گیارہواں کالم گیارہویں والے کے نام

پانچویں صدی کے آخر میں اسلامی دنیا مں ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی "اندلس" اسپین میں اسلامی حکومت کی مرکزیت ختم ہوچکی تھی اور خانہ جنگی کا عالم برپا تھا۔ مصر میں "سلطنت باطنیہ" قائم ہوچکی تھی جسے علامہ سیوطی نے "سلطنت خبیثہ" لکھا ہے۔ ہندوستان میں سلطان محمود غزنوی کے جانشین روبہ زوال تھے۔ " بیت المقدس" پر عیسائی قابض ہوچکے تھے۔ "خلافت عباسیہ" سمٹ کر "بغداد" کے گردونواح تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ اسلامی پردہ ختم ہوچکا تھا۔ اسپین کے "نقاب پوش سلاطین" کے دور میں تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ مردوں نے نقاب پہن لئے اور عورتیں کھلے منہ پھرا کرتی تھیں۔

اکابرین ملت اسلامیہ کا بے دریغ قتل عام جاری تھا۔ "باطنی فرقہ" کی فتنہ سامانیاں ستم ڈھا رہی تھیں ۔ عجمی فلسفیوں نے علمائے اسلام کے خیالات کو پراگندہ کررکھا تھا۔ چنانچہ فلسفہ و منطق کی بحثوں میں الجھ کر وہ ہر وقت دست و گریباں رہتے تھے۔ فضول بحثوں اور فروعی اختلافات نے مسلمانوں کی یکجہتی اور عملی قوت کو یکسر برباد کردیا تھا۔ اس طرح مسلمانوں کی متحدہ قوت کا شیرازہ منتشر ہورہا تھا۔

دوسری طرف یورپ کی عیسائی سلطنتیں ، مسلمانوں کے خلاف متحدہ محاذ بنا کر اپنی فوجیں اسلامی سرحدوں پر جمع کررہی تھیں۔ اندرون خانہ تمام عالم اسلام میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ دلوں سے سکون اور شہروں سے امن و امان ختم ہوگیا تھا۔ اپنی خود غرضیوں اور عاقبت نااندیشیوں نے پوری ملت اسلامیہ کو ہلاکت کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا۔ ایسے نازک دور میں "سیدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ" کی ولادت باسعادت عالم اسلام کے لئے نوید بہار لیکر آئی۔

سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے والد گرامی حضرت سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رحمتہ اللہ علیہ اپنے وقت کے مجاہد اسلام اور عالم ربانی تھے۔ جنکی زندگی کا بہت بڑا حصہ عبادت و ریاضت ، خدمت دین اور جہاد فی سبیل اللہ میں گذرا تھا۔ اسی طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ بھی ایک بہت بڑے ولی اللہ ، حضرت سید عبداللہ صومعی کی دختر نیک اختر اور علوم ظاہری و باطنی سے مرصع تھیں۔ قرآن کریم کی حافظہ اور بے انتہا عبادت گزار اور پرہیزگار تھیں۔ ہر شب ، بیداری میں گزارتیں اور دن میں ایک کلام پاک ضرور ختم فرماتیں۔ دیکھا جائے تو سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی جس گھر میں ولادت ہوئی وہاں عبادت و ریاضت ، زہد و تقوی و طہارت اور شب بیداری کا ماحول تھا۔

چنانچہ ایک روز ولی کامل مجاہد اسلام حضرت سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رحمتہ اللہ علیہ نے خواب دیکھا کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ بڑے بڑے صحابہ کرام علیھم الرضوان اور اولیاء کرام رحمتہ اللہ اجمعین کی جماعت بھی آپ کے ساتھ ہے۔ آپ نے اس وقت دیکھا کہ آپ کا مکان غیبی انوار سے روشن ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش ہیں اور فرما رہے ہیں کہ " اے ابو صالح مبارک ہو کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تجھے وہ فرزند عطا ہوا ہے جو "شیخ اعظم" اور "قطب زماں" ہوگا وہ اللہ کا محبوب اور میرا لخت جگر ہے"۔ یہ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ تھی ولادت کے بعد آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو دودھ پلانا چاہا تو آپ نے مطلق دودھ نہ پیا۔ حتیٰ کہ یونہی سارا دن گزر گیا۔ آخر کار مغرب کی اذان ہوئی تو افطار کے وقت آپ نے بھی دودھ نوش فرمایا چنانچہ ساری بستی میں شور ہوگیا کہ سادات کے گھر میں ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں سارے دن دودھ نہیں پیتا ہے۔
(طبقات الکبری 01 : 126 ۔۔۔۔ نفخات الانس فارسی 351)

اور پھر اخیر رمضان میں بستی کے مسلمانوں کے اندر عید کے چاند کے متعلق جب اختلاف پیدا ہوا تو لوگوں نے کہا سیدنا ابو صالح رحمتہ اللہ علیہ کے گھر سے معلوم کرو ان کے شیر خوار بچے نے اگر دودھ نہیں پیا تو روزہ ہے ورنہ عید ہے۔ گویا کہ آپ شروع بچپنے ہی سے نور ہدایت کا روشن مینار تھے۔

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ جب کبھی بچپن میں کوئی کھیل کھیلنے کا ارادہ فرماتے تو غیب سے آواز آتی ۔۔۔۔۔ الی یا مبارک ۔۔۔۔۔ یعنی اے برکت والے میری طرف آ۔ (قلائدالجواہر 06) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار بچوں نے ضد کر کے آپ کو بھی کھیل کود میں شامل ہونے پر اصرار کیا جس کو آپ نے قبول کر کے فرمایا "اچھا میں کہوں گا ۔۔۔۔ لاالہ ۔۔۔۔ اور تم سب کہنا الااللہ " چنانچہ آپ کے اس نرالے کھیل سے گلی کوچوں میں کلمہ طیبہ کا ورد جاری ہوگیا اور اس نرالے کھیل سے بستی والے بھی حیران رہ گئے۔

علم دین کے لئے آپ کے سفر خیر ، والدہ کی نصیحت ، ڈاکوؤں کے سامنے سچ بولنا اور تمام ڈاکوؤں کا آپ کے سچ بولنے کی برکت سے سچا پکا مسلمان ہونے کا واقعہ آپ تمام پہلے بھی سن چکے ہوں گے ۔ مگر مزید جاننے کے شوقین صاحبان کے علمی ذوق کے لئے عرض ہے کہ آپ "بہجۃالاسرار 87 ، قلائد الجواہر 09 اور نغمات الانس 352" کا مطالعہ کیجئے۔

"جیلان" سے چارسو میل کا لمبا اور دشوار گزار راستہ طے کر کے آپ 488ھ بمطابق 1095ء میں بغداد پہنچے۔ یہ عباسی خلیفہ مستظہربااللہ عباسی کی خلافت کا دور تھا۔ بغداد میں اسی سال حضرت امام غزالی علیہ رحمتہ کا وصال ہوا تھا۔ یعنی ایک امام جارہا تھا تو دوسرا آرہا تھا۔ بغداد اس وقت کی دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا اور اس کی آبادی تقریبا 19 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ جس میں تقریبا 50ہزارعلماء تھے۔ یہاں پر آپ "مدرسہ نظامیہ" میں داخل ہوگئے۔ جو اپنے دور کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی تھی۔

شیخ عبدالقادرجیلانی رحمتہ اللہ علیہ ، شیخ ابو سعید محزومی کے خلیفہ خاص شیخ حماد بن مسلم کی محفل میں بیٹھنے لگے۔ مگر کچھ عرصے بعد شیخ کو محسوس ہوا کہ دوسرے اہل محفل آپ کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں اس پر شیخ نے اہل محفل کو سخت لہجہ میں فرمایا "نادانوں ! تمھیں کیا معلوم کہ عبدالقادر آفتاب بن کر تمام جہاں میں چمکنے والا ہے اور تم اس کے مقابلے میں چراغوں کی طرح ٹمٹماتے رہ جاؤ گے۔ یہ اس کی ریاضت کا زمانہ ہے میں تو اس کی تربیتِ نفس کی خاطر ایسا سخت رویہ اختیار کرتا ہوں مگر تمھیں کسی طرح یہ حق نہیں پہنچتا کہ عبد القادر کو کچھ کہو۔"

شیخ حماد رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقاتوں نے آپ کے دل میں عشق الہی کی آگ کو خوب بڑھکایا۔ آخر مشاہدہ حق کے شوق نے آپ کو سخت مجاہدوں پر اکسایا۔ چنانچہ "محلہ کرخ" کےایک ویران مکان کو آپ نے اپنا چلہ گاہ بنایا۔ 12 سال تک مسلسل آپ یہاں چلہ کشی کرتے اور اس دوران تمام دن روزے سے رہتے۔ شام کو دریائے دجلہ کے کنارے چلے جاتے جہاں پر اُگے ہوئے ساگ پات سے آپ افطار فرمالیتے۔ اب آپ پر ہر وقت ایک خاص کیفیت طاری رہنے لگی۔ بعض اوقات تو ایسی محویت طاری ہوجاتی کہ لوگ آپ کو مردہ سمجھ کر کفن دفن کا انتظام شروع کردیتے۔ بعد میں آپ کلمہ طیبہ پڑھ کر اُٹھ بیٹھتے۔ ایک دفعہ تو آپ پر جوش و مستی کا ایسا عالم طاری ہوا کہ آپ دوڑتے ہوئے بغداد سے سینکڑوں میل دور "شستر" کے مقام تک پہنچ گئے۔ غرض کہ اسی طرح 496ھ سے 521ھ تک تقریبا 25 سال تک سخت قسم کی ریاضتیں اور شدید مجاہدے کرتے رہے۔ (طبقات الکبری 01 : 129)

باطل کی قہر سامانیوں سے نبٹنے کے لئے قدرت نے آپ کی خاص طریقہ پر تربیت فرمائی تھی۔ ایکبار آپ نے دیکھا کہ ابلیس زمین پر بیٹھا آہ وزاری کررہا ہے۔ اور اپنے سر پر خاک ڈال رہا ہے۔ آپ کو دیکھ کر بولا "اے عبدالقادر ! تو نے تو مجھے بلکہ ہی مایوس کردیا" ۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا : "اے شیطان ملعون ! میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں" ۔۔۔۔۔ اس نے کہا کہ "یہ بات میرے لئے اور بھی سخت ہے۔"

شیطان کا سب سے بڑا حملہ آپ پر نہایت حیرت انگیز طریقہ پر ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن آپ عبادت میں مشغول تھے کہ زمین سے آسمان تک تیزی روشنی پھیل گئی اور پھر اس روشنی سے ایک صورت ظاہر ہوئی جس نے بڑی گرجدار آواز میں آپ سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ "اے عبدالقادر ! میں تیرا رب ہوں ۔ تیری عبادت و ریاضت سے خوش ہوکر میں نے تجھ پر فرائض کو معاف کردیا۔ اور حرام چیزوں کو حلال کردیا۔ لہٰذا اب جو چاہے سو کر۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باوجود اس عالی مرتبہ کے عمر بھر عبادت کے پابند رہے۔ آپ نے بھی عبادات کی تکالیف برداشت کیں تو اور کوئی اس سے آزاد کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ اس لئے میں نے "لاحول ولا قوۃ الا باللہ" پڑھا تو وہ روشنی فوراً غائب ہوگئی اور اندھیرا پھیل گیا وہ شکل جو ظاہر ہوئی تھی دھواں بن گئی پھر اس سے آواز آئی ۔۔۔۔۔ "اے عبدالقادر ! تیرے علم نے تجھ کو بچا لیا" ۔۔۔۔۔ جاتے جاتے شیطان کا آپ پر یہ آخری وار تھا جس کا آپ نے فوراً جواب دیا " اے مردود، علم نے نہیں بلکہ میرے مولا کی رحمت نے مجھے بچا لیا"۔ یہ سن کر ابلیس اپنا سر پیٹنے لگا کہ اب تو میں آپ سے قطع مایوس ہوچکا ہوں اور آئندہ آپ پر اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔ اس پر آپ نے فرمایا " دور ہوجا مردود ۔۔۔۔ میں تیری کسی بات کا اعتبار نہیں کرتا اور ہمیشہ تیرے مکر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں لا حول ولا قوۃ الا بااللہ"۔ (قلائد الجواہر 11-20 ، بہجۃالاسرار 85)

شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ تقریباً 20 سال تک علم دین پڑھانے کی خدمت انجام دیتے رہے۔ آخر ایک دوپہر آپ آرام فرمارہے تھے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں بشارت دی کہ "بیٹا عبدالقادر ! تم عوام کو وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے؟" عرض کیا "آقا دوجہاں ! میں عجمی ہوں فصائے عرب کے سامنے کیسے زباں کھولوں"۔ اس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن آپ کی زبان مبارک میں لگایا اور فرمایا "اب جاؤ اور عوام کو وعظ و نصیحت کرو۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ خواب سے جاگے تو ظہر کا وقت تھا نماز ادا فرما کر آپ منبر شریف پر تشریف لے گئے ۔ اب جو آپ نے وعظ شروع کیا تو بڑا اثر انگیز ثابت ہوا اور دل وعظ کی تاثیر سے پگھلنے لگے۔ پھر تو آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی حتیٰ کہ عراق کے علاوہ عرب ، شام اور ایران میں بھی شہرت جاپہنچی۔ (بہجۃالاسرار 25)

ایک دن آپ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ آپ نے راستہ میں ایک خستہ حال بوڑھے کو دم توڑتے دیکھ کر اُسے سہارا دیا تو آناً فانا صحت یاب ہوکر وہ جوانِ رعنا بن گیا۔ اور کہنے لگا کہ میں آپکے نانا کا دین ہوں آپ نے سہارا دیکر مجھے نئی زندگی دی ہے آپ "محی الدین" ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اُس شخص کو وہیں چھوڑ کر آپ جامع مسجد تشریف لے گئے وہاں جو شخص سب سے پہلے آپ کو ملا اس نے دیکھتے ہی آپ کو "یا سید محی الدین" کہہ کر پکارا۔ اور پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو چاروں طرف سے لوگ "محی الدین" کہتے ہوئے آپ کی دست بوسی کرنے لگے۔ (قلائدالجواہر 05)

بقول مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ "اب جس قدر فیوض و برکات تمام قطبوں اور ولیوں کو پہنچتے ہیں آپ ہی کے ذریعہ پہنچتے ہیں اِن کے مرکز فیض کے بغیر ولایت کا منصب کسی کو نہیں مل سکتا۔ (مکتوبات شریف فارسی 03: 251 ۔۔۔ مکتوب نمبر 123 ۔۔۔ مطبوعہ دہلی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور علامہ عبد القادر الابلی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو "ولی" بناتا ہے تو اس کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جناب میں بھیج دیا جاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے وزیر حضوری کے منصب پر موجود شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرف کردیتے ہیں لہٰذا اگر آپ اسے منصب ولایت کے لائق سمجھتے ہیں تو اس کا نام دفتر محمدیہ میں لکھ کر مہر لگا دیتے ہیں پھر اسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے اور آپ کی سفارش کے مطابق نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم لکھا جاتا ہے۔

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو میرا غوث ہے , اور لاڈلا بیٹا تیرا

وہ سب سے بڑی کرامت جس کی وجہ سے آپ دنیائے ولایت کے بادشاہ تسلیم کئے گئے یہ ہے کہ اپنی ایک مجلس میں آپ پر دوران وعظ حالت کشفی طاری ہوگئی اور آپ نے فرمایا " میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے" آپ کا یہ فرمانا تھا کہ مجلس میں موجود تمام علمائے کرام اور پیران عظام نے ادب سے اپنے سر جھکا دیئے۔

جس کی منبر ہوئی منبر اولیاء ۔۔۔۔ اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام

شیخ لولوالارضی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں " میں نے آپ کے ارشاد پر مشرق و مغرب میں اولیاء اللہ کو اپنی گردنیں جھکاتے ہوئے دیکھا۔ اور میں نے دیکھا ایک شخص نے گردن نہ جھکائی تو اس کا حال دگرگوں ہوگیا۔" (قلائد الجواہر 25)

جس وقت سیدنا غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے یہ قول فرمایا تو اس وقت حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی رحمتہ اللہ تعالیٰ خراسان کے پہاڑوں میں عبادت و ریاضت میں مشغول تھے۔ آپ نے قول غوث اعظم سنا اور اپنی گردن مبارک جھکا دی اور فرمایا " آپ کا قدم مبارک گردن ہی پر نہیں بلکہ میری آنکھوں کی پتلیوں پر" (تفریح الخاطر20) ۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور غوث اعظم نے اس اظہارِ نیاز مندی سے متاثر ہوکر مجلس میں فرمایا کہ "غیاث الدین کے بیٹے نے گردن جھکانے میں سبقت کی ہے جس کے باعث ولایت ہند سے نوازے جائیں گے"۔ (بہجۃالاسرار)

وصال پاک کے وقت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف 91 سال تھی ربیع الثانی 562ھ 1166ء میں علیل ہوئے۔ آخر وقت تک آپ کی نورانی سانسوں میں ذکر حق سنا جاتا رہا۔ اس طرح 11 ربیع الثانی بروز شنبہ 561ھ مطابق 1166ء کو آخر کار آپ کو ہمیشہ کے لئے وصال حق ہوگیا۔

سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال پاک کی خبر سن کر لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوگیا کہ آپ کے متعلقین اور اہل خاندان آپ کا جنازہ دن کے وقت نہ اُٹھا سکے کیونکہ کثرت ہجوم کے سبب سڑک پر گزرنا مشکل تھا۔ اور آپ کی جسم پاک کو دفن کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ لہٰذا آخر رات کے وقت آپ کی تجہیز و تکفین ہوئی۔ آپ کے مدرسے میں آپ کا جسد مبارک دفن کر کے دروازہ رات کو بند کردیا گیا لیکن صبح کو مدرسہ کا دروازہ کھلتے ہی ہزار ہا لوگ مزار اقدس پر فاتحہ خوانی کے لئے امڈ پڑے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ عرصہ دراز تک جاری رہا۔ اور دور دراز سے لوگ جوق در جوق صبح و شام مزار اقدس پر حاضر ہوتے رہے اور اج بھی بغداد شریف میں آپ کا مزارِ پُرانوار زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

ہیں زیر مزار ، خوابِ راحت میں حضور
فانوس میں شمع ، ساری محفل میں نور
Kamran Azeemi
About the Author: Kamran Azeemi Read More Articles by Kamran Azeemi: 19 Articles with 50278 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.