نیٹ ورک مارکیٹنگ اسلامی نقطۂ نظر میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

معیشت کے نئے طریقوں میں ’نیٹ ورک مارکیٹنگ‘ بہت عام ہوتی جا رہی ہے۔ اِس تجارت میں ایک آدمی کمپنی کا رکن بنتا ہے، اور پھر یہ سب اپنے تحت بہت سارے لوگوں کو رکن بناتا ہے۔ بھر ہر رکن بھی اپنے تحت بہت سارے لوگوں کو رکن بناتے ہیں۔ اَس طرح سلسلہ وار ایک دوسرے سے ملی ہوئی تجارت کی یہ صورت ’جال‘ ہوتی ہے۔ اسی لئے اسے ’جال نما تجارت‘ یا ’نیٹ ورک مارکیٹنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس تجارت میں ہر رکن کی حیثیت و سطح دوسرے سے مختلف ہونے کی بنا پر اِس تجارت کا نام ’مختلف السطح تجارت‘ بھی رکھا گیا ہے۔ پہلے شامل ہونے والے رکن کی حیثیت ابتر اور زیادہ نفع بخش اور بعد والے رکن کی حیثیت و سطح اپنے سے پہلے والے کی نسبتاً کمتر اور کم نفع بخش ہوتی ہے۔ اس میں اہرام اسکیم (Pyramid Scheme) کے نظریہ کے مطابق کام ہوتا ہے یعنی پہلے ایک رکن ہوتا ہے پھر اس سے متصل ارکان بڑھتے اور پھیلتے چلے جاتے ہیں۔

اس طرح کی کمپنیوں کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے یہ اپنی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں فروخت نہیں کرتیں۔ جو شخص کمپنی کا رکن ہوتا ہے اسی کو کمپنی کی مصنوعات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد رکن سازی کے ذریعہ مال بٹورنا ہوتا ہے۔ اشیاء کی فروخت تو ایک حیلہ ہے۔ غیر رکن کو اگرچہ بعض کمپنیاں اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں مگر رعایت تو صرف رکن کو ہی ملتی ہے۔ کمپنی اپنے رکن خریدار کو اشیاء کے ساتھ یہ ترغیب بھی دیتی ہے کہ آپ اپنے تحت مزید رکن بنائیں۔ بعض اوقات مصنوعات خریدے بغیر بھی خواہش مند حضرات کو کمپنی میں شمولیت کی اجازت ہوتی ہے، اگر مقصد مصنوعات کی فروخت ہے تو ایسی اجازت کیوں؟ خریدار رکن جن لوگوں کو اپنے تحت رکن بناتا ہے اور کمپنی کے مصنوعات خریدنے پر آمادہ کرتا ہے، اس پر کمپنی اسے کمیشن دیتی ہے۔ یہ کمیشن اپنے تحت بنے رکن یا ارکان اور پھر اسکے تحت بنے تمام سلسلہ وار ارکان کی ہر خریداری کا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اپنے سے نیچے کے جتنے بھی رکن ہوں گے ان کی ہر خریداری پر کمیشن ملے گا۔ مثال کے طور پر، ’الف‘ نے دو ارکان بنائے پھر ان دونوں نے دو دو رکن بنائے پھر ان میں سے ہر ایک نے دو دو ارکان بنائے تو اس کا نقشہ مندرجہ ذیل ہوگا:
 
image

اس نقشہ سے معلوم ہوا کہ ہر مرحلہ میں رکن کی تعداد اس سے پہلے یا اوپر کے مرحلہ کے مقابلہ دوگنی ہوتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دسویں مرحلہ میں ارکان کی تعداد ایک ہزار چوبیس ہو جائے گی اور دس مرحلوں تک ارکان کی کل تعداد دو ہزار چھیالیس ہو جائے گی۔ اس طرح نیچے کے ارکان کی خریداری کا کمیشن اوپر والے کو ملتا رہے گا۔ کمپنی کی ماہانہ خریداری بڑھنے پر ارکان کو ملنے والا کمیشن بھی ضابطہ کے مطابق بڑھتا رہتا ہے۔ بعض کمپنیاں کمیشن میں اضافہ کی حد بھی متعین کرتی ہیں، البتہ غیر معمولی کارکردگی ظاہر ہونے اور خریداری کی ایک مخصوص اونچی سطح پہنچنے کی صورت میں کمپنی متعینہ کمیشن پر کچھ رقم اعزازی دیتی ہیں۔ کمیشن پانے کے لئے اپنے تحت مطلق رکن بنانا ہی کافی نہیں ہوتا۔ ارکان سازی کے لئے مخصوص تعداد کی شرط ہوتی ہے۔ مثلاً ارکان کی مجموعی تعداد کم از کم نو اس طرح ہونی چاہئے کہ ہر مرحلہ میں کم از کم تین ارکان ہوں۔

نیٹ ورک مارکیٹنگ کی کمپنیوں کے بارے میں عام نقطۂ نظر یہ ہے کہ مصنوعات کی تشہیر کے اخراجات بچا کر وہی رقم کمپنی رعایت اور کمیشن کے نام اپنے ارکان گاہکوں کو دیتی ہے۔ اس نظریہ کو بتانے کے بعد کمپنی کے ارکان یہ بتانا نہیں بھولتے کہ ’ٹھنڈے مشروب‘ یعنی ’کولڈ ڈرنک‘ اپنی فیکٹریز سے خوردہ بازار تک آنے میں اس پر ایک روپے صرف ہوتے ہیں جبکہ بازار میں اس کی قیمتِ فروخت کم از کم دس روپے ہیں۔ اس طرح کی بات بتا کر یہ لوگ بتانا چاہتے ہیں کہ دراصل ’ٹھنڈے مشروبات‘ کی قیمتِ فروخت دس گنا اس لئے ہو جاتی ہے کہ اس پر تشہیر کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔ مجھے اس مثال سے کوئی اختلاف نہیں کہ بازار میں فروخت ہونے والی اشیاء جس کی تشہیر کی جاتی ہے، اس کی قیمت میں بڑا حصہ تشہیری اخراجات کا شامل ہوتا ہے۔ اس مثال سے اتفاق کرنے کی بنا پر میں ’نیٹ ورک مارکیٹنگ‘ کے بانی و اس کے علمبرداروں سے جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی کمپنیوں کی مصنوعات کی قیمت بازاری بھاؤ سے دس گنا کم کیوں نہیں ہوتی ہیں؟

نیٹ ورک مارکیٹنگ کے نظامِ تجارت میں دوام و استمرار کی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کے ابتدائی مراحل میں تو ممکن ہے کہ آسانی سے کچھ رکن بن جائیں لیکن چند مرحلوں کے بعد رکن سازی دشوار ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی شہر میں کمپنی کے مختلف گاہک ارکان کے ذریعہ پہلے مرحلے میں نئے گاہک ارکان کی تعداد ۶۵۰۰ ہو جاتی ہے اور بعض کمپنیوں کے ضابطہ کے مطابق فی رکن اپنے تحت ۹ رکن بنانے ہوں تو صرف چوتھے مرحلے میں ارکان کی تعداد ۴۷۳۸۵۰۰ ہوگی اور کل رکن ۵۳۳۰۰۰۰ ہو جائیں گے۔ پانچویں مرحلہ میں ارکان کی تعداد ہوگی ۴۲۶۴۶۵۰۰ اور اس مرحلہ تک ارکان کی کل تعداد ہو جائے گی ۴۷۹۷۶۵۰۰۔ اتنی آبادی تو ہندوستان کے کسی بڑے شہر کی بھی نہیں ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس طرح کی کمپنیز کے پانچ یا چھ فی صد ارکان بہت منافع حاصل کرتے ہیں بقیہ چورانوے یا پچانوے فی صد ارکان امید میں رہ کر نقصان اٹھاتے ہیں۔

’skybiz.com‘ نامی اسی طرز کی کمپنی پر عائد دھوکہ دہی اور چال بازی کے الزام ثابت ہونے پر امریکہ کے اوکلاہوما اسٹیٹ کی ایک عدالت نے ۲۰۰۱ء اس کمپنی کی سرگرمیاں روک دینے، اور کمپنی کے کارکن و ایجنٹ حضرات کا سرمایہ اور اجرت انہیں واپس کئے جانے کی غرض سے اس کمپنی کے اثاثے منجمد کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی تفصیل ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ’وفاقی تجارتی کمیشن‘ کی ویب سائٹ https://www.ftc.gov سے حاصل کر سکتے ہیں۔ چین اور جاپان نے اس طرز کی تمام کمپنیوں پر ۱۹۹۸ء سے ہی پابندی لگا رکھی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ’سیکیورٹیز اینڈ اِکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ نے ۲۹ ستمبر ۲۰۰۳ء میں نیٹ ورک مارکیٹنگ میں سرمایہ کاروں کے لئے انتباہ جاری کرتے ہوئے اس تجارتی نظام کو غیر قانونی قرار دیا۔ ۲۸ اپریل ۲۰۰۴ء اور ۷ جولائی ۲۰۰۴ء کو اسی کمیشن نے عوامی انتباہ جاری کر کے لوگوں کو اس تجارت میں شرکت سے گریز کرنے کی تلقین کیا۔ کمیشن کی ویب سائٹ (https://www.secp.gov.pk) سے آپ تفصیلی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

نیٹ ورک مارکیٹنگ کو اسلام مسترد کرتا ہے۔ اسلام نے اپنے تجارتی اصول میں ملکی مصلحت کا خیال رکھا ہے۔ مصنوعی رکاوٹ ملکی مصلحت کے لئے نہایت ہی مضر ثابت ہوتی ہے۔ اس سے اشیاء کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے، تجارت کا مال تمام شہریوں تک پہنچنے کے بجائے چند لوگوں کے پاس ہی سمٹ کر رہ جاتا ہے۔نفع حاصل کرنے کے لئے شریعت میں جو اصول بتائے ہیں ان میں یا تو سرمایہ اور محنت دونوں ہوتی ہیں، جیسے بیع و شرا؛ یا صرف محنت ہوتی ہے اور سرمایہ دوسرے کا ہوتا ہے، جیسے مضاربت وغیرہ۔ ایسی کوئی صورت شرعاً جائز نہیں جس میں نہ محنت ہو اور نہ سرمایہ۔

نیٹ ورک ماکیٹنگ کی کمپنیاں لوگوں سے رکنیت کی فیس وصول کرتی ہیں، اور اپنی مصنوعات کی قیمت الگ سے لیتی ہیں۔ قانونی طور پر رکن کا کوئی رقمی مطالبہ نہیں رہ جاتا، گویا کمپنی میں رقم اور سرمایہ لگا ہی نہیں ہے۔ محنت کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ رکنیت سازی میں محنت کرنی پڑتی ہے اس طرح اسے کسی درجہ جائز کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اپنے تحت بنے ارکان کے ذریعہ اگلے مرحلے میں بنے ارکان کا کمیشن کس طرح جائز ہوگا؟ فقہ کا قاعدہ ہے إذَا اجْتَمَعَ الْحَلاَلُ وَالْحَرَامُ غُلِّبَ الْحَرَامُ یعنی جب حلال و حرام جمع ہو جائیں تو حرام کو غلبہ مانا جاتا ہے۔ نیٹ ورک کمپنیوں کی رکنیت کا مقصد کمپنی کا سامان خریدنا نہیں ہوتا بلکہ کمیشن اور نفع کمانا ہی ہمیشہ مد نظر رہتا ہے۔ فقہ کا قاعدہ ہے العِبْرَۃُ فِیْ الْعُقُوْدِ لِلْمَقَاصِدِ وَالْمَعَانِیْ لَا لِلْألْفَاظِ وَالْمَبَانِیْ یعنی معاملات میں مقاصد و معانی ہی کا اعتبار ہوتا ہے، الفاظ و عبارت کا نہیں۔ خرید و فروخت کو خالص رکھنا ضروری ہے۔ اگر خرید و فروخت کے ساتھ کسی اور معاملہ کا قصد ہو جائے تو بیع فاسد ہو جاتی ہے۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بظاہر تو سامان خریدا جاتا ہے، لیکن مقصد رکنیت سازی کے ذریعہ کمیشن کمانا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بھی تجارت کی یہ شکل نا جائز معلوم ہوتی ہے۔

ہندوستان و بیرون ملک کے علماء کرام و دارالافتاء نے نیٹ ورک مارکیٹنگ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے سولہویں سمینار منعقدہ دارالعلوم مہذب پور اعظم گڑھ میں علماء و مفتیان کرام کی ایک عظیم جماعت نے اتفاقِ رائے سے عدمِ جواز کی تجویز پاس فرمائی ہے۔ اس تجارت کے خلاف فتویٰ جاری کرنے والے ہندوستانی اداروں میں دارالعلوم (دیوبند)، مظاہر علوم (سہارن پور)، دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) اور امارت شرعیہ (پٹنہ) سر فہرست ہیں۔
Ansari Muhammad Sahib Alam
About the Author: Ansari Muhammad Sahib Alam Read More Articles by Ansari Muhammad Sahib Alam: 7 Articles with 13936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.