یاسر رضا آصف کی شاعری میں تصورِ محبوب

شاعری ہمیشہ سے ہی انسان کے جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ رہی ہے۔ غمِ ذات سے شروع ہونے والی شاعری آج غمِ کائنات تک پھیل چکی ہے۔ کلاسیکی شاعری کا آغاز محبوب کی سراپا نگاری سے ہوا تھا اور شاعری میں محبوب کا کردار آج بھی اپنی بھرپور وسعتوں کے ساتھ شامل ہے۔

ہر شاعر نے اپنے اپنے انداز میں محبوب کے سراپے کو بیان کیا ہے۔ کسی نے محبوب کے ظاہری حسن کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا تو کسی نے محبوب کے باطنی رنگ سے پردہ اٹھایا۔

یاسر رضا آصف کو ویسے تو معاشرت اور فطرت کا شاعر سمجھا جاتا ہے مگر انھوں نے اپنی شاعری کے اندر محبوب سے متعلق مضامین کو بھی انتہائی عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔آپ محبوب کے سراپے کو اردو کی غزلیہ روایت سے ہٹ کر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ نے محبوب کے ظاہر اور باطن کو کلاسیکی شعراء سے ہٹ کر ایک نئے انداز میں بیان کیا ہے۔ آپ محبوب کے ظاہر اور باطن کو یکجا کرتے نظر آتے ہیں۔
مثال ملاحظہ ہو
دل کی گہرائی میں آصف تب اتریں
پہلے خال و خد سے گزر ا جائے تو

شعراء کی ایک کثیرتعداد نے اپنے محبوب کے چہرے کی رعنائی کو خاص طور پر اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ہر شاعر نے اپنے اپنے انداز میں محبوب کے چہرے کی خوبصورتی کو لفظوں کے ذریعے تصویر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کسی نے چہرے کو چاند سے تشبیہ دی تو کسی نے کِھلے ہوئے گلاب سے موازنہ کیا۔
یاسر رضا آصف نے اسی موضوع کو ایک نئے انداز سے بیان کیا ہے۔
اس کے چہرے جیسا سندر اور نہ کوئی ہوگا
جس کو دیکھ کے رک جاتا ہے اکثر چلتا پانی

اردو کی غزلیہ روایت میں محبوب انتہائی سنگدل واقع ہوا ہے اور وہ اپنے چاہنے والے کی نسبت رقیب سے تعلق قائم کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہے۔ اور جب وہ اپنے سچے چاہنے والے کو چھوڑکر اغیار کی طرف دیکھتا ہے تو اس کے گرد مطلبی لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے اور وہ اُن لوگوں کے ہجوم میں گم ہو کر اپنے سچے چاہنے والے کو بھول جاتا ہے۔
یاسر رضا آصف نے اسی موضوع کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
جس کے پہلو میں سجی ہے انجمن
وہ ہمارا بھی کبھی دلد ا ر تھا

ہر اچھے شاعر کا فنِ شاعری ہر جگہ مقبول ہوتا ہے ۔ لوگ اپنی محفلوں کو اُس کے شعروں سے رونق بخشتے ہیں اور لوگ اپنے چاہنے والوں کا دل ان اشعار کی مدد سے جیتنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جس کے لئیے شاعر نے وہ اشعار تخلیق کیے ہوتے ہیں اُس کے ہاں اُن کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی ۔
بقول یاسر رضا آصف
ہر جگہ بولتا ہے فن میرا
اُس کی محفل میں سب ہنر چپ ہیں

انسانی زندگی اپنے ارتقا سے لے کر اب تک مختلف مراحل سے گزری ہے۔ انسان پیدائش سے لے کر وفات تک تبدیلی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ انسان جب عشق کی منزل کی طرف بڑھتا ہے تو اُس کے اندر ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو اس کی کایا پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔کبھی عشق بادشاہوں کو فقیر بنا دیتا ہے تو کبھی قیس جیسے شہزادوں کو صحراء کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیتا ہے۔
یاسر رضا آصف نے اسی موضوع کو دو مصرعوں میں نہایت عمدگی سے سمیٹا ہے۔
جو ترے در کا گدا ہے آج کل
وہ قبیلے کا کبھی سردار تھا

محبت میں انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ کبھی بھی اس کے اور محبوب کے درمیان ناراضگی اور نفرت کا خلیج حائل نہ ہو اور وہ ایک دوسرے کے شانوں پہ سر رکھے چاند،تتلی اور جگنو کی باتیں کرتے رہیں مگر انسان قسمت کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو اسے ساری دنیا روٹھی روٹھی لگتی ہے۔
بقول یاسر رضا آصف
جب سے وہ لب روٹھے ہیں
سارے لہجے کڑوے ہیں

وصل کو عشق کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے ۔ چاہنے والا محبوب کے دیدار اور ملاقات کے لئے تڑپتا رہتا ہے ۔ جہاں پر کلاسیکی شعراء نے اس مقصد کے لئے قاصد کا سہارا لیا ہے وہی پر یاسر رضا آصف نے تصوف کی مدد سے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے ۔
شعرملاحظہ ہو
آیتِ وصل دم کرو اُس پر
لے کے مٹی کسی کے پاؤں کی

قصہ گوئی کی روایت صدیوں سے ہماری ثقافت کا حصہ رہی ہے۔ دورِ قدیم سے لے کر دورِ حاضر تک لوگوں کی اکثر شاموں کا آغاز اور راتوں کا اختتام ایک دوسرے کو قصے سنا کر ہوتا تھا۔ سسی پنوں، سوہنی مہینوال اور ہیر رانجھا مشہور قصے ہیں جو کہ سننے والوں کے دلوں پر گہرے نقوش ثبت کرتے ہیں۔ یاسر رضا آصف اپنے اشعار کے ذریعے اپنے محبوب کے قصے کو بیان کرتے ہیں جسے سن کر لوگ اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔
مثال ملاحظہ ہو
سننے والے اپنے آپ میں ڈوب گئے
کیسا کیا ہے جادو تیرے قصے نے

محبت ایک ایسا درخت ہے جسے قربانی کے خون سے پروان چڑھایا جاتا ہے ۔ محبت کے میں انسان اپنے محبوب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنا تن، من، دھن وارنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ وہ محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے جبکہ اس کی اپنی جھولی خالی کی خالی رہ جاتی ہے کیونکہ وہ اتنی قربانی دینے کے باوجود اپنے محبوب کی خوشنودی حاصل نہیں کر پاتا۔
اسی موضوع کو یاسر رضا آصف نے یوں بیان کیا ہے
میں نے سارے موسم جس پہ وار دیے
خوش ہے میرے گلشن کی ویرانی پر

عشق کے سفر میں جب تک محبوب انسان کے پاس ہوتا ہے تب تک اس کا ہر دن عید کا دن اور ہر رات چاند رات ہوتی ہے۔ مگر جب اس سے اس کا محبوب جدا ہو جاتا ہے تو اس کے لئے دنیا کی روشنیاں مانند پڑ جاتی ہیں اور اسے ہر منظر روٹھا روٹھا لگتا ہے چمکتے دن بھی اس کے لئے سیاہ رات بن جاتے ہیں۔
اسی بات کو یاسر رضا آصف نے یوں بیان کیا ہے
تیرے جانے سے دھرتی کے سارے منظر روٹھ گئے
ایک چمکتا دن بھی ہم کو کالی شب معلوم ہوا

شاعر حضرات اپنی فطرت کے لحاظ سے ہمیشہ سے ہی حساس دل واقع ہوئے ہیں۔ وہ باتوں کو عام لوگوں سے ہٹ کر محسوس کرتے ہیں۔ وہ محبت کو ایک بھلا دینے والی عام سی چیز نہیں بلکہ ایک ناقابلِ فراموش جذبہ تصور کرتے ہیں۔ وہ محبت کو اپنے خون میں دوڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
بقول یاسر رضا آصف
میں اس کی محبت کو بھولا ہی نہیں اب تک
وہ خون میں ہے شامل غیرت کی طرح آصف
شاعر، شاعری کے ذریعے لوگوں کو سوچنے پر مجبور تو سکتا ہے مگر بیوی بچوں کا پیٹ پالنا اس کے بس کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادیب چاہے قدیم دور کا ہو یا دور جدید کا بھوک ہمیشہ سے ہی اُس کا مسئلہ رہی ہے۔ یہاں تک کے کہ کئی شعراء کو اس کے لئے اپنا دیوان تک بیچنا پڑا۔ اور شاید اسی وجہ سے ان کے خانگی معاملات تناؤ کا شکار رہے ہیں ۔

یاسر رضا آصف اپنے محبوب کو اس بات کی تنبیہ کچھ اس انداز میں کرتے نظر آتے ہیں۔
لفظوں سے نہ بھوک مٹے گی نہ دامن بھر پاؤ گی
کیا پاؤ گی پیت لگا کر ہم جیسے فنکاروں سے

جوں جوں وقت آگے بڑھ رہا ہے دنیا کی آبادی میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر اس کے برعکس پیار محبت جیسے رشتے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ حساس لوگوں کی آنکھیں ان لوگوں کی دید کی کچھ زیادہ ہی متلاشی ہوتی ہیں جن کے دل محبت کے جذبہ سے لبریز ہوں۔ مگر انہیں ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا جو دل میں ان کے لئے ایسے جذبات لئے بیٹھا ہو۔

اسی کیفیت کو یاسر رضا آصف کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں
سب کے چہرے جس کی خاطر تکتا ہوں
وہ پیاری سی صورت کب ہے لوگوں میں

چیزوں کی تاثیر اُن کے استعمال کرنے والوں کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ بارش کے قطرے کا تجزیہ کرنے سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ اگر یہ قطرہ سانپ کے منہ میں گرے تو زہر جبکہ ساحل پر پڑے سیپ میں گرے تو موتی بن جاتا ہے۔ اسی طرح موتی کی قیمت کمہار کے ہاں دس آنے اور جوہری کے ہاں دس لاکھ ہوتی ہے۔روایتی غزل میں عاشق خود کو محبوب کے مقابلے میں کم تر محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے شیریں لہجے کا بھی لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا جبکہ تیرا ہلکا سا مسکرا دینا بھی ان کے دل جیتنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔۔
یاسر رضا آصف نے اسی موضوع کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔
میری آنکھوں سے ٹپک کر اشک پتھر بن گئے
تیرے لہجے کی کھنک ہیں چاندنی اور چند پھول

یاسر رضا آصف نے اپنی شاعری کے دیگر تمام رنگوں کی طرح محبوب کے رنگ کو بھی انتہائی عمدگی سے پیش کیا ہے جو پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ امید ہے کہ یاسر رضا آصف اپنے اسی اسلوب کے ساتھ ادبی حلقوں میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

Saif Ali Saif
About the Author: Saif Ali Saif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.