معذور افراد کے بارے میں اسلامی تعلیمات

اسلام ایک بہترین اور لاجواب طرزِ حیات ہے جو خدائے واحد نے بنی نوع آدم کی دنیوی و اُخروی فلاح و بہبود کیلئے اپنے پیروکاروں کو آفاقی احکامات دیتا رہتا ہے مثلاً آپ معذور افراد کے معاملے ہی کو لے لیں کہ معذور افراد کی بحالی (rehabilitation)کیلئے جتنی بھی تحریکیں آج دنیا بھر میں چل رہی ہیں اس سلسلے کی سب سے پہلی اور مؤثر آواز اسلام نے آج سے 1400سال پہلے اٹھائی اور معذور افراد کی معذوری کو نظر انداز کرتے ہو ئے ان کو باور کرایا کہ وہ بیکار و محتاج لوگ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے وہ پسندیدہ بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے امتحان کیلئے منتخب کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے معذور افراد کی عزت نفس کے پیش نظر عام انسانوں کو حکم دیا کہ وہ انہیں حقیر نہ سمجھیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے''اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاﺅ اور کسی برے لقب سے نہ پکارو '' (سورہ الحجرات)یہ حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو اخلاقیات کے ضمن میں یہ بہترین سبق دیا کہ وہ ان لوگوں کو لولا،لنگڑا،ٹنڈا یا اندھا کہہ کر نہ پکاریں تا کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو ،ان کی دل آزاری نہ ہو جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ''اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگاﺅ اور نہ ہی کسی کو برے لقب دو'' (سورةالحجرات)

اسی طرح ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ'' بنی آدم کی دل آزاری گناہِ کبیرہ ہے''۔

اس کے علاوہ عملی طور پر ہمیں کئی جگہ پر نظر آتا ہے کہ اسلام صرف کسی جسمانی کمزوری یا معذوری کی بنا پر کسی فرد کو حقیر یا کمتر نہیں سمجھتا بلکہ بعض اوقات ان میں موجود دیگر اعلیٰ صلاحیتوں کے باعث ان کو عام افراد سے بھی اعلیٰ و ارفع مقام عطا کردیتا ہے۔اس سلسلے کی ایک بہترین مثال ہمیں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ہی داس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب اسلام اپنی حقانیت اور حضورِ اکرم ﷺ کی لازوال فکرو جدوجہد کے باعث دنیا میں قبولیتِ عام حاصل کر رہا تھا اور لوگ دھڑا دھڑ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے تھے لیکن ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر نچلے طبقے کے لوگ تھے جس پر سردارانِ قریش حقارت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ یہ کیسا مذہب ہے جس میں کمزور اور معذور لوگ ہی ہیں تو اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کے ساتھ ایک علیحدہ نشست کا اہتمام کیا تاکہ علیحدگی میں ان سے مفصل گفتگو کر کے انہیں قبولیت اسلام پر قائل کیا جا سکے کیونکہ یہ لوگ اپنے سے کم درجہ لوگوں کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے لیکن عین اس دوران جب آپ ﷺ انہیں دین کی دعوت دے رہے تھے ایک نابینا شخص(حضرت عبداللہ بن مکتوم ؓ)بھی اسلام قبول کرنے کی غرض سے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو گئے لیکن اس وقت حضور ﷺ کو ان کی مداخلت قدرے ناگوار گزری اور آپ نے ان سے اپنا رخِ انور موڑ لیا کیونکہ آپ ﷺ کا خیال یہ تھا کہ جن لوگوں کو اس وقت دعوت دی جا رہی ہے ان میں سے اگر کسی ایک شخص بھی راہِ راست پر آگیا تو وہ اسلام کی تقویت کا باعث بنے گا جبکہ یہ نابینا شخص اسلام کی ترویج و اشاعت میں زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا جس پر آپ ﷺ پر فوراََ وحی نازل ہوئی جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔

''تُرش رُو ہوا اور بے رُخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا تمہیں کیا خبر کہ شائد وہ سدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور تمھارا نصیحت کرنا اس کیلئے نفع مند ہو جائے جو شخص بے پروائی برتتا ہے ان کی طرف تو تم توجہ دیتے ہو حالانکہ اگر وہ نہ سدھریں تو تم پر اسکی کچھ ذمہ داری نہیں اور جو خود تمہارے پاس دوڑا چلا آتا ہے اور وہ ڈر بھی رہا ہوتا ہے اس سے تم بے رخی کرتے ہو ہرگز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے جو چاہے اسے قبول کر لے'' (سورہ عبس)

اسی طرح ایک اور موقع پر جب صحابہ کرام جنگ کی تیاری میں مصروف تھے ایک صحابی حضرت عمر بن جموح ؓ جو کہ ایک ٹانگ سے معذور تھے نے بھی جہاد پر جانے کی شدید خواہش کا اظہار کیا جس پر حضور ﷺ نے ان کی معذوری پر ان کے جذبے کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں اس کی اجازت مرحمت فرما دی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی شخص میں موجود کوئی کمزوری یا معذوری اسے مکمل طور پر بے کار یا محتاج نہیں بناتی بلکہ اگر اس فرد کی مناسب حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کو موقع دیا جائے تو وہ فرد اپنی دوسری خداداد صلاحیتوں سے کئی کارہائے نمایاں سر انجام دے کر ملک و قوم کی خدمت کر سکتا ہے۔ اسلام معذور افراد کے ساتھ خصوصی حسن سلوک کا درس بھی دیتا ہے جیسا کہ ایک دفعہ کھانا کھانے کے دوران حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ ایک صحابی بائیں ہاتھ سے کھانا تناول فرما رہے ہیں تو اس پر آپ ؓ نے ان سے پوچھا کہ آپ دائیں ہاتھ سے کیوں نہیں کھاتے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا امیر المومنین میرا دایاں ہاتھ ایک جنگ میں کٹ گیا ہے تو اس پر حضرت عمرؓ رونے لگے اور اس معذور صحابی کیلئے بیت المال سے نہ صرف وظیفہ مقرر کیا بلکہ ان کی خدمت کیلئے ایک ملازم بھی کا بھی انتظام کیا اور آئندہ کیلئے آپ نے اس کو باقاعدہ ایک پروگرام کی شکل دیدی اور ریاست میں موجود تمام معذورین کیلئے ملازمین ،وطائف اور علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کیں۔اسی ضِمن میں ایک واقعہ حضرت معاز بن جبل ؓ کا بھی ہے جو مسجد میں امام تھے اور بہت طویل نماز پڑھایا کرتے تھے جس پر ایک شخص باجماعت نماز پڑھنا چھوڑ گیا اس کی اطلاع جب حضور ﷺ کو ملی تو آپ ﷺ حضرت معاز بن جبل سے سخت ناراض ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ وہ مختصر نماز پڑھایا کریں کیونکہ نمازیوں میں ضعیف ،کمزور اور معذور لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ان چند مثالوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ معذور افراد کے متعلق اسلام کی تعلیمات کس قدر روشن اور واضح ہیں جس میں نہ صرف معذور افراد کی عزتِ نفس کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے بلکہ ان کی معاشی و دیگر ضروریات کے پیش نظر ان کیلئے ماہانہ وظائف بھی مقرر کئے گئے اور حقیقت میں یہی ایک وہ ایسا منظم plan of action ہے جس پر عملدرآمد کر کے ہم دنیا میں معذور افراد کی نہ صرف بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کر سکتے ہیں بلکہ انہیں معاشرے کا ایک با عزت اور باوقار شہری بھی بنا سکتے ہیں ۔اور اسلامی جمہوری پاکستان کو اس سلسلے میں دیگر ممالک کیلئے فوری ایک roll modelکا کردار ادا کرتے ہوئے ان تعلیمات کو اپنانا چاہئے تا کہ ہم صحیح معنوں میں معذور دوست ملک کہلانے کے حقدار بن سکیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 91497 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.