صرف پی پی قیادت کے لئے

صرف پی پی قیادت کے نام!

اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کی وفاقی دارالحکومت میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سیکورٹی صورتحال کے حوالے سے سوالات اپنی جگہ،خود حکومتی ارکان کی جانب ہی سے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے استعفے کا مطالبہ اور رحمن ملک کی جانب سے سارا نزلہ پنجاب پر ڈالنے کے بیان اور پھر اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا بھر پور حملہ پنجاب حکومت سے پی پی وزراء کی بے دخلی کا رد عمل ہے ہی ، ساتھ ہی ساتھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفاہمتی سیاست کے شور کا بھید بھی کھول رہا ہے۔دہشت گردی جیسے اہم ترین معاملے پر بھی دونوں سیاسی جماعتوں کے روایتی اٹ کھڑکے نے جہاں اب تک ایک دوسرے کو باامر مجبوری برداشت کرنے کا پول کھول دیا ہے وہیں آنے والے دنوں میں دونوں ہی کی جانب سے بیان بازی کے محاذ سے کہیں آگے تک جانے کے اشارے بھی واضح ہونے لگے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایک وفاقی وزیر کی ہلاکت کے بعد سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کیا جاتا لیکن حسب روایت ایسا نہیں ہوا اور دونوں ہی گھر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں جت گئے ہیں۔ یہ کہنا تو ذرا مشکل ہے کہ کھینچا تانی میں فاتح کون ہوتا ہے اور شکست کس کا مقدر بنے گی البتہ پہلے پیپلز پارٹی کے اہم ترین رکن اسمبلی جمشید دستی کی جانب سے وزیر داخلہ کو مورد الزام ٹھہرانے اور پھر شہباز شریف کی جانب سے پنجابی طالبان کا لفظ استعمال کر کے ملک کو تقسیم کرنے کے الزام کے بعد اتنا ضرور ثابت ہوگیا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کا اتحاد بھی اپنے اپنے سیاسی مفادات ہی کے تابع ہوتا ہے جبکہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں اس سلسلہ میں پیپلز پارٹی کچھ زیادہ ہی بدنام رہی ہے۔

دوغلے پن اور مفادات کی سیاست کی انتہا دیکھئے کہ ایک طر ف تو صدراتی ترجمان کے مطابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے مفاہمتی سیاست جاری رکھنے کے عزم کا بار بار اعادہ کیا جارہا ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو فون کر چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مل کر چلنے پر زور دے رہے ہیں لیکن دوسری جانب عین اس وقت جب گیلانی صاحب خود ایوان میں موجود تھے ان کے اپنے ہی وزیر داخلہ کی جانب سے تنقید برداشت کرنے کے بجائے ان ڈائریکٹ سارے کا سارا الزام پنجاب حکومت پر تھوپ دیا۔اب وزیر اعظم کا ٹیلی فون سیاسی تھا، صدر آصف علی کا عزم متزلزل یا پھر سب ٹوپی ڈرامہ؟ یہ تو وہی بتا سکتے ہیں لیکن اس سارے شور شرابے کے بعد ایک دوسرے کو حتمی وارننگ تک دینے کے سلسلے کو سیاسی مبصرین کے ساتھ ساتھ عوام بھی انتہائی مایوسی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ سب سے پہلا اور بنیادی سوال تو یہی سامنے آرہا ہے دونوں ہی جماعتوں خصوصاً حکومت کے قول و فعل میں اس قدر تضاد کیوں ہے؟یہ سوال اگرچہ ایک عرصے سے اٹھایا جارہا اور ن لیگ کی نسبت حکومت میں موجود پیپلز پارٹی کے حوالے سے اس کے اپنے ہی طرز عمل کو بنیاد بنا کر تنقید کا سلسلہ کچھ زیادہ ہی زور پکڑ گیا ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت اس کی وجوہات جاننے کے باوجود جواب دینے اور سیاسی ساکھ کو اس حال تک پہنچانے والے اسباب کے خاتمے کے بجائے کبھی ہمدردی کے ووٹوں اور پھر کبھی مفاہمتی سیاست اور غیر فطری اتحادوں کے سہارے اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف رہی ہے ۔ بدقسمتی سے یہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کچھ زیادہ ہی زور پکڑ گیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ خود پارٹی کے اندر ہی سے انتشار کا لاوا پھٹنے کے امکان روز بروز ٹھوس سے ٹھوس تر ہوتے جارہے ہیں۔جن لوگوں خصوصاً جیالوں کو ہمارے اس دعوے سے اختلاف ہو وہ اپنی ہی پارٹی کی زیر نظر تاریخ دیکھ لیں، صورت حال سمجھنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی نومبر 1967ءمیں اپنی تشکیل کے صرف تین سال بعد 1970ءکے انتخابات میں عوامی لیگ کے بعد دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی، لیکن دونوں سیاسی جماعتیں ملک گیر کامیابی حاصل نہ کرسکیں۔ پیپلزپارٹی مغربی پاکستان کی واحد اکثریتی جماعت تھی جبکہ عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی واحد اکثریتی جماعت۔ سقوط ِمشرقی پاکستان کے بعد پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم کی حیثیت سے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی۔ مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کی کامیابی عوامی سیاست کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ جبکہ اس کا پہلا دورِ اقتدار ایک سیاسی حادثہ تھا۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی کامیابی جنرل ایوب خان کی طویل آمریت اور ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی شخصیت اور روٹی، کپڑا، مکان کے پرکشش نعرے کی مرہون منت تھی۔پیپلزپارٹی کا پہلا دورِ اقتدار بلاشبہ تاریخی کامیابیوں سے عبارت تھا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی مطلق العنان شخصیت اور طرزعمل سے سیاسی و جمہوری قوتوں میں منفی ردعمل پیدا ہوا۔ سرحد اور بلوچستان کی منتخب حکومتوں کو تحلیل کر کے گورنر راج کا نفاذ اور مصنوعی اکثریت کے بل بوتے پر پارٹی حکومت کی تشکیل، بلوچستان میں فوجی آپریشن، مہنگائی میں اضافہ، سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیاں، سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں، نظربندیاں، بدسلوکی، حتیٰ کہ قتل کے واقعات، ڈیفنس آف پاکستان رولز کی آڑ میں آزادی رائے پر قدغنیں وہ منفی اقدامات تھے جن کے باعث اس پارٹی کی مقبولیت کا گراف گرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔1977ءکے انتخابات میں حزب اختلاف کا گرینڈ الائنس (پی این ای) بنا۔ ان انتخابات میں دھاندلی کے واقعات نے پیپلزپارٹی کے خلاف شدید ردعمل پیدا کیا۔ 5 جولائی 1977ءکو فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کا شب خون اور 1979ءمیں پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین کی پھانسی کی افسوسناک سزا نے پیپلزپارٹی کو نئی زندگی بخش دی۔ بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کی کرشمہ ساز شخصیت کی قیادت میں ایم آر ڈی کی تحریک، بھٹو خاندان کی مظلومیت اور جنرل ضیاءلحق کی فوجی آمریت نے 1988ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کی راہ ہموار کردی۔ اس طرح پی پی دوسری بار اقتدار میں آگئی لیکن دو سالہ دور اقتدار میں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مصداق کئے جانے والے اقدامات کے سبب اسے 1990کے انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ۔

اکتوبر 1993ء کے انتخابات میں پی پی اکثریتی جماعت کی حیثیت سے کامیاب تو ہوگئی لیکن ایوان میں سادہ اکثریت نہ مل سکی، مجبوراً پی پی نے آزاد اور چھوٹی جماعتوں کے تعاون سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا اور تیسری بار اقتدار میں آگئی۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم اور فاروق لغاری صدر بن گئے۔ اس طرح اقتدار مکمل طور پر پی پی کے پاس آگیا۔ پی پی کا یہ تیسرا دور دوسرے دور کے مقابلے میں قدرے غنیمت تھا، لیکن پیپلز پارٹی نے سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے یہاں بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کی اور خود پارٹی کے اندر ہی بہت سارے گروپ بن گئے جن میں سے ایک سابق صدر فاروق لغاری اور ان کے حامیوں کا بھی تھا جس نے بالآخر پیپلز پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال دیا جبکہ فروری 1997ء کے انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ پی پی نے نواز لیگ کی کامیابی کو انجینئرڈ تو قرار دے دیا لیکن اسے اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق نہ ہوئی ۔ جنرل مشرف نے 2002ء میں انتخابات کرائے تو اس میں کنگ پارٹی مسلم لیگ (ق) نے اکثریت حاصل کی جبکہ پیپلزپارٹی اپنی رہنما کے بغیر انتخابات میں حصہ لے کر اکیاسی نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ پیپلز پارٹی کی قائد بے نظیر بھٹو ملک سے باہر رہ کر پارٹی کے سیاسی، تنظیمی اور پارلیمانی امور کو کامیابی سے چلاتی رہیں۔ بے نظیر بھٹو شہید نے اس وقت بیرون ملک ہونے کے باوجود پارٹی کو بڑی حد تک سنبھالا دیا لیکن یہاں بھی اس کی کامیابی ملکی سیاسی حالات اور سب سے بڑی حریف مسلم لیگ ن کے گردش میں آئے ستاروں کی مرہون منت تھی اور اسی جماعت کے سہارے جمہوریت بحالی کا نعرہ لگاکر محترمہ اور آصف علی زرداری کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔بے نظیر بھٹو حیات ہوتیں تو شاید ن لیگ کو ساتھ لیکر چلنے سلسلہ چلتا ہی رہتا لیکن سانحہ لیاقت باغ میں ان کی شہادت کے بعد ان کے جانشینوں نے تمام عہد اور میثاق توڑ دیئے اور محترمہ کی قربانی سے اپنی پوزیشن ہمیشہ کے لئے مستحکم کرنے کے بجائے محض ہمدردی کے وقتی ووٹ کو ہی کافی جانا اور اقتدار سنبھالنے کے بعد وعدہ خلافیوں کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا جو بالآخر مسلم لیگ ن کے حالیہ دس نکاتی ایجنڈے تک پہنچ گیا اور اسی نے پنجاب میں بچے کھچے اتحاد کے بھی پرخچے اڑا دیئے اور صورت حال یہ ہے کہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے اب تک سب سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی آنے والے وقت میں لمبے عرصے کے لئے ملکی سیاست سے آؤٹ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے مسلم لیگ ن بالکل بے گناہ ہے یا اس نے کوئی سیاسی غلطی نہیں کی لیکن ن لیگ کی نسبت اپنی ہی قیادت کی عاقبت نا اندیشی کے سبب۔ پیپلزپارٹی آج 43 سال بعد ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں اس کی ”بھٹو شناخت“ ختم ہوچکی ہے اور اپنے بنیادی و مقبول نعرے روٹی، کپڑا اور مکان اور سوشلسٹ معیشت کو اقتدار کی موجودگی کے باوجود پورا کرنے میں وہ ناکام ہے۔اتحادی تو دور کی بات خود پارٹی کے سینئر رہنما اور کارکن موجودہ قیادت کے رویّے سے غیر مطمئن ہیں۔ ایسی صورت میں پیپلزپارٹی کے مستقبل کے بارے میں کوئی خوش آئند پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر زرداری، گیلانی حکومت کو اقتدار کی مدت مکمل کرنے کا موقع دیا گیا اور اسے سیاسی مظلوم نہ بننے دیا گیا تو آئندہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے بعض اکابرین تو یہ تک کہتے سنے گئے ہیں کہ یہ پارٹی کا آخری دور اقتدار ہی، اس کے بعد پارٹی اقتدار میں نہیں آسکے گی۔ پیپلزپارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جو چاروں صوبوں میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔ لیکن عوام کے مسائل حل کرنے میں پارٹی کی کارکردگی کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی بقا کا انحصار عوامی مسائل و مشکلات خصوصاً مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے میں ہے۔ اگر پارٹی عوامی مسائل پر قابو نہ پاسکی تو آئندہ انتخابات میں اس کا مستقبل تاریک ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پیپلز پارٹی تنقید برائے تنقید کی دیرینہ روش کو چھوڑ کر نئے سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کی تیاری کرے کہ وہ وقت قریب ہے جب صرف وزیر داخلہ ہی سے نہیں بلکہ اس کے اپنے ہی نظریاتی کارکن پوری قیادت کے لئے ”گو گو “ کے نعرے لگاتے میدان میں کود پڑیں گے ا۔یک قومی اور ملک گیر سیاسی جماعت کی حیثیت سے پی پی کو اپنے سیاسی مستقبل کا سنجیدگی کا جائزہ لینا ہوگا بصورت دیگر اگلی باری تو دور کی بات دو ر دور تک اسے”باری“ ملنے کے امکانات بالکل ہی معدوم ہوجائیں گے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54176 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.