ریمنڈ ڈیوس سے خصوصی انٹرویو

آپ دریا کے کنارے بیٹھے ہوں، شکار کا شوق پورا کرنے کے لئے بس ”ایویں ای“ کانٹا دریا میں ڈال رکھا ہو اور اچانک کئی کلو کی مچھلی لگ جائے تو! کچھ ایسا ہی معاملہ ریمنڈ ڈیوس کا بھی ہے! دریائے راوی کے کنارے آباد لاہور میں وہ حالات کے کانٹے میں اپنا گلپھڑا دے بیٹھا ہے! دینے والے نے چھپّڑ پھاڑ کر ریمنڈ کو ہماری جھولی میں ڈالا ہے۔ وہ ہائی پروفائل بندہ ہے اِس لئے اُس سے ملنا بہت مشکل کام ہے۔ پنجاب کی پولیس کے ہاتھ لگنے کے بعد اب خود ریمنڈ کی بھی اپنے آپ تک رسائی نہیں ہو پارہی! سُنا ہے یہ امریکی ہرن اب ہاتھی ہونے کا اعتراف کرنے کی منزل تک پہنچ چکا ہے! ہم نے کئی ”جُگاڑ“ لڑائے تب کہیں جاکر ریمنڈ سے مل پائے اور لگے ہاتھوں آپ کے لئے اُس سے چند باتیں کیں۔ ریمنڈ سے گفتگو کے لئے ہمیں کسی مترجم کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ یہ امریکی پنچھی لاہوری پولیس کا دانہ چُگنے کے بعد اب مِلی جُلی اردو اور پنجابی بولی بولنے لگا ہے!
............
پیدا ہونے کے بعد آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
ریمنڈ : میں کچھ سمجھا نہیں؟

آپ نے لاہور دیکھ لیا ہے یعنی اب پیدا ہوگئے ہیں! ہمارے ہاں روایتاً یہ کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ آپ خوش نصیب ہیں کہ مرنے سے پہلے پیدا بھی ہوگئے!

ریمنڈ : آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے مگر اِس پیدائش میں تو ”لیبر روم“ کا بل بہت زیادہ آیا ہے!

یہ تو آپ کو پیدا ہونے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا! مگر خیر، ہم آپ کی مجبوری سمجھتے ہیں۔ یہ تو امریکیوں کا ”کمپنی فالٹ“ ہے؟

ریمنڈ : کون سا فالٹ؟
امریکی سوچنا جانتے اور چاہتے تو بات ہی کیا تھی! پالیسیوں سے تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کو سوچنا نہیں آتا اور وہ سوچنے کے بارے میں شاید سوچنا چاہتے بھی نہیں!

اب ہمیں سوچنا پڑے گا۔ پاکستانی جاگ اٹھے ہیں۔ اگر ہم نے اب سوچے سمجھے بغیر کام کیا تو جُنون ہو یا ڈیل، ہر دو طرح کا سَودا بہت مہنگا پڑے گا۔ ہم پاکستانیوں کو بالکل ”پُھس“ قوم سمجھ بیٹھے تھے، مگر اب اپنی حماقت کا احساس ہو رہا ہے!

پنجاب کی پولیس سے ”ٹاکرہ“ کیسا رہا؟
ریمنڈ : وُنڈر فل۔ یعنی پنجاب پولیس عجوبہ ہے اور پورے کا پورا! آپ لوگوں نے بہت سی چیزوں کو خواہ مخواہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل نہیں کرایا۔ پنجاب پولیس بھی اُن میں سے ایک ہے!

یہ بات آپ کس تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟
ریمنڈ : پنجاب پولیس بجائے خود ایک تجربہ ہے!

تفتیشی طریقہ کیسا لگا؟
ریمنڈ : شروع میں تو ایسا لگا جیسے وہ میرا دل بہلا رہے ہیں! مگر پھر اندازہ ہوا کہ تفریح اُن کی ہے اور کھلونا میں ہوں! تین چار دن بعد ذہن پر پڑے ہوئے پردے مزید ہٹے اور اندازہ ہوا کہ یہ سب تفریح وفریح نہیں، سیریس بزنس ہے! کئی بار محسوس ہوا کہ پولیس والے ”فَمبل“ کر رہے ہیں کیونکہ وہ غلطی پر غلطی کرنے کے بعد سب کچھ نئے سرے سے شروع کرتے تھے! بعد میں معلوم ہوا کہ لاہور میں فلم انڈسٹری ہے اس لئے پولیس بھی ”ری ٹیک“ کی عادی ہوچکی ہے! ایک ہی بات کو چار پانچ طریقوں سے پوچھا جاتا ہے۔ ملزم کی سمجھ میں کوئی ایک بات تو آ ہی جائے گی! اور چھترول کے ری ٹیک سے تو بات خاصی تیزی سے سمجھ میں آتی ہے! مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔

وہ کیا؟
ریمنڈ : عجیب لوگ ہیں، جو بات اچھی طرح جانتے ہیں اُسے بھی ملزم کی زبان سے سُننا پسند کرتے ہیں!

مثلاً؟
ریمنڈ : پہلے دن ایک ”فور۔اِن۔ون“ انسپکٹر نے مجھ سے پوچھا۔۔ اوئے، کھوتے دے پُتر! تیرا ناں کی اے؟
لہجے سے میں سمجھ گیا تھا کہ اِس سوال کے اندر یا باہر کہیں کوئی جانور موجود ہے! پولیس کے مقرر کردہ ترجمان نے جب کسی نہ کسی طرح اِس جملے کو انگریزی میں مجھ تک منتقل کیا تو میں نے کہا بھائی! جب آپ نے مجھے کھوتے دا پُتر قرار دے ہی دیا ہے تو پھر نام پوچھنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے! ویسے بھی جو آپ کے ہتّھے چڑھ جائے وہ بالآخر کھوتا ہی ہو جاندا اے!

آپ تو پنجابی بڑی روانی سے بول لیتے ہیں۔
ریمنڈ : شالا نظر نہ لگے!

کیا پنجابی بولنے کی تربیت بھی سی آئی اے نے دی تھی؟
ریمنڈ : جب پولیس والے ”انگریزی“ بول سکتے ہیں تو کیا میں پنجابی کا تھوڑا بہت حق ادا نہیں کرسکتا؟

ابتداء میں تو پنجابی سمجھنے میں خاصی دشوار پیش آتی ہوگی؟
ریمنڈ : بالکل نہیں۔

کیوں؟ آپ کو تو پنجابی آتی نہیں تھی، پھر بات کس طرح سمجھ لیتے تھے؟
ریمنڈ : اہل پنجاب نے پنجابی میں خاصی باڈی لینگویج بھی شامل کردی ہے جس سے بات سمجھنا آسان ہو جاتا ہے! لاہور میں جب پولیس افسران پنجابی میں سوال داغ رہے ہوتے ہیں تو لہجہ سب کچھ بیان کر رہا ہوتا ہے! کبھی کبھی تو کچھ نہ کہنے پر بھی چہرے کی باڈی لینگویج (!) بہت کچھ کہہ رہی ہوتی ہے! بالخصوص گالیوں کو سمجھنا تو چنداں دشوار نہیں!

سُنا ہے آپ کے پاس سے نسوار بھی برآمد ہوئی تھی!
ریمنڈ : خُدا کا قسم ہے، اب ہم نے نسوار لگانے سے توبہ کرلیا ہے!

کیوں؟
ریمنڈ : پولیس اہلکاروں نے میرے سامنے روئی کے پھائے میں چُونا اور نسوار لگا کر چھپکلی ماری تو میں نے نسوار کے استعمال سے تائب ہوگیا! نسوار لگانے میں ایک دشواری اور بھی تھی۔

وہ کیا؟
ریمنڈ : نسوار کی ڈبیا کھولنے پر بار بار اپنی ہی شکل دیکھنی پڑتی تھی اور دِن خراب گزرتا تھا!

جیل میں کھانا پینا کیسا ہے؟
ریمنڈ : جو کچھ لاہوری کھاتے ہیں وہی مجھے بھی دیا جاتا ہے۔ نہاری، قورمہ، بریانی، روسٹ اور کباب کھلا کھلا کر میرا ناک میں دم کردیا ہے! پانی مانگتا ہوں تو بڑے گلاس میں فالودہ دیتے ہیں۔ پندرہ دن میں شوگر ہوگئی مجھے۔

یہ شکوہ تو ناشکرا پن ہے۔ لوگ تو اِن مزوں کے لئے ترستے ہیں۔
ریمنڈ : تو میری جگہ لوگوں کو اندر کردو! اِس مہمان نوازی نے میرے معدے میں دماغ دریافت کر کے اُسے درست کردیا ہے!

آپ نے پھجّے کے پایوں کا ذکر نہیں کیا؟
ریمنڈ : پھجّے کے پائے؟ یہ کیا ہوتے ہیں؟

آپ لاہور میں ہیں اور اب تک پھجّے کے پائے نہیں کھائے، حیرت کی بات ہے!
ریمنڈ : کوئی کھلائے گا تو کھاؤں گا۔ ٹھہرو، مجھے کچھ یاد آ رہا ہے۔ انویسٹی گیٹرز کو میں نے چکنے شوربے والی ڈش کھاتے دیکھا ہے۔ یہ لوگ ”موٹے پائپ“ کے اندر سے کچھ نکال کر کھاتے ہیں! کئی دن تک تو کھانے کے بعد یہ لوگ پائپ سے مجھے ڈراتے رہے! کہیں یہی تو پھجّے کے پائے نہیں؟ ایک بار اُن لوگوں نے مجھے کھلانے کی کوشش کی مگر چکنائی سے میرے ہونٹ آپس میں چپک گئے۔ اِس سے پوچھ گچھ میں دشواری ہوئی اور اُنہوں نے پائے پر پابندی لگا دی!

اب تو آپ نے سُکون کا سانس لیا ہوگا؟
ریمنڈ : کاہے کا سُکون؟ شروع میں ایک ہفتے تک یہ لوگ مجھے مختلف وڈیو کلپ دکھاتے رہے۔ میں سوچ سوچ کر تھک گیا کہ یہ سب کیا ہے! گمان گزرا شاید غیر ارضی مخلوق کی فوٹیج ہاتھ لگ گئی ہے! جب میں سوچ سوچ کر تھک گیا تو اُنہوں نے کرم کیا اور مجھے بتا دیا کہ یہ پنجابی فلموں کے سین ہیں! میں نے ہاتھ جوڑے کہ میرے اعصاب پر ایسے حملے نہ کرو، عدالتی فیصلے سے پہلے مجھے سزائے موت نہ دو! دنیا اِسے ماورائے عدالت قتل کہے گی! اِس پر ظالموں نے یہ دھمکی دے کر قیامت ہی ڈھا دی کہ اب بھی زبان نہ کھولی تو لاہور کے نگار خانوں میں پنجابی فلم کی شوٹنگ دیکھنے پر مجبور کریں گے! تب سے اب تک میرا منہ کُھلا کا کُھلا ہے اور زبان رکنے کا نام نہیں لے رہی!

اپنی حکومت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ریمنڈ : عقل مند وہی ہے جو حالات کے مطابق چلے۔ اور ہماری حکومت بھی عقل مند ثابت ہوئی ہے۔

وہ کیسے؟
ریمنڈ : جب سے میڈیا نے میری پول پٹیاں کھولنا شروع کیا ہے تب سے امریکی حکومت بھی خاموش ہوگئی ہے! صدر اوباما نے ایک آدھ مرتبہ میری رہائی کے لئے بڑھک ماری مگر جب دیکھا کہ میڈیا والے انکشاف کے mood اور mode میں آگئے ہیں تو انہوں نے بھی چپ سادھ لی! شاید اپنی کسی پالیسی یا مُشیر کو کو سُونگھ لیا ہوگا!

تو کیا یہ سمجھا جائے کہ امریکی خارجہ پالیسی آپ کو لے ڈوبی؟
ریمنڈ : خارجہ پالیسی بھی اور وزیر خارجہ بھی؟

کیا مطلب؟
ریمنڈ : پاک امریکہ دوستی مستحکم کرنے کے لئے ہلیری کلنٹن خود تو شاہ محمود قریشی کے سر سے سر جوڑ کر ہا ہا ہی ہی کرتی رہی اور ہمیں ڈرون حملوں پر لگا دیا! سچ ہے کہا ہے کسی نے۔۔۔
غریبوں کی قسمت میں رونا ہی رونا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486049 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More