سفر عراق اور ایران (قسط ۱)

خانہ فرہنگ ایران اسلام آباد نے متعدد بار مجھے مشورہ دیا تھا کہ مجھے پہلی بار ایران اکیلے نہیں جانا چائیے جسکی وجوہات بھی انہوں نے بتائی تھیں۔ انکا مشورہ کافی حد تک درست ثابت ہوا ہے لیکن ایک دوست مجھے عراق لے آئے جہاں سے اب ہم نے ایران جانے کا بھی فیصلہ کیا ہوا ہے۔ ایران اور عراق دونوں ہر لحاظ سے تاریخی ممالک ہیں ۔ ایران لفط آریا اور عراق سمیرین لفظ عرگ سے نکلا ہے ۔ عرگ کے معنی شہر بتائے جاتے ہیں۔ چونکہ ہم پہلے عراق پہنچے ہیں اس لیے روداد بھی کیے جانے والے سفر کے مطابق ہی ہو گی۔ جموں کشمیر میں پاک۔ بھارت لڑائی کی وجہ سے پاکستان میں ہوائی سفر متاثر ہوا جسکی وجہ سے مجھے اسلام آباد کے بجائے لاہور سے براستہ تہران نجف آنا پڑا۔ نجف کا مطلب ہے خشک جگہ لیکن اب یہ ایک بارونق اور تاریخی شہر ہے ۔ یہاں حضرت مولا علی کے روضہ مبارک کے علاوہ جن انبیاء کرام کی قبریں ہیں انکی زیارتوں کے مطابق زکر ہوتا رہے گا اس لیے اختصار سے کام لیتے ہوئے ہم نجف میں اپنی مصروفیات کا تذکرہ شروع کرتے ہیں۔ لاہور سے میرے برادر نسبتی امداد الرحمن مجھے الوداع کرنے آئے جو لاہور میں زیر تعلیم ہیں وہاں ہماری ملاقات چکوال کے مولانا نعیم سے ہوئی جو اپنے قافلے کا نتظار کر رہے تھے جن میں میرے پڑوسی گاؤں ڈونگی کے افتخار حسین شاہ انکی اہلیہ جو ڈونگی میں ایک سرکاری معلمہ رہی ہیں اور بلتستان کے مولانا محمد یعقوب بھی شامل تھے۔

ہم 18. 03.2019 کی شام کو نجف ائر پورٹ پر پہنچے جہاں سے ہوٹل پہنچنے تک اتنی دیر ہو چکی تھی کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اب آرام کیا جائے اور صبح سویرے زیارتوں کا آغاز کیا جائے۔ ناشتہ کر کے سب سے پہلے ہم حضرت مولا علی کے روضہ مبارک پر حاضری دینے گے۔ مکہ اور مدینہ میں حرم کے اندر چھوٹے بیگ اور موبائل لے جانے کی اجازت ہے مگر نجف میں کوئی بھی چیزساتھ رکھنا تو درکنار خواتین کا بیگ اس کے ساتھ جانے والا مرد بھی امانت خانے میں جمع نہیں کروا سکتا ہے۔ یہ کام عورت کو خود کرنا پڑٹا ہے اس لیے میرا مشورہ ہے کہ زائرین اپنے بیگ ہوٹل میں ہی چھوڑ جائیں ورنہ انکا بلا وجہ وقت ضائح ہو گا۔ نجف میں کام کرنے والے سب لوگ عربی تھی۔ خدام سمیت کوئی بھی عربی اور فارسی کے علاوہ دوسری زبان نئیں بولتا جسکی وجہ سے کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔ عام شہر کے نسبت زیارتوں والے مقامات میں بہت مہنگائی ہے۔ زیارتوں والے مقامات کے ارد گرد بھی برصغیر کے طعام خانے دیکھنے میں نہیں آئے ہمیں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے عام قسم کا ناشتہ ایک ہزار روپیہ فی کس پڑ گیا۔ موبائل سم اور لوڈ بھی بہت مہنگا ہے۔ میرا خیال ہے کہ دنیا کے ہر مذہب کی دینی شخصیات نے اپنے دین کی تو بہت خدمت کی جسکی وجہ سے وہ تاریخ میں اپنا نام درج کروا گے مگر ان مقدس مقامات پر کاروبار کرنے والے لوگ زائرین نہیں بلکہ زر کے لیے کام کرتے ہیں کیونکہ وہاں کاروبار کرنے والا ہر تیسرا فرد زائرین کی اجنبیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے لیکن فراخ دل اور سخی لوگ بھی موجود ہیں جو بعض اوقات چھوٹی موٹی اشیاء مفت میں دے دیتے ہیں۔ زیارتی حصے میں کوئی بنک اور اے ٹی ایم کی سہولت موجود نئیں اس لیے وہاں جانے والے ہوٹلوں سے نکلتے وقت اپنے پیسے کیش کروا کے جائیں ورنہ بلیک میں مہنگے داموں رقم تبدیل کروانی پڑے گی۔ ہماری پہلی زیارت حضرت مولا علی کا روضہ مبارک تھا۔ حضرت علی پر ابن ملجم نے 26.01.661 کو مسجد کوفہ میں زہر کے خنجر سے اس وقت حملہ کیا تھا جب وہ فجر کی نمازکے دوران سجدے میں تھے۔ دو دن بعد وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے باسٹھ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ قاتل کو حضرت علی کے بیٹے امام حسن نے جوابی کاروائی میں مار ڈالا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انکے تاریخی فرزندان امام حسن، اما م حسین اور انکے بتیجھے اعبداﷲ ابن جعفر نے خاموشی سے مولا علی کو دفن کیا تھا کیونکہ انئیں خطرہ تھا کہ دشمن امام علی کی قبر کی بے حرمتی کریں گے۔ اس وقت قبر ایک گمنام جگہ پر تھی لیکن آج وہاں دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ایک ایسا شہر آباد ہے جہاں بلا تخصیص سالانہ آٹھ ملین زائرین روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ حضرت علی کے روضہ مبارک کی زیارت کے بعدہم وادی اسلام گے جہاں ارد گرد انگنت قبریں ہیں جبکہ حضرت ہود اور حضرت داؤد علیہ سلام کی قبریں ایک الگ جگہ پر ہیں جہاں زائرین نفافل ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح امام زمانہ جنہیں عرف عام میں امام مہدی کہتے ہیں کے لیے مختص مقام پر بھی نوافل ادا کیے جاتے ہیں۔ یہاں زائرین کو گڑ گڑا کر روتے دیکھا گیا۔ اس مقام کے بارے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق امام مہدی کا یہاں غیبی دورہ رہتا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ دنیا کے خاتمے پر یہاں سے نمودار ہونگے۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ کے ٹینکوں نے جب نجف کا محاصرہ کیا تو ملک بھر کے لوگ اس تاریخی شہر کے دفاع کے لیے امڈ آئے جنکی قیادت سید مقتدی الصدر اور انکی مہدی ارمی نے کی۔ الصدر خاندان کا تعلق لبنان سے بتایا جاتا ہے جو ہجرت کر کے نجف آیا جہاں اس نے ایک بڑے سیاسی خاندان کی حیثیت اختیار کر لی۔ سید مقتدی سید آیت اﷲصاد ق الصدر کے بیٹے اور سید آیت اﷲ باقر کے داماد ہیں۔ یہ خاندن نجف میں غریبوں کے حامی اور محافظ کے طور پر مشہور ہے۔ لبنان کی عمل تحریک کی بنیاد بھی اسی خاندان نے رکھی تھی۔ سید مقتدی الصدر کو یہاں امریکہ کا سب سے بڑا مخالف سمجھا جاتا ہے لیکن انہوں نے شام کے صدر بشار الاسد کی پالیسیوں کی بھی مخالفت کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ ملک کو بچانے کی خاطر بشار الاسد مستعفی ہو جائیں۔ انہوں نے اسلامی دنیا میں بھائی چارگی کی فضا پیدا کرنے کے لیے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کی بھی پیش کش کی۔ مئی 2018 کے الیکشن میں چون نشستیں حاصل کر کے امریکہ کی مداخلت کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا (جاری)

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 41623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.