جانباز قیادت٬ میجر محمد زبیر شہید

ضلع اٹک کی تحصیل حضرو میں ایک دور افتادہ گاﺅں ”کالو کلاں “واقع ہے جو بنیادی سہولیات سے تقریبا ً محروم ہے ، لوگ کم پڑھے لکھے اور محنت مزدوری یا کھیتی باڑی کر کے گزر بسر کرتے ہیں ،گو کہ یہ علاقہ تعمیر و ترقی ،تعلیم کے حوالے سے کافی پیچھے ہے ، مگر کسے معلوم تھا کہ اسی گاﺅں کے رہائشی محمد اکرم کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو ملک و قوم کا نام روشن کریگا اور اس دھرتی کی حفاظت کی خاطر دلیرانہ ادا سے لڑتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا ۔دنیا دھرتی کے اس بہادر بیٹے کو میجر محمد زبیر شہید کے نام سے جانتی ہے، میجر زبیر کی شہادت نے یہاں کے باسیوں کے دل جیت لیے ہیں اور وہ اس بات پر خوشی سے پھولا نہیں سماتے کہ پاک وطن کے عظیم ہیرو نے اسی دھرتی کی مٹی سے جنم لیا اور ان کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔

میجر محمد زبیر 1973ء کو پیدا ہوئے ، تعلیم گورنمنٹ شاہین کالج کامرہ سے حاصل کی اور 1991ء میں ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں کیساتھ اسی ادارے سے پاس کیا ، میجر شہید کے بھائی محمد بلال و دیگر اہل خانہ نے راقم کو بتایا کہ میجر محمد زبیر نے جب میٹرک کا امتحان پاس کیا تو انہیں آرمی میں شمولیت کا شوق دامن گیر ہو چکا تھا، پھر شوق بھی دیکھیں کہ دوستوں ، گھر والوں کو بتاتے کہ میں نے پاکستان آرمی جوائن کرنی ہے اور وہ بھی کسی فائٹنگ فورس میں جانا ہے ، اس بہادر میجر کے دوست احباب یہ سنتے تو حیران رہ جاتے اور انہیں بتاتے کہ دیکھو” خاکی وردی “اور ”لال لہو “کا آپس میں بڑا گہرا رشتہ اور تعلق ہے مگر اپنی دھن کا پکا یہ محب وطن جوان اپنے شوق سے باز نہ آیا اور با لآخر وہ وقت بھی آن پہنچا جب اس کا سیکنڈ لفٹینٹ کا کال لیٹر آگیا ،اہل خانہ بتاتے ہیں کہ پی ایم اے کاکول کا لیٹر دیکھتے ہی وہ خوشی سے جھوم اٹھے اور بے اختیار لیٹر کو چومتے چلے گئے ۔

اس جری فرزند نے 1994ءمیں پاکستان آرمی سے کمیشن حاصل کیا اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے دو سال پر محیط ملٹری ٹریننگ کامیابی سے مکمل کی۔ جب انہیں 1996ءمیں انفنٹری کی22پنجاب رجمنٹ کی جانب سے خضدار بلوچستان میں بھیجا گیا تو وہ اس قدر خوش تھے کہ گویا اک مدت بعد گوہر مقصود ان کے ہاتھ لگا ہو ، بعد ازاں کچھ عرصہ چھانگا مانگا میں ڈیوٹی کے فرائض انجام دیے اور پھر انہیں این ایل آئی سکردو میں کیپٹن کی حیثیت سے تعینات کیا گیا ۔ 2000ءمیں کارگل کے علاقہ میں سیز فائر کے بعد پاکستان آرمی کا کچھ اسلحہ انڈین علاقے کی طرف رہ گیا تھا ، اس جری اور بہادر میجر نے اپنے آٹھ جوانوں کے ہمراہ راتوں رات خفیہ آپریشن کے ذریعے سے بھارتی علاقہ سے اپنا اسلحہ واپس لیا اور انہیں اس کامیاب کاروائی کی بناء پر پاکستان آرمی کی جانب سے تعریفی اسناد دی گئیں اور انہیں عمرہ کی بھی سعادت حاصل ہوئی بعد ازاں انہیں تھر پارکر کے بارڈر ایریا میں بھیجا گیا جہاں انہوں نے دشمن کی نقل و حمل اور جنگ و جدل کا بڑے قریب سے مشاہدہ کیا اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ۔ انہی دنوں سیرالیون سے یہ خبر آئی کہ اقوام متحدہ کی جانب سے علاقہ میں تعینات انڈین آرمی کی لوٹ مار کی وجہ سے عالمی برادری نے پاکستانی فوج سے امن دستے بھیجنے کی درخواست کی ، یہاں پر بھی قرعہ فال میجر زبیر شہید کے نام نکلا اور انہوں نے سیرالیون میں جاکر پاکستانی فوج کی طرف سے ڈیوٹی کے فرائض نہایت بہتر طریقے سے انجام دیے اور سیرالیون کے گلی کوچوں ، محلوں ، بازاروں اور ریگزاروں میں پاکستانی فوج کا نام روشن کیا۔

سیرالیون سے ایک سال کے بعد واپسی ہوئی تھی کہ پارا چنار میں قبائلی گروپوں میں لڑائی شروع ہوگئی ان حالات میں فوجی قیادت کے نزدیک میجر زبیر ہی وہ قابل اعتماد نام تھا جس پر انہیں یقین تھا کہ یہ جوان اپنی بہترین قائدانہ صلاحیتوں کی بناء پر حالات پر قابو پا سکے گا، چنانچہ وہ پارا چنار کی دہکتی وادی میں اترے اور حالات کی بہتری کے لیے کردار ادا کیا ،یہیں سے انہوں نے میجر کے عہدے پر ترقی حاصل کی ، میجر زبیر شہید چترال سکاﺅٹس میں بھی فرائض انجام دیتے رہے ۔

فروری 2009ءمیں مینگورہ سوات میں طالبان میلیشیا کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں اور تقریبا ً تمام اہم عمارتوں پر طالبان اپنا قبضہ جما چکے تھے ، ایف سی یا پولیس تو ان کے آگے بالکل بے بس ہو چکی تھی ، اس بہادر میجر نے اپنے جانثار جوانوں کے ہمراہ طالبان کے مضبوط گڑھ گرین چوک کے پاس اپنا کیمپ لگا یا اور طالبان کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا شروع کیا انہی دنوں وہ ایک روز کی چھٹی پر گھر آئے اور اہل خانہ کو تلقین کی کہ آپ پریشان ہرگز نہ ہوں جب ”خاکی وردی“ زیب تن کرلی ہے تو پھر موت سے ڈر کیسا؟

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان آرمی سوات کے تمام علاقوں میں آہستہ آہستہ سرایت کر رہی ہے اور جونہی آرمی نے اپنے قدم مضبوط کر لیے عسکریت پسندوں کیساتھ ایک فیصلہ کن معرکہ لڑا جائے گا ۔پھر کچھ ہی دنوں بعد مینگورہ اور سوات کے دیگر علاقوں میں طالبان اور فوج میں لڑائی شروع ہوگئی میجر زبیر شہید کے بھائی نے بتایا کہ موبائل فون پر جب بھی میرا ان سے رابطہ ہوا میں نے اپنی سو چ سے بھی زیادہ ان کا مورال بلند پایا ، چند ماہ بعد ہی بھائی نے بتایا کہ اب کافی حد تک طالبان کا زور توڑ دیا گیا ہے ۔

میجر زبیر شہید کو ہمیشہ سخت اور مشکل ترین علاقوں میں تعینات کیا گیا ، پاکستان آرمی کی اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ ان پر اعتماد کیا اور جوانوں کو بھی اپنے اس بہادر کمانڈر پر بڑا ناز تھا اس لیے کہ وہ ہر فائٹ میں جوانوں کے ہمراہ رہتے اور ایک سولجر کی طرح لڑتے ، بھائی زبیر نے بتایا کہ ان کا آخری میسج 14اگست 2009ءکو موصول ہو ا جس میں انہوں نے مجھے جشن آزادی پر مبارکباد دی ۔

16اگست کی شام چار بجے میجر زبیر شہید کو کمانڈنگ آفیسر نے اطلاع دی کہ مینگورہ سٹی کے محلہ عنایت کلے کے کسی مکان میں ایک خود کش حملہ آور موجود ہے جو کسی بھی وقت آرمی کو نشانہ بنا سکتا ہے ، سی او نے کہا میجر آپ اس صورتحال میں کیا کر سکتے ہیں ؟ میجر نے جواب دیا سر! میں ابھی ساری صورتحال کا جائزہ لیتا ہوں ، چنانچہ اسی لمحے میجر زبیر اپنے ہمراہ دس جوانوں کو لے کر محلہ عنایت کلے پہنچے اور گھر گھر سر چ آپریشن شروع کر دیا اور بالآخر وہ اپنے ہدف تک پہنچ گئے ، انہوں نے گھر کے تمام افراد کو باہر نکالا اور اپنے ساتھی جوانوں کو کہا آپ باہر ہی ٹھہرو میں اندر دیکھ کے آتا ہوں ، جوانوں نے کہا سر آپ باہر رہیں ہمیں اندر جانے دیں ، میجرجوانوں کے اسرار پر صرف ایک سپاہی محمد سعید کے ہمراہ مکان میں بے خوف و خطر داخل ہوئے ، یہ بہادر فوجی آفیسر گن ہاتھ میں تھامے خود کش حملہ آور کو للکار رہا تھا کہ اچانک اس کا سامنا حملہ آور سے ہوا اور انہوں نے نہایت مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر فائر کر دیا مگر اس کے ساتھ ہی حملہ آور نے خود کش جیکٹ بلاسٹ کر دی اور دوسرے ہی لمحے پاکستانی فوج کا یہ بہادر، مایہ ناز اور قابل فخرفوجی آفیسر اپنے ایک جانثار سپاہی محمد سعید کے ہمراہ شہادت کے رتبے پر فائز ہو گیا ۔

17اگست کو آپ کا جسد خاکی آبائی گاﺅں کالو کلاں تحصیل حضرو لایا گیا اور علاقہ کے ہزاروں عوام ، سیاسی ، سماجی و مذہبی شخصیات نے اس محافظ وطن کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور نوشہرہ سے آنے والے پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے میجر جنرل کی قیادت میں اس شہید ناز کو گارڈ آف آنر پیش کیا ، پاک دھرتی کا یہ محافظ بیٹا آج بھی گاﺅں کالو ں کلاں کے شہر خموشاں میں سکون کی نیند سوتا ہے ۔
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 32910 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.