آف یہ عورتیں

اگر معاشرے خصوصا مردوں کی سوچ اگر پاکیزہ ہوگی تو وہ عورت کے مقام و مرتبہ کو سمجھیں گے اور انکے دلوں میں انکا احترام ہوگا تو وہ کبھی کسی کو ہراساں اور پریشان نہیں کریں گے ۔

اکبر آلہ آبادی نے کیا خوب کہا

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

چند دن قبل خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ہمارے یہاں بھی چند خواتین نے اس دن کو منانے کا اہتمام کیا ورنہ اکثریت خواتین کی اس سے قطعی لاعلم ہے کہ یہ دن کس چڑیا کا نام ہے۔
عورتوں کا دن منانے والی مخصوص N GOs سے وابستہ خواتین نے بڑے مضحکہ خیر اندار میں یہ دن منایا۔ان کے رنگ ڈھنگ ہی بڑے نرالے تھے۔چند پلے کارڈز اٹھا کر یہ عورت کی آزادی کی خواہاں تھیں ۔
ایک محترمہ نے پوسٹر اٹھایا تھا کہ میں آوارہ ہوں۔اس کو پڑھکر یوں لگا کہ انکی ضمیر کی خلش نے مجبور کیا ہو کہ سرعام اعتراف گناہ کرلیں۔
ایک نے پوسٹر پر لکھا تھا کہ مجھے دوپٹہ نہیں پہننا اسے مردوں کی آنکھوں پر باندھ دو۔
لیجئے کتنی بچکانہ خواہش کااظہار کیا ہے ۔دوپٹہ کا تعلق تہذیب وتمدن سے ہے اگر آپ تہذیب و تمدن سے منحرف ہیں تو بے شک نہ پہ پہنیں۔
آپ کا جو دل چاہے وہ پہنیں ۔
جی چاہے تو درختوں پر ٹارزن کی طرح چھلانگیں لگاتی پھریں مگر اس کے لیے چستی و پھرتی کی ضرورت ہوتی ہے ۔اپنا وزن کم کریں ۔
بھاری بھرکم وزن کی صورت میں درختوں کی شاخوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے ۔
درختوں پر جھولتی شاخوں پر ادھر سے ادھر لہراتی ہوئی یہ دوشیزائیں یقینا پاکستان کا سافٹ امیج پیش کریں گی۔

ویسے بھی دوپٹہ تو اب قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے خصوصا میڈیا پر تو بالکل بھی نظر نہیں آتا ۔معاشرتی رویوں میں تبدیلی اسقدر غیر محسوس طور پر لائی جاتی ہے کہ لوگ لا شعوری طور انکے اسقدر عادی ہوجاتے ہیں کہ برائی پھر برائی نہیں لگتی ۔اکثر مذہبی لوگ ڈرامہ وغیرہ تو نہیں دیکھتے مگر وہ خبریں ضرور سننا پسند کرتے ہیں اور جب نیوز کاسٹرز اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ انکو خبریں سناتی ہیں تو وہ اس میں اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ خبریں ختم ہوجاتی ہیں مگر تشنگی برقرار رہتی ہے۔
لہذا دوپٹہ کو مسئلہ نہ بنائیں یہ معاملہ تو تقریبا پہلے ہی نمٹ چکا ہے۔ مگر یہ جو آپ اس کو مردوں کی آنکھوں پر باندھنے کی آرزومند ہیں اس سے انکی شخصی آزادی سلب ہونے کا امکان ہے۔
تفنن برطرف اگر ان خواتین کے طرز عمل اور مطالبات کا تجزیہ کیا جاے تو معلوم ہوگا کہ یہ مسئلہ عورتوں کے حقوق کا ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ مردم بیزار خواتین اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے فرار اور سماجی بندھنوں سے آزادی کی خواہشمند تھیں ۔یہ فیملی سسٹم سے باغی نظر آئیں ۔مرد و زن دو اکائیوں کی صورت مل کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں مگر یہ خواتین نہ ہی شوہر کی آرزومند ہیں نہ بچوں کی متمنی ۔
یہ ایک خطرناک رجہان کا پیش خیمہ دکھائی دیتا ہے ۔جلد ہی بلی تھیلے سے باہر نکل کر آجائے گی۔

حقوق نسواں اور لبرل ازم کے حوالے سے شہرت رکھنے والی نامی گرامی خواتین بھی اس نئی روش کو اپنے کاز کیلیے سیاہ داغ تصور کررہی ہیں۔
اگر آپ واقعی عورتوں سے ہمدردی رکھتی ہیں اور انکے بنیادی حقوق کے حصول کی خواہاں ہیں تو اپنی ذات سے بڑھ کر سوچیں ۔
آپ دوپٹہ پہنیں یا نہیں ۔جینز پہنیں یا شلوار کرتا ۔
اس سے ہماری خواتین کے سماجی اور معاشرتی مسائل کم نہیں ہوں گے۔
اگر لباس اور بود و باش کی آزادی ہی عورت کے حقوق کی معراج ہے تو اج ہی Thomas writers foundation کا ایک سروے سامنے آیا ہے کہ بھارت دنیا میں عورتوں کے ساتھ بدترین تشدد اور ہراسگی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر جبکہ امریکہ اس فہرست میں دسویں نمبر پر فائز ملک ہے ۔ امریکہ کہ جہاں کی فلم اور فیشن انڈسٹری اپنے نت نئے فیشن کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ آرائش و زیبائش میں ہالی ووڈ کی ہیروئینز دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔
ہوسکتا ہے کسی دور میں یہاں کی عورتوں نے بھی اسی قسم کی آزادی کی خواہش کا اظہار کیا ہو جیسے کہ ہمارے یہاں چند خواتین نے پچھلے دنوں کیا ۔انہوں نے سماجی پابندیوں سے آزادی تو حاصل کرلی مگر حقوق کیلیے اب تک سرگرداں ہیں ۔
۔
ہماری خواتین کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اللہ تعالی نے مردوں عورت کو مساوی حقوق ضرور عطا کیے ہیں مگر دونوں کا دائرہ کار مختلف ہے۔یہ نظام شمسی کے دو ایسے ستارے ہیں جوکہ اپنے اپنے محور میں گردش کررہے ہیں ۔اگر کوئی ایک ذرا بھی اپنی مدار سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو سارا نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا اور اسکے اثرات تباہ کن ہوں گے۔
مرد گھر سے باہر حصول روزگار کیلیے سرگرم عمل رہتا ہے عورت گھر کے اندر مصروف کار۔
ہونا تو یہ چاہیےتھا کہ اس عالمی دن کے موقع سے فائدہ اٹھایا جاتا اور دین اسلام اور آئین پاکستان نے جو حقوق خواتین کو فراہم کیے ہیں ان سے شعور و آگاہی فراہم کی جاتی ۔وہ حقوق جن سے اکثریت ابھی تک لاعلم ہے یا دانستہ اسے غافل رکھا گیا ہے۔
عوام کو احساس دلایا جاتا کہ عورت کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ بحیثیت ماں اگر وہ اپنی اولاد سے راضی ہوجائے تو جنت انکا مقدر بن جائے گی۔

ان کو احساس دلایا جاتا کہ بیٹاں اللہ کی رحمت ہیں ۔ان کو بوجھ نہ سمجھیں بلکہ ان سے محبت اور الفت کا سلوک کریں
۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باپ کیلیے جنت کی بشارت دی ہے کہ جس نے دو بیٹیوں کئ اچھی پرورش کی اور انکی شادی کا انتظام کیا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے :
" جو شخص اپنی دو بیٹیوں( یا بہنوں) کو تربیت دے کر انکی شادی کردے ،اسلامی تربیت پر اللہ رب العزت ان بیٹیوں (بہنوں)کو اس کیلئے جہنم کی راہ میں دیوار بنادیگا ۔"(مسلم، ترمذی)۔

عوام کو شعور دلایا جاتا کہ تعلیم لڑکی کا زیور ہے۔لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم و تربیت کے یکساں مواقع فراہم کیے جایئں۔
مطالبہ کیا جاتا کہ لڑکیوں کو کھیلوں کی مردوں کے مساوی سہولتیں فراہم کی جائیں ۔کھیلوں کے میدان ہوں جمنیزیم ہو ں۔جہاں وہ کھیلیں کودیں بھرپور توانائی حاصل کریں۔آپ یورپ آسٹریلیا اور ایران میں ہی دیکھ لیں کس طرح لڑکیاں اسپورٹس میں حصہ لیتی ہیں ۔بہترین فٹنس رکھتی ہیں ۔ بہترین ذہنی و جسمانی نشونما کی وجہ سے وہ معاشرے میں فعال کردار اور خوشگوار زندگی بسر کرتی ہیں ۔
اس عالمی دن کے موقع پر والدین کو احساس دلایا جاتا کہ کم عمری کی شادی ہے اب ناسمجھی کی بات ۔کم عمری کی شادی سے بچیاں ذہنی و جسمانی دباو کا شکار ہوجاتی ہیں۔بچوں کی پیدائش کے دوران مائیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔اس کے علاوہ بھی بے شمار طبی مسائل عمر بھر کا روگ بن جاتے ہیں ۔پاکستان میں infant mortality کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
شعور اور آگاہی پیدا کی جاتی اس حق کیلیے لڑنے کی جو دین اسلام نے سب سے پہلے عورت کو دیا ۔
وہ حق ہے وراثت کا حق ۔
یہ وہ حق کہ جسے معاشرہ سب سے زیادہ بھلائے بیٹھا ہے۔خواتین کو شریعت نے وراثت کا حقدار بنایا یے۔
بہت کم گھرانے ایسے ہی جو شریعت مطھرہ کے تحت لڑکیوں کو باپ اور شوہر کی جائیداد سےحصہ دیتے ہیں ۔

خواتین کو چاہیے تھا کہ کہتیں کہ آج سے ہم ا نکار کرتے ہیں ایسے رشتوں سے جن کا مطمع نظر جہیز ہو۔ ۔ہمارا اصل زیور تو ہماری تعلیم و تربیت اور اعلی محاسن ہیں ۔

ببانگ دہل کہتیں کہ لوٹا دیں گی ہم واپس ایسی باراتوں کو جن سے لڑکی اور اس کے گھر والوں کا استحصال ہوتا ہو۔ اس پر ستم دور میں ہزاروں مہمانوں کا زبردستی کا بوجھ لڑکی والوں پرڈال دیا جاتایے۔
بلاشبہ ہمارے دین میں تو بارات کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
نکاح مسجد میں اور ولیمہ لڑکے والوں کے ذمہ ہے پھر یہ زبردستی کا اضافی بوجھ کیوں اٹھائیں ۔
ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہمارے یہاں جب خواتین گھر سے باہر نکلیں تو انھیں مکمل تحفظ کا احساس ہو۔
کوئی چھبتی ہوئی نگاہیں انکے تعاقب میں نہ ہوں ۔
کوئی رکیک جملے سننے کو نہ ملیں ۔
دوران سفر یا دوران ملازمت کوئی ان کو ہراساں نہ کرے۔اس کیلیے مکمل قانون سازی ہونی چاہیے ۔مگر یہاں ہمیں زرا ٹھرنا پڑے گا ۔
کیا قانون سازی اس سنگین مسئلہ کا حل ہے۔شاید جزوی طور پر ہو مگر کلی طور پر اس کا ایک ہی حل ہے۔اور وہ ہے سوچ کی تبدیلی ۔اگر معاشرے خصوصا مردوں کی سوچ اگر پاکیزہ ہوگی وہ عورت کے مقام و مرتبہ کو سمجھیں گے اور انکے دلوں میں انکا احترام ہوگا تو وہ کبھی کسی کو ہراساں اور پریشان نہیں کریں گے ۔
انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔
اگر مائیں اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں اور اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں انکی کردار سازی اور شخصیت سازی پر مرکوز کر دیں تو معاشرے میں ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔
جب لوگوں میں شعور و آگاہی ہوگی دلوں میں خوف خدا ہوگا تو کوئی نہ کسی کے حقوق سلب کرے گا اور نہ ہی کسی کو اپنے حق کے حصول کیلیے باہر نکل کر مظاہرے کرنے پڑیں گے۔

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50390 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.