عربوں کی جان بخشی، اور فارس کی چاندی

ابن علی

عالم اسلام کے سونے والوں، آرام کا یہی وقت ہے!۔ ابھی اپنی بہت زمین پڑی ہے، تسلی رکھو؛ کافر بدبخت اس کو لیتے لیتے تھک جائیں گے!۔ یہ تو صرف میڈیا نے پردہ ڈال رکھا ہے، ورنہ عالم اسلام پورے کا پورا اس وقت ’فار سیل‘ ہے۔

اکیلا عالم اسلام اور پورے چالیس چور! چالیس، یا پھر چالیس ہزار، یا نہ جانے کتنے! زِیَادَۃ الْخَیْرِ خَیْرٌ! ویسے کبھی آپ نے پورے عالم اسلام کے وزیروں مشیروں کی تعداد گننے کی کوشش کی؟ مصیبت تو یہ ہے کہ آپ ایک ہی ملک کے وزیروں مشیروں کی تعداد دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں، آپ کبھی پورے عالم اسلام کو بھی دیکھا تو کریں!۔

آپ ہی بتائیں عالم اسلام کو کیا کبھی اتنے زیادہ حکمران نصیب ہوئے تھے جتنے آج ہمیں ملے ہوئے ہیں!؟ اور ہم ہیں کہ پھر بھی خوش نہیں! اللہ کے فضل سے پوری ایک فوج ہے! خدا نے ایک ایک منہ دیا ہے تو دو دو ہاتھ بھی تو ہیں!۔

ٹیکس دے دے کر پوری نہیں پڑتی تو دو دو چار چار ’بیگھے‘ زمین بیچتے رہیں! اسلاف نے اتنی زمین پیچھے چھوڑی ہے، کہاں ختم ہوتی ہے! اور ایسا سادہ اور آسان حل نکل آنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے! سودے دھڑا دھڑ ہو رہے ہیں تو اس میں نہ سمجھ آنے والی آخر کونسی بات ہے!؟ جس جس چیز کے پیسے ملیں، جس جس چیز کا گاہک لگے، اونے پونے بھی بکے، اس کو بیچنے کیلئے ایک نہیں کئی کئی وکالت نامے حاضر! چوری کے تھان، لاٹھیوں کے گز! موکل سویا ہوا اور وکیل چست....! عراق بیچ دیا گیا۔ سوڈان بیچا جا رہا ہے۔ مشرقی تیمور کو تو ہم نے اقوام متحدہ کی تالیوں کی گونج میں صلیبیوں کو نذر کیا جاتا دیکھا۔ صومالیہ کے سودے ہو رہے ہیں، کم از کم کوشش پوری ہے۔ یمن پر بارگیننگ جاری ہے۔ کشمیر کا سودا کوئی کہتا ہے ہو گیا، کوئی کہتا ہے ’پراسیس‘ میں ہے، کوئی کہتا ہے بنیا پیسے کم دیتا ہے، کوئی کہتا ہے بنیا پیسے دے ہی نہیں رہا کہتا ہے ’آزاد کشمیر‘ میں سے کاٹ لو اور باقی ماندہ دے کر جاؤ، کوئی کہتا ہے بنیا بے اعتبار ہے ’استصواب‘ گول کر گیا ہے تو ’پیسے‘ بھی دبا جائے گا، ورنہ سودے کیلئے ہم تو تیار ہیں۔ چیز وہ بیچو جس کے پیسے نقد ملیں، تھوڑے ملیں لیکن موقعہ پر ملیں!۔

فلسطین اور بیت المقدس تو ہم بیچ کر ہی بھولے ہوئے تھے، مگر خدا کا کرنا، اس کی رجسٹری ہونے سے پڑی رہ گئی تھی اور اِس وجہ سے معاملہ بیچ میں لٹکا رہ گیا! ”بیت المقدس“ کی تو زمین ہی اتنی مہنگی ہے اور ’گاہک‘ بھی ایسا شاندار ہے کہ اس کی تو ”رجسٹری“ بھی بے حد نقد آور ہو گی! پورا ایک ملک بیچ کر اتنے پیسے نہیں نکلیں گے جتنے بیت المقدس کا ایک مرلہ بیچ کر نکل آئیں گے۔ لہٰذا ایک نہایت شاندر سودا سمجھو ابھی پورے کا پورا پڑا ہے! ابھی ایک شور اور پڑے گا اور شاید یہ ”جھٹکا“ بھی کسی وقت ہو ہی جائے۔ ایک کڑوا گھونٹ، اور پھر ہر ہر مسلم ملک کے میڈیا مائیکروفونز اور اس کا رحمان ملک: ’فکر نہ کریں، معاملہ پوری طرح کنٹرول ہے‘! سر جی! آپ ہمارے سر پر ہیں تو ہمیں فکر ہے ہی کس بات کی، آپ دیکھ نہیں رہے ہم کس سکون سے سوتے ہیں، ہم تو حیران ہیں عالم اسلام آپ جیسوں کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو اسکا بنتا کیا....؟! ہم بے فکر اور بے حس ہوئے تو آپ جیسے ہمارے نصیب میں آئے!۔

ابھی پچھلے سالوں میں ہم نے خطۂ بلقان بیچا تھا؛ خلافت عثمانیہ کے کچھ اثاثے جو براعظم یورپ میں رہ گئے تھے اور ہماری آج کی ضرورت کے لحاظ سے زائد تھے! بوسنیا اور کوسووا بھلا ہماری کونسی ضرورت پوری کر رہے تھے؟!۔

چیچنیا بھی ہوتے ہوتے کہیں کنارے لگ ہی گیا۔ فلپائن بھی جاتا بنا۔ برما کے اراکانی مسلم بھی سمجھدار ہیں، صبر کر لیں گے۔ ویسے تو ہند بھی پورا دے کر ہی ہمیں یہ تھوڑا سا پاکستان ملا تھا! اور کاشغر اور مشرقی ترکستان کا تو سوال اٹھانا بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ تو واردات ہی بہت پرانی ہے!۔

یہ ارٹریا کا بھی بہت سنا کرتے تھے....! یہاں کے مسلمانوں کو بھی امید ہے سکون آ ہی گیا ہو گا! اوگاڈین کے مسلمانوں کو بھی ’حقائق‘ پڑھنا آ ہی گیا ہو گا۔

اور افغانستان تو اگر کہیں بک جائے تو اس کے اتنے پیسے ملیں گے کہ سب کے وارے نیارے ہو جائیں! ایک ایک مجاہد اتنا مہنگا بکتا ہے، تصور کریں اگر پورے ملک کا سودا ہو جائے!۔

عالم اسلام کا ایک بہت بڑا ملک ”عراق“ ابھی حال ہی میں بکا، کیا کسی کے کان پر جوں رینگی؟ یہ تک پوچھنے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی کہ ہمارا صدیوں کا خلافت کا یہ پایۂ تخت بیچا کس نے؟ یہاں کا کٹھ پتلی ٹولہ جو امریکی منصوبوں کی تکمیل کا ذریعہ بنا ہوا ہے، کیا رافضی نہیں ہے؟ کیا عین یہی ٹولہ سقوطِ بغداد سے لے کر آج تک حکمران چلا نہیں آ رہا؟ ایران کے ’اسلامی انقلاب‘ کے ساتھ کیا اس کی گاڑھی نہیں چھن رہی؟ کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ رافضی اِس ہزار سالہ پیش رفت پر پھولے نہیں سما رہے؟ وہ کام جو آل بویہ نہیں کر سکے وہ آخر ان کو تاتاریوں نے کر کے دیا تھا اور یا پھر آج جا کر امریکیوں نے کر کے دیا۔ آلِ برمک اپنے زورِ بازو سے کیا کبھی بغداد لے سکتے تھے؟! منصورؒ اور رشیدؒ کا پایۂ تخت ہلاکو کے بعد دوسری بار صفویوں کے پاس، ’شیطانِ بزرگ‘ کا کوئی فائدہ تو ہوا!۔

عربوں کی جان بخشی کر دی جائے، آل سعود کا تخت محفوظ رہے، تو بس یہی آپ اپنی ذات میں اتنی بڑی پیشرفت ہے کہ اِس کے عوض میں سب کچھ دیا جا سکتا ہے! عراق امریکیوں کے پاس جائے یا صفویوں کے پاس، اپنا اقتدار تو محفوظ ہے! چنانچہ عربوں کیلئے تو جان بخشی کے عوض ہر چیز غنیمت ہے! ہر سودا منظور ہے، کیا کوئی ’نامنظور‘ چیز بھی خدا کی اِس دنیا میں پائی گئی ہے!؟۔

البتہ فارس اپنا مول جانتا ہے، تھوڑے بہت پر قانع ہونا بے وقوفی ہے، ایک ’عراق‘ ہی کیا، اس سے آگے جہاں اور بھی ہیں! شیطانِ بزرگ کی ضرورتیں ابھی ختم کب ہوئی ہیں، جزیرۂ عرب میں، یا خطۂ خراسان کے اندر، یا بحر عرب میں؟! عالم اسلام کے سوئے ہوئے کیا جاگ تھوڑی جائیں گے؟ سبھی اسلام پسند طبقے یہی تو پوچھتے رہیں گے ’یہ تم لوگوں نے ’رافضی رافضی‘ کی رٹ کیوں لگا رکھی ہے، عالم اسلام کے اس اکلوتے ’اسلامی انقلاب‘ کے خلاف امریکی ایجنڈا کو کامیاب کروانے کے کیوں درپے ہو‘!۔

ابھی عراق بیچ کر نہیں ہٹے تھے کہ سوڈان کی باری ہے۔ عراق کی بار جن پیروں میں جان نہیں رہی تھی، سوڈان کی بار ان میں جان کیونکر عود کر آتی؟ وہی ’جان بخشی‘ سوڈان کے عوض میں بھی کافی ہے! بلکہ ہر چیز کے عوض میں کافی ہے!۔

ایک عراق تھا جو مغرب کو کچھ آنکھیں دکھانے لگا تھا، سو اس کا حشر ہم نے دیکھ لیا۔ ایک سوڈان تھا جو ذرا آنکھوں میں کھٹکنے لگ گیا تھا، سو اس کے حصے بخرے ہونا شروع ہو گئے، باقیوں کو کان ہوں....!!!۔

اور تاکہ براعظم افریقہ میں، جو کہ دنیا کا واحد بر اعظم ہے جس کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، اسلام کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے مدمقابل کارکنانِ صلیب کے حوصلے بلند ہوں....! جمی کارٹر پچھلے پندرہ سال سے وہاں یونہی تو نہیں بیٹھا ہوا!۔

سوڈان.. عالم اسلام کا بلحاظ رقبہ سب سے بڑا ملک.... جس کو صلیبی اپنی قینچی لے کر کاٹ رہا ہے۔ لوگوں! دیکھو کیک کاٹا جا رہا ہے، صلیب کی فتح کا کیک....! براعظم افریقہ میں جہاں ہلال اور صلیب کی جنگ گویا تاریخ کے آخری ترین موڑ میں داخل ہو چکی تھی۔ امت محمد کے سینے میں ایک اور خنجر۔ کیا کوئی ہے جو چیخے؟ کچھ نہ کرے، صرف چیخ ہی لے؟ اَما حمزۃ فلا بواکی لہ! حمزۃؓ کو تو رونے والیاں تک دستیاب نہیں!خدایا! خلافت نہیں رہی، مان لیا؛ یہاں تو کوئی رونے والا تک نظر نہیں آ رہا۔ کیا یہاں کوئی محمد علی جوہرؒ نہیں جو خلافت کا حتمی انجام جانتے ہوئے بھی مسلمانوں کو رلانے میں تو کامیاب ہو ہی گیا تھا؟ جو ایک مقبوضہ نہتے ہندوستان میں لوگوں کو گھروں سے تو نکال لایا تھا۔ لوگو! مسلمان روئے تو تھے!۔

جسے دیکھنا ہو دیکھ لے، عالم اسلام کے بوسیدہ نقشے پر صلیب کی قینچی پورے زور سے چل رہی ہے۔ ہر چند ماہ بعد ہمیں کوئی نیا ’پرخچہ‘ مل جاتا ہے!۔

Ayesha Afzal
About the Author: Ayesha Afzal Read More Articles by Ayesha Afzal: 3 Articles with 3698 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.