چوں چوں کا مربہ ۔۔۔۔۔؟

پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے غیر فطری اتحاد کے خاتمے کے بعد سب کی نظریں آنے والے حالات پر ہیں اور دونوں ہی جماعتوں کی ”ضد“ کے پیش نظر یہ کہنا قطعاً مشکل نہیں کہ پیپلز پارٹی کی وزارتوں سے بے دخلی اور مسلم لیگ ن کی حکومت قائم رکھنے کے لئے نئے سہاروں کی تلاش کے بیچوں بیچ کچھ ایسی قوتیں بھی سرگرم ہوچکی ہیں جو ”Now or never“ہی پر یقین رکھتی ہیں اور وہ اس کھینچا تانی سے بہر صورت فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔پیپلز پارٹی کی پنجاب حکومت سے علیحدگی کے بعد صوبے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) میں اتفاق ہو گیا ہے تاہم فارورڈ بلاک کی شکل میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرنیوالے ارکان اس میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) اپنے ارکان کی واپسی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا الزام ہے کہ گورنر پنجاب بھی انہیں اس سلسلے میں پوری مدد فراہم کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف فارورڈ بلاک کے ارکان بھی عددی برتری کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) فارورڈ بلاک اپنی جماعت کے مزید ساتھیوں سے قریبی رابطے میں ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کی حکومت کو مستحکم کرنے کیلئے عددی برتری حاصل کر چکا ہے تاہم اس کا باضابطہ اعلان بوقت ضرورت کیا جائیگا جبکہ پیر کے روز اسمبلی اجلاس میں ڈاکٹر طاہر جاوید کے یونفیکشن گروپ کے پارلیمانی لیڈر منتخب ہونے کے بعد گروپ کی جانب سے کھل کر شہباز شریف کی حمایت بھی یہی ظاہر کر رہی ہے کہ اب جو بھی ہوگا وہی حتمی ہوگا البتہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپنی اپنی جگہ عجیب مخمصے میں پھنس گئی ہیں اور ہمارے نزدیک دونوں ہی کی مشکلات ایک جیسی ہے۔

وزراء کی بے دخلی یا برطرفی پر سیخ پاء پیپلز پارٹی کا ”ری ایکشن“ قدرتی ہے اور وہ اس قدر شدید ہے کہ تمام تر”اصول“ پس پشت ڈال کراس نے ن کو سبق سکھانے کے لئے ق لیگ سے سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ہیں اور اب وہ اسے پنجاب میں یونیفیکشن بلاک یا ن لیگ کے رحم و کرم پر بے یارومددگار نہیں چھوڑے گی۔ رد عمل کی انتہاء دیکھئے کہ کل کی قاتل لیگ کے لئے مختلف سطحوں پر گنجائش نکالنے کیلئے طریقے اور ذرائع تلاش کئے جارہے ہیں اور اس امر کے تمام تر امکانات موجود ہیں کہ یہ مختلف سطحوں پر حکومت کی نئی اتحادی ہوگی، اس سلسلے میں اندر کھاتے مذاکرات جاری ہیں اور نتائج کو چند دنوں میں عوام کے سامنے پیش کر دیا جائیگا،دوسری طرف مسلم لیگ (ن) پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے کم از کم 51فیصد اراکین صوبائی اسمبلی کی حمایت کے حصول کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے، ان کوششوں کا مقصد مسلم لیگ (ق )کے پارلیمانی لیڈر کی تبدیلی ہے تاکہ اگر ق لیگ کے ارکان پنجاب حکومت میں شامل ہو تو ان پر پارٹی بدلنے کے قانون کا اطلاق نہ ہو سکے۔پیپلز پارٹی سے اتحاد کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ق) پیپلز پارٹی ہی کی مشاورت سے لاہور ہائیکورٹ کے ذریعے یونیفکیشن بلاک کو اس وقت شہباز شریف کے حق میں ووٹ ڈالنے سے رکوانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے جب پیپلز پارٹی کی صوبائی کابینہ سے علیحدگی کے بعد گورنر انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہیں گے(جو تادم تحریر نہیں کہا گیا)۔ مسلم لیگ (ق) میں ہونے کے باوجود حامد ناصر چٹھہ کے ایک ڈیڑھ عشرے سے بینظیر اور زرداری کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں، وہ پیپلز پارٹی کی گڈ بکس میں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال میں ان کے درمیان تعلقات کار میں اضافہ ہوگیا ہے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر بازی بالکل ہی ہاتھ سے نکلتے دکھائی دی تو پیپلز پارٹی انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیش کش بھی کردے گی ۔اتحاد کی حد تک تو کچھ بھی ممکن ہے لیکن یہ کامیاب بھی ہوگا یا نہیں؟ یہ وہ سوال اور مشکل ہے جس کا حل فی الحال کہیں دکھائی نہیں دیتا کہ دونوں ہی اطراف”سب سے پہلے میں“ہی کو شراکت داری کا”زریں اصول“ سمجھتی ہیں اور اگر یہیں پھڈا پڑ گیا تو دوستی کا تانگہ بیچ چوراہے ہی الٹ جائے گا یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ہی جماعتیں اتفاق رائے کے باوجود ایسی مشکلات سے دوچار ہیں جن کا ادراک شاید انہیں فی الحال نہیں۔

پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے بعد صوبائی حکومت کی بقاء میں مصروف مسلم لیگ ن کی طرف دیکھیں تو شہباز شریف اور ان کے نئے دوست بھی ایک طرح سے منجھدار ہی میں پھنسے ہوئے ہیں ۔یہ تو پہلے بھی بارہا کہا جاچکا ہے کہ جس لمحے بھی پیپلز پارٹی کے وزراء صوبائی کابینہ سے علیحدہ ہوں گے شہباز شریف کی حکومت اقلیت میں بدل جائے گی اور گورنر وزریر اعلیٰ کو دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے کہنا ہوگا ۔ اب شہباز شریف اس امتحان میں کامیاب ٹھہرتے ہیں یا نہیں اس کا دارومدار ان کی ڈرائنگ روم سیاست کی صلاحتیوں پر منحصر ہے ۔ اگر وہ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے جوڑ کا توڑ کر گزرے تو یقینی طور پر باقی ماندہ مدت کے دوران بھی وزارت عظمیٰ انہی کی جھولی میں گرے گی تاہم اگر نئے اتحادی اپنے مشن میں سرخرو رہے تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سیاسی مشکلات اس لحاظ سے کہ چودھری برادران ”ان ڈور“ سیاست کے بے تاج بادشاہ مانے جاتے ہیں جو آج کل ویسے بھی مونس الہٰی کے خلاف کیسز کھلنے پر سیخ پاء اپنی توپوں کا رخ رائے ونڈ کی طرف موڑے ہوئے ہیں اور یقینی طور پر ایسے موقع پر وہ تمام سیاسی مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر ”گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو“ کا نعرہ ضرور لگائیں گے جبکہ پیپلز پارٹی سے مبینہ اتحاد (جو ابھی خبروں کی حد تک ہے) سے اس نعرے کی شدت کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ۔جہاں تک قانونی مشکلات کا سوال ہے تو وہ اتنی زیادہ نہیں جتنا واویلا یا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ یونیفیکیشن گروپ یا بلاک کی قانونی حیثیت کو جواز بناکر کہا تو یہی جارہا ہے کہ شہباز شریف قانونی طور پر بھی پل صراط پر کھڑے ہیں کیونکہ نئے اتحادی ان کے حق میں کھلم کھلا ووٹ نہیں دے سکیں گے کیونکہ ایسی صورت میں ان پر فلور کراسنگ کا قانون لاگو ہوگا اور وہ نااہل قرار دیئے جاسکتے ہیں لیکن اس قانون کا شور مچانے والے شاید خود بھی لاعلم ہیں جس کی ایک مثال مسلم لیگ (ق) کے لیڈر کامل علی آغا ہیں جو ایک روز ہی قبل ایک ٹی وی شو میں بڑے اعتماد کے ساتھ آئین کی دفعہ 63 اے کا حوالہ دے کر پنجاب اسمبلی کے یونیفکیشن بلاک کے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑا ہونے کی صورت میں اس کی نااہلیت ثابت کر رہے تھے اور پیپلز پارٹی کی محترمہ عظمٰی بخاری بھی اس معاملہ میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتی نظر آئیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 63۔ اے یونیفکیشن بلاک کی اہلیت کو گزند تک نہیں پہنچاتی۔ کسی رکن اسمبلی و پارلیمنٹ کی نااہلیت سے متعلق آئین کی دفعہ 63۔ اے کا یہ تقاضہ ہے کہ کوئی رکن منتخب کسی ایک پارٹی کے ٹکٹ پر ہو مگر اسمبلی کے فورم پر وہ اس پارلیمانی پارٹی کو چھوڑ کر کسی دوسری جماعت کی پارلیمانی پارٹی میں جا بیٹھے تو وہ فلور کراسنگ کی بنیاد پر اپنی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو جائے گا اور اسے محروم ہو بھی جانا چاہئے مگر یہ آئینی شق کسی ایک رکن اسمبلی کے انفرادی فعل پر لاگو ہوتی ہے، پوری پارلیمانی پارٹی پر ہرگز اس کا اطلاق نہیں ہوتا اور یونیفیکیشن بلاک اپنا باقاعدہ پارلیمانی لیڈر بھی منتخب کر چکی ہے،چونکہ اس وقت فلور کراسنگ کا قانون صرف آئین کی دفعہ 63۔ اے کے تحت لاگو ہے جس کا کسی پوری پارلیمانی پارٹی پر اطلاق نہیں ہو سکتا اس لئے بادی النظر میں یونیفکیشن بلاک آئین و قانون کے محفوظ ہاتھوں میں ہے اور ٹکٹ دینے والی پارٹی کے سربراہ سے اختلاف کرتے ہوئے اسمبلی کے فورم پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ اس قانونی اور آئینی پوزیشن کو چاہے میاں شہباز شریف کی پنجاب حکومت کے لئے ایک اور عدالتی حکم امتناعی سمجھا جائے، پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے علیحدگی کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کے برقرار رہنے والا صدمہ برداشت کرنا ہی پڑے گا، اس لئے بہتر ہے‘ یونیفکیشن بلاک کی قانونی اور آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے بجائے اخلاقیات کے تقاضوں پر زور دیں اگر یہ تقاضے مستحکم ہو جائیں تو مفاد پرستی کی سیاست میں کسی یونیفکیشن بلاک کے قیام کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور یہ یقینی طور پر ایک پلس پوائنٹ ہے۔

مسلم لیگ ن کی ایک اور مشکل اس وقت سامنے آئے گی جب صوبائی حکومت میں نئے حصہ دار یونیفکیشن بلاک والے اپنا”حصہ“ مانگیں گے۔ حصہ بحیثیت جسہ پر تو شاید حکومتی کیمپ کو اختلاف یا اعتراض نہ ہو لیکن جس طرح کے حالات ہیں خبریں یہی آرہی ہیں کہ ایک عرصہ سے حکومتی بینچوں پر بیٹھنے کی خواہش مند یونیفیکیشن اپنے تمام تر”ارمان“ پوری کرنے کی کوشش بلکہ ڈیمانڈ کرے گی ۔ اگر تو ن لیگ بلیک میل ہوکر اس طلب کو پورا کرتی رہی تو ستے ای خیراں لیکن اگر کہیں میاں برادران اصولوں کی روایتی سیاست کی بڑھک لگا بیٹھے تو پھر صورتحال چوں چوں کے مربے سے مختلف قطعاً نہیں رہے گی۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54173 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.