ہمیں کانچ اُٹھانے پڑ گئے تھے

ہم نے اپنی پوری زندگی میں کُل دو بار استخارہ کیا ہے اور عجیب بات ہے کہ دونوں بار ایک ہی مسئلے کے لئے کیا ۔ زندگی ایک دوراہے پر آن کھڑی ہوئی تھی کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کریں کیا نہ کریں کیا خود کشی کر لیں؟ مگر اللہ نے ہدایت دی اور ہم نے نمازِ استخارہ پڑھی ۔ یہ اب سے تقریباً تیئیس برس قبل کی بات ہے ، رات کو خواب میں نظر آیا کہ ہم کسی پارک وغیرہ میں بینچ پر بیٹھے ہیں اور ہمارے سامنے ہی نیچے گھاس پر بہت سارے کینوس کے سیاہ و سفید چھوٹے بڑے جوتوں کا ڈھیر پڑا ہے ۔ ہم نے بیٹھے بیٹھے ہی جھک کر سیدھے ہاتھ کی دو انگلیوں سے انہیں پکڑ پکڑ کر ان کے رنگ اور سائز کے مطابق انہیں ترتیب سے رکھنا شروع کیا ۔ اور جوتوں کا ایک بےہنگم ڈھیر ایک منظم قطار میں تبدیل ہو گیا ۔

ایک صاحب علم سے اپنے اس خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے تعبیر یوں بیان کی کہ جو بھی مسئلہ ہے اس کا حل آپ کے ہاتھ میں ہے وہی کریں جو آپ کا دل کہتا ہے ۔ پھر ہم نے وہی کیا جو ہمارا دل کہتا تھا ۔ انا کی دُہائی پر کان نہ دھرے ۔

پھر اب سے نو سال پہلے ہمیں ایکبار پھر اسی ذہنی بحران کا سامنا کر پڑ گیا ہم بہت رنج و یاس کی کیفیت میں مبتلا تھے دل چاہ رہا تھا کہ خود کو ختم کر لیں ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دل کی سنیں یا دماغ کی؟ اور اچانک ہی گویا اندھیرے میں روشنی کی کرن سی چمکی اور پورے چودہ برس بعد ہم نے زندگی میں دوسری بار استخارہ کیا ۔

نماز کے بعد جس دعا کو دل ہی دل میں دوہراتے ہوئے سو جانا تھا اُس کے دوران ہمیں نیند تو نہیں آئی مگر ایک غنودگی کی سی کیفیت طاری ہو گئی ۔ ہم بڑی حد تک ہوش میں ہی تھے کہ اب چاہے وہ خواب ہی تھا یا کچھ اور؟ مگر دیکھا یہ کہ کچھ عرصہ قبل وفات پا جانے والی ہماری امی ہم سے کہہ رہی تھیں " بیٹے! صبر کرو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے " اور آنکھوں کے سامنے کوئی طغرہ یا کیلینڈر سا آ گیا جس پر بہت خوبصورت آرائشی خطاطی میں سیاہ پس منظر پر سفید روشنائی سے لکھا ہؤا تھا " اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِینَ° " اور اس کے ساتھ ہی ہماری آنکھ کھل گئی ۔ اب کے سے ہم نے امی کے کہنے کے مطابق صبر کیا اور واقعی میں اللہ نے ہمارا ساتھ دیا ۔

باوجود غربت اور تنگدستی کے ہماری جنون کی حد تک سگھڑ اور سلیقہ مند ماں نے ہمیں ایک سے ایک پہنایا اوڑھایا ، کھلایا پلایا پورے خاندان کی مخالفت مول لے کر ہمیں اچھی تعلیم دلائی ۔ سندھ کے ایک دور افتادہ پسماندہ علاقے میں ہمارے لکھنے لکھانے کے شوق میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑنے دی ، جاب کی بھی اجازت ملی ۔ زندگی رواں دواں تھی کہ خزاں نے آ لیا ۔ اس نئے موسم میں ہمیں بہت دکھ بہت آنسو ملے ۔ سینے میں دل کی جگہ کوئلہ رہ گیا ۔ آج بھی پلٹ کر دیکھو تو لگتا ہے کہ کوئی بھیانک خواب دیکھا تھا شاید اس وجہ سے کہ تب کوئی استخارہ نہیں کیا تھا ۔

جب کاغذ اور قلم کا زمانہ تھا تو صفحے کے صفحے سیاہ کر دیتے تھے ہم ۔ اب تو یہ جھنجھٹ تقریباً ختم ہی ہو کر رہ گیا ہے ۔ ایک طلسمی تختہ ہوتا ہے جس پر انگلیاں رقص کرتی ہیں تو سامنے نقرئی تختے پر جیسے ستارے سے جلنے بجھنے لگتے ہیں ۔ سب تاروں کا کھیل ہے مگر جب دل کے تاروں کو زنگ لگ جاتا ہے تو وہ بجنا بھول جاتے ہیں ۔ پھر کچھ لکھنا بھی اتنا آسان نہیں ہوتا ۔
کوئی نہیں جانتا کہ ہماری انگلیاں ہیں فگار بہت (رعنا تبسم پاشا)

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1687680 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.