اعتبار سے یحییٰ مریم کے خالہ زاد ہوئے ۔ اللہ پاک نے زکریاعلیہ السلام کوتین دن کسی سے بات چیت نہ کرنے اور زکریا کو صبح و شام دو وقتوں میں اللہ کی تسبیح کرنے کو کہا، زکریاعلیہ السلام نے ایسا ہی کیا، پھر حضرت یحییٰ کی نبوت اور پاکیزہ کا ذکر ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے تین مواقع انسان کے لیے خطر ناک بتائے ہیں آیت 15 میں ایک جب انسان پیدا ہوتا ہے، دسرا وہ جس دن وہ مرے گا، اور تیسرا وہ دن جس دن اسے قبرسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ۔ اللہ نے فرمایا کہ ان تینوں جگہوں میں اس کے لیے ہماری طرف سے سلامتی اور مان ہے ۔

اب یہاں سیدنا مسیح علیہ السلام کی ولادت کا قصہ بیان ہوا ہے، حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹا عطاکیا جانا ، اللہ کی قدرت اور اسی کی عنایت تھی، اسے ہم عام ولادتوں سے ہٹ کر کہہ سکتے ہیں لیکن عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت تو بغیر باپ کے ہوئی اور ان کی والدہ بی بی مریم باکرہ تھیں ۔ آیت 16 میں بتایا گیا کہ اللہ کے حکم سے اپنے خاندان والوں سے دور مشرقی جانب کی جگہ چلیں گئیں ، پھر ان کے آگے ایک پردہ تان دیا گیا ، اللہ فرماتا ہے کہ ’’تب ہم نے اپنی روح (فرشتے) کو اس کے پاس بھیجا تو وہ اس کے لیے کامل آدمی بن کر آیا، اس مریم نے کہا میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں ، فرشتے نے کہا بیشک میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں ، حکم الٰہی سے ایک نہایت پاکیزہ لڑکا عطا کروں ‘‘، مریم گویا ہوئیں میرے لڑکا کیوں کر ہوگا جب کہ مجھے کسی بشر نے چھوا اور نہ میں بد کار رہی ہوں ، فرشتے نے کہا اس طرح ہوگا ، تیرے رب نے کہا ہے کہ وہ مجھ پر آسان ہے ، تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے نشانی اور اپنی طرف سے تحمت بنائیں اور یہ امر طے شدہ ہے، وہ حاملہ ہوگئی ، تو دور کی ایک جگہ میں الگ جا بیٹھی، پھر دردِ زِہ اسے کھجور کے ایک تنے کی طرف لے آیاتو وہ بولی اے کاش ! میں اس سے پہلے مرجاتی ، اللہ کی جانب سے مریم کو کھجوریں کھانے اور پانی پینے اور بچے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنے کو کہا گیا ۔ مریم اپنے بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس آئی تو وہ کہنے لگے کہ مریم یقینا تو نے بہت برا کام کیا ہے، اے ہارون کی بہن ، نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بد کار تھی، اب مریم کا پریشان ہونا لازمی تھا، اس نے پریشانی کے عالم میں اس نے اس بچے کی جانب اشارہ کیا، وہ بچہ بول اٹھا : بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں ، نہ رب ہوں نہ رب کا بیٹا ۔ اس نے مجھے وحی و نبوت عطا کی ہے ۔ اس نے مجھے برکت والا بنایا ہے میرا وجود لوگوں کے لیے برکت اور رحمت کا باعث ہے ۔ ، اپنی والدہ سے نیکی کرنے والا ہوں ، فرمابردار اور عزیز و اقارب کا خدمت گار ہوں ، میری طبیعت میں تواضع ہے کبر و غرور نہیں ۔ مجھے دوسرے انبیاء کی طرح شرعی امور اور عبادات کا مکلف بنایا گیا ہے ان میں نماز اور زکٰوۃ شامل ہے، مجھے دنیا اور آخرت میں امن اور سلامتی کی خوشخبری سنائی گئی ہے‘‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت 35 میں فرمایا ’’عیسی ابن مریم یہی ہے حق کی بات جس میں وہ لوگ شک کرتے ہیں ‘‘ ۔ فرمایا اللہ نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ سے آیت 39 میں ’’ آپ انہیں روز حسرت سے ڈرائیں ، اس لیے کہ اس روز سب ہی حسرت کریں گے، بدکا ر حسرت کریں گے کہ کاش انہوں نے برائیاں نہ کی ہوتیں اور نیکور کار اس بات پر حسرت کریں گے کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہیں کمائیں ‘‘ ۔ پھر کہا کہ’ حساب کتاب کر کے صحیفے لپیٹ دیے جائیں گے اور جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے‘ ۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا کہ انہوں نے اپنے باپ کو نہایت محبت سے سمجھایا کہ تم جن بتوں کو پوجتے ہو ، یہ نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ سن سکتے ہیں ، نہ کسی کے کام آسکتے ہیں ، اور فرمایا کہ توحید کو چھوڑ کر شرک کرنا شیطان کی عبادت کرنا ہے،وہ آپ نہ کریں کہ شیطان تو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے، اگر آپ نے شرک نہ چھوڑا تو اللہ کے عذاب کا شکار ہوں جائیں گے ۔ ابرہیم علیہ السلام کے والد ’آزر‘ نے اس دعوت کو قبول کرنے کے بجائے سخت اور گستاخانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’تو اپنی دعوت سے بازآجا ورنہ میں تجھے سنگسار کردوں گا اور مجھ سے تعلق نہ رکھ ‘، جس پر ابرہیم علیہ السلام نے ان سے استغفار کا کہا اور وطن سے ہجرت کر گئے ۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ِ کرم ابرہیم علیہ السلام پر ہوا ۔ اس کے بعدموسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، اسمٰعیل علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کا ذکر ہے جن پر اللہ نے انعام کیا جو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان لوگوں کی نسل میں سے ہیں جنہیں نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا ۔ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام سے زیادہ اور جلدی جلدی ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی تو یہ آیت 64 نازل ہوئی ، جس میں کہا گیا کہ ’’اور ہم فرشتے آپ کے رب ہی کے حکم سے نازل ہوتے ہیں ‘‘ ۔ سورہ مریم کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بارے میں فرمایا کہ ’’یقینا ہم نے تو اس قر آ ن کو عربی زبان میں خوب آسان کردیا تاکہ آپ اس سے متقین کو بشارت دیں اور اس کے ساتھ جھگڑالوں قوم یعنی کفار اور مشرکین کو ڈرائیں ‘‘ ۔

سُوْرَۃُ طٰہٰ

سُوْرَۃُ طٰہمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے بیسویں (20)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 45ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 8رکو اور135آیات ہیں ۔ مکمل سورۃ سولھویں پارہ میں ہے ۔ یہ سورہ مریم کے بعد نازل ہوئی ، دونوں سورتوں کے موضوعات میں

مما ثلت پائی جاتی ہے، طٰہ‘ آپ ﷺ کا صفاتی نام بھی ہے اس مناسبت سے اس سورہ کو سُوْرَۃُ طٰہ کہاگیا ، اس سورۃ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہی وہ سورۃ ہے کہ جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی ہمشیرہ کے گھر میں سن کر مسلمان ہونے کے لیے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تھے ۔ اس سورۃ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں زیادہ واقعات ہیں ۔

سُوْرَۃُ طٰہ کے آغاز میں نبی حضرت محمد ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے نبی!ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں ، بلکہ یہ تو یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے اللہ سے ، نازل کیا جارہاہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو ‘‘ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ جو سورہ مریم میں اجمالی طور پر بیان ہوا تھا ، یہاں سُوْرَۃُ طٰہ میں تفصیل سے بیان ہواہے ۔ اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کا سابقہ سورۃ میں صرف نام آیا تھا جب کہ یہاں ان کا واقعہ قدرے وضاحت سے بیان ہوا ہے ۔ ہمار ے نبی ﷺ تلاوت قرآن اور دعوت حق دونوں میں بے پناہ مشقت اٹھایا کرتے تھے، راتوں کو نماز میں اتنی طویل قرآت فرماتے کہ پاؤں مبارک پر ورم آجاتا، پھر دعوت ِ حق میں بھی آپ کی مشقت کا یہی حال تھا، مشرکین جب آپ کی دعوت پر منفی ردِ عمل ظاہر کیا کرتے توآپ کو انتہائی رنج ہوتا، آپ کی ا س کیفیت کو دیکھتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو کئی مقامات پر تسلی دی، یہاں بھی تسلی و تشفی دی گئی کہ آپ اپنے آپ کو زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں ۔

آیت 9سے موسیٰ علیہ السلام کا قصہ شروع ہوتا ہے کہا گیا ’’اور کیا آپ تک موسیٰ کی خبر پہنچی، جب اس نے طور پر آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا یہاں ٹہرو بے شک میں نے آگ دیکھی ہے، شاید میں اس میں سے تمہارے لیے کوئی انگارا لے آوَں ، یا آگ کے پاس کوئی رہبر پاؤں ‘‘ ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی بیوی کے ساتھ جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزدی تھیں اپنی والدہ کے پاس مصر جارہے تھے، رات اندھیری تھی، راستہ بھی اجنبی، انہیں دور سے آگ کے شعلے دکھائی دیے ، انہوں نے اپنے ہمراہ لوگوں سے کہا کہ تم یہاں ٹہرو، میں آگ کا کوئی شعلہ وہاں سے لے کر آتا ہوں ، اس کی وجہ ٹھنڈک کا ہونا تھا ، اور گرمی کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، مقصد راستے کا تعین بھی تھا، موسیٰ علیہ السلام جب آگ والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک درخت سے آواز آئی، سورۃ 12، ’’اے موسیٰ! بے شک میں تیرا رب ہوں ،اس لیے ا تو اپنے جوتے اتار دے، بلاشبہ تو مقدس وادی میں ہے‘ ۔ جوتے اتارنے کا حکم اس وجہ سے دیا گیا کہ اس میں تواضع کا اظہار اور شرف تکریم کا پہلو زیادہ ہے ۔ گویا موسیٰ علیہ السلام مقدس وادی ’طویٰ ‘ میں پہنچے ۔ موسیٰ علیہ السلام کے مختلف واقعات یہاں بیان ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا موسیٰ علیہ السلام سے خصوصی تعلق و انعام کا اظہار ہوتا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کے واقعات پہلے بھی مختلف سورتوں میں بیان ہوئے ہیں ،یہا ں سورہَ طٰہ میں جو حالات بیان ہوئے ان کی روشنی میں موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جوعنوانات قائم کیے جاسکتے ہیں ان میں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوہ طور پر ملاقات ، شرف ہم کلامی، پیدائش کے بعد صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا جانا، صندوق کا فرعون کو ملنا، فرعون کے محل میں آپ کی پرورش پھر اپنی حقیقی والدہ کی جانب لوٹنا، آپ سے ایک قبطی کا قتل ہونا اور اللہ کا قصاص سے نجات دلانا، آپ کا مدین میں قیام اور پھر واپسی، راستے میں آگ کا دیکھنا، آپ کا اور حضرت ہارون کا فرعون کے پاس جانا ، فرعون کا لاوَ لشکر تعقب اور ہلاکت ، اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں بنی اسرائیل کا نا شکرا پن،کوہ طور سے تورات کے ساتھ واپسی اور اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام سے ناراض ہونا اور ان کا وضاحت کرنا شامل ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی، انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ اللہ میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھاسکوں ، میرے کام کو آسان فرمادے، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں ، اپنے بھائی ہارون کو اپنا مدد گار بنانے کی دعا بھی کی ۔ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول کی اور ان کی لکنت بی جاتی رہی ۔ آیت 114سے حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ شروع ہوتا ہے ۔ ان کی پیدائش، انہیں مسجودِ ملاءک بنانا، فرشتوں کو سجدے کا حکم، ابلیس کا سجدے سے انکار کرنا، شیطان کا بہکانا،ممنوعہ پھل کا کھا لینا، جنت سے دنیا میں بھیج دیے جانا، اللہ سے معافی مانگنا، اللہ نے معافی قبول تو کر لی لیکن جنت سے دنیا میں بھیج دیا ۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ شیطان اب زندگی بھر انسان کا دشمن رہے گا ۔ سُوْرَۃُ طٰہکی آخری آیت میں نبی حضرت محمد ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ان معاندین سے کہہ دیجئے کہ سب اعمال کے نتاءج کے منتظر ہیں پس تم بھی منتظر رہو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا، کہ سیدھی راہ چلنے والے کون ہیں اور جنت کی طرف راہ پانے والے کون ہیں ۔

(16 رمضان المبارک 1440ھ ،22 مئی2019ء)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286971 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More