استعماریت اور اس کے ہتھکنڈے

گزشتہ چار سو سالوں سے دنیا كی تمام مصیبتوں كی جڑ مغر بی استعماریت رہی ہے۔مغربی استعماری عزائم نے پہلے تو یورپ میں ہی قتل و خون كا بازار گرم كیا اور پھر افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریكہ كو اپنے بے جا كنٹرول اور استحصال كا نشانہ بنایا ۔اُس كی سب سے خوف ناك شكل دو عالمی جنگیں رہی ہیں۔دوسری عالمی جنگ كی تباہی اور بربادی كے بعد جو عالمی سیاسی اور معاشی نظام وجود میں آیا اس میں استعماری طاقتوں كا زبردست تسلط دیكھنے میں آتا ہے۔اس جنگ كے بعد جو سب سے اہم بات سامنے آئی وہ استعماری طاقتوں كا اتحاد اور نا برابری پر قائم عالمی نظام كو مستحكم كرنے كی ان طاقتوں كی مسلسل كوشش ہے۔ اِسی كوشش كے تحت اقوامِ متحدہ ، WTO اور NATO جیسے ادارے بھی مستحكم ہوئے۔ دراصل یہ تمام ادارے مغربی استعماری عزائم كی تكمیل اور غریب و كمزور ممالك كو پابہ زنجیر كرنے میں اہم رول ادا كرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ادارے استعماری مظالم و بربریت كو بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں كا خوبصورت خول بھی فراہم كرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے كہ اپنے قیام سے لے كر آج تك ان اداروں نے تیسری دنیا كے ممالك میں كوئی اہم اور مثبت سیاسی كردار ادا نہیں كیا ہے۔فلسطین، ہندوستان، پاكستان ، عراق، ایران الجزائر، تركی، چیچینیا،افغانستان وغیرہ كے مسائل ان اداروں كے كھوكھلے دعوؤں كی قلعی كھول دیتے ہیں۔ ان تمام اداروں كو آج كے استعماری نظام سے علیحدہ كر كے دیكھنا غلط ہوگا۔ شاید اِسی لیے یہ تمام ادارے امریكی-برطانوی استعماری اتحاد كی زیادتیوں اور سازشوں كو نہ صرف خاموش تماشائی كی حیثیت سے دیكھ رہے ہیں بلكہ اُن كی معاونت بھی كر رہے ہیں۔

تقسیم كرو اور حكومت كرو٬ گزشتہ چار سو سالوں سے مغربی استعماریت كا اہم ہتھكنڈہ رہا ہے۔اِسی حكمتِ عملی اور پالیسی پر چل كر برطانیہ ، فرانس وغیرہ نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریكہ پر اپنا بے جا كنٹرول برسوں تك قائم ركھا۔ موجودہ دور كا سب سے طاقت ور استعماری اتحاد ﴿امریكہ-برطانیہ اتحاد﴾ آج پھر سے اسی حكمتِ عملی كو زیادہ عیاری و مكاری كے ساتھ اپناتا نظر آرہا ہے۔یوں تو مغربی اتحادیوں نے پہلی جنگِ عظیم كے بعد ہی مسلم دنیا میں انتشار اور بدامنی پھیلا كر اسے قابلِ رحم بنا دیا تھا لیكن سویت یونین كے زوال كے بعد اسلام كو ایك مشتركہ خطرہ مان كر یہ طاقتیں اس كے خلاف زبردست سازشوں پر اتر آئی ہیں۔ عراق ، افغانستان اور صومالیہ وغیرہ پر فوج كشی اور ایران كے خلاف سازش اُسی حكمت عملی كا نتیجہ ہے ۔

مغربی استعماریت كی تقسیم اور حكومت كرو كی حكمتِ عملی سب سے زیادہ عراق میں كامیاب نظر آتی ہے۔1991 كی ناكام مہم كے بعد امریكی۔برطانوی اتحاد نے عوامی تباہی كے ہتھیار كا جھوٹا بہانہ بناكر عراق پر دوبارہ فوج كشی كی۔ بظاہر تو یہ فوج كشی صدام حُسین كے خلاف نظر آتی تھی لیكن اس كا حقیقی مقصد كچھ اور تھا۔صدام حُسین كے خاتمے كے بعد یہ مقصد اب اہلِ نقدو نظر پہ ظاہر بھی ہونے لگا ہے۔ صدام كی پھانسی سے لے كر آج تك كے عراق كے حالات كا جائزہ لیاجائے تو استعماری ہتھكنڈے اور عزائم پوری طرح بے نقاب ہوجاتے ہیں۔

صدام حُسین كو پھانسی یا سزا اور بہت سارے معاملات میں دی جاسكتی تھی لیكن بطور خاص شیعوں كے قتلِ عام كو ہی مقدمے كا ایشو بنایا گیا۔آخر كردوں كے خلاف صدام حُسین كی زیادتیوں كو كیوں قابلِ سزا نہیں سمجھا گیا۔حالانكہ امریكہ اور اُس كے حلیف یہ الزام لگاتے رہے ہیں كہ صدام نے كردوں كے خلاف كیمیائی ہتھیار كا ستعمال كیا تھا جو اپنے آپ میں ایك سنگین جرم ہے اور اس كی سزا نہ صرف عراق كے قوانین كی روشنی میں ہوسكتی تھی بلكہ بین الاقوامی قوانین كی روسے صدام سزا كا مرتكب ہوتا۔لہٰذا سب سے اہم سوال یہ ہے كہ آخر شیعوں كے قتلِ عام كو ہی كیوں قابلِ سزا سمجھا گیا۔اس سے امریكہ نواز عراق كی كٹھ پتلی حكومت كیا مقاصد حاصل كرنا چاہتی تھی۔اور امریكہ اس سے كیا Longtermفائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

امریكہ ایران كو اسلامی دنیا میں اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔اسرائیل جو كہ امریكہ كے Satelight stateكی حیثیت ركھتا ہے، اس خطے میں ایران كی روزافزوں ترقی سے بہت زیادہ خوف كا شكار ہے۔لہٰذا صیہونی اور استعماری طاقتیں ایران كو افغانستان اور عراق كی طرح تباہ كرنا چاہتی ہیں۔شاید امریكہ اور اسرائیل ایران پر حملے كی تیاری بھی كر چكے ہیں۔ لیكن اس سے قبل ایران كو مسلم دنیا بطور خاص سنی ممالك اور حكومتوں سے دور كر كے Isolateكرنا چاہتے ہیں،صدام حُسین كی پھانسی، پھر اُس كا بھیانك منظر ٹیلی ویژن پر دكھانا،اس كے فوراً بعد خفیہ كیمرے سے لی ہوئی تصویر انٹرنیٹ اور مختلف ذرائع ابلاغ كے ذریعہ دنیا تك پہنچانا،اس وقت خصوصی طور پر الصدر زندہ باد كا نعرہ لگانا،صدام كی پھانسی كے وقت فقرے كسنا،اور پھر صدام كا خط جاری كرنا جس میں امریكہ كے ساتھ ایران كو بھی برابر كا دشمن بتایا گیا ہے۔یہ سب ایسی باتیں ہیں جو شیعہ سنی منافرت پھیلانے كے لئے بہت ہی سوچی سمجھی سازش كے تحت اپنائی گئی ہیں۔اگر امریكہ اور اُس كی مقرر كردہ حكومت صدام كو كردوں پر زیادتیوں كے لئے سزا دیتی تو اُس سے امریكہ اور اسرائیل وہ سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سكتے تھے جو انہوں نے اب حاصل كیا ہے۔صدام كی پھانسی سے شیعوں اور سنیوں كے درمیان ایك زبردست نفرت پیدا ہوگئی ہے جس كا بہت ہی بھیانك اثر
پڑسكتا ہے۔

اگر شیعہ سنی اتحاد قائم رہتا تو عراق میں بھی امریكہ اور اُس كے حلیفوں كو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔اس لیے عراق كی پوری قومی انر جی كو انہوں نے مسلكی فساد كے ذریعہ تقسیم كر دیا ہے۔ لہٰذا وہ مزاحمت كار جو امریكہ كے خلاف برسرِپیكار ہوتے آپس میں دست و گریباں ہیں۔ اس طرح امریكہ اپنی استعماری غنڈہ گردی قائم ركھنے میں بہت حد تك كامیاب نظر آرہا ہے۔

ایران كے خلاف ان كا پروپگینڈہ جاری ہے۔اسرائیل فوجی مشق بھی كر چكا ہے اور قیاس كیا جا تا ہے كہ ایران كے نیوكلیائی تنصیبات كو نشانہ بنانے كی كوشش كی جائے گی۔ استعماری ہتھكنڈوں كو سامنے ركھتے ہوئے یہ كہا جاسكتا ہے كہ یا تو ایران پر حملہ كیا جائے گا یا پھر اسامہ بن لادن جو غالباً پہلے ہی گرفتار ہو چكا ہے یا پھر امریكی حملے میں جاں بحق ہوچكا ہے سے متعلق كوئی اہم خبر عام كی جائے گی۔

ایسے وقت میں یہ ضروری ہے كہ استعماری ہتھكنڈوں كو سمجھا جائے اوربین الاقوامی یا مقامی سطح پر ہوا نہ دی جائے۔
Irfan Ahmad
About the Author: Irfan Ahmad Read More Articles by Irfan Ahmad: 7 Articles with 14210 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.