قرآن کی پکار ----- آؤ فلاح کی طرف

تخلیق کائنات کے ابتدائی مرحلے سے لے کر انسان کی پیدائش تک، اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان میں جو کچھ پیدا کیا، وہ انسان کی فلاح وبہبود اور نفع رسانی کے لئے پیدا کیا، پھر انسان کو بے شمار ظاہری اور باطنی ، جسمانی و روحانی نعمتیں عطا کیں۔ لیکن ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا انعام واکرام، رشد وہدایت کا وہ نظام ہے جو رسُولوں کی بعثت اور آسمانی صحیفوں کے ذریعے قائم کیا، کیوں کہ اگر پیغمبروں اور آسمانی صحیفوں کے ذریعے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کا انتظام نہ کیا جاتا تو یہی انسان جو آج اشرف المخلوقات کہلاتا ہے، حیوانوں سے بھی بدتر اور گم کردہ راہ ہوتا۔ چنانچہ جن لوگوں نے خدا کے پیغام کو سننے سے انکار کیا، اُس کے رسُولوں کی دعوت سے منہ موڑا اور اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت سے رُو گردانی کی، قرآن ان کو جانوروں اور چوپایوں سے بھی برتر قرار دیتا ہے:
اولئک کا لانعام بل ھم اضل﴿ (الاعراف: ۹۷۱)”یہ لوگ( منکرین ہدایت )چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی بدتر۔“

جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ ختم کرے، کائنات کی رہ نمائی اور فلاح وسعادت کے لئے ایک ایسا صحیفہ نازل کرے جو رہتی دنیا تک رشد وہدایت کا فرض انجام دیتا رہے، جو ابد تک کے لئے روشنی کا مینار ہو، جس سے آنے والی قومیں رہ نمائی حاصل کرتی رہیں، جس کا پیغام اور جس کی رہنمائی قوم، وطن، جغرافیہ، حتیٰ کہ زمان و مکان کی قیود سے ماورا ہو، تو اس نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر دین و دنیا کی فلاح وسعادت اور رشد وہدایت کا ایک جامع اور کامل ترین دستور نازل کیا، جس طرح اللہ تعالیٰ نے جناب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء کے علمی اور عملی کمالات، اور فضائل و محاسن کا مجموعہ بنایا اور کمالات نبوت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ختم کر کے ” خاتم الانبیا“ کے منصب پر فائز کیا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے اس دستورِ ہدایت اور آئین فلاح وسعادت کو تمام پچھلی آسمانی کتابوں، اور الٰہی علوم ومعارف کا خلاصہ، لُبِّ لباب، اور گنج گراں مایہ بنایا:
ان ھذا القران یھدی للتی ھی اقوم﴿ (بنی اسرائیل: ۹)”بلاشبہ یہ قرآن سب سے سیدھے راستے کی نشان دہی کرتا ہے“

نبی کریم علیہ السلام سے پہلے جتنے نبی اور رسول آئے، سب اپنی اپنی قوموں کی اصلاح کے لئے آئے، ان کی نبوت و رسالت کسی خاص قوم اور خاص علاقے تک محدود تھی، ان کو جو آسمانی صحیفے دیئے گئے وہ بھی مخصوص، اور محدود علوم کے حامل تھے، ان میں یہ استعداد اور صلاحیت ہرگز نہ تھی کہ وہ مشرق و مغرب، اور شمال و جنوب کی وسعتوں میں بسنے والی مختلف نسلوں اور قوموں کو ایک مرکز پر جمع کرسکیں، ان صحیفوں کا پیغام زمان و مکان کی حدوں سے ماورا نہ تھا، ان صحیفوں کے ذریعے ممکن نہ تھا کہ مختلف عقیدے رکھنے والی قوموں ، مختلف زبانیں بولنے والے قبیلوں اور نوع بنوع بلکہ متضاد رسم ورواج کے حامل لوگوں کو ایک عقیدے اور ایک مسلک کا قائل کیا جائے، مگر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کے لئے اور قیامت تک کے لئے رسول بناکر بھیجا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر فہرست انبیاء ختم کردی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو عالم گیر اور دائمی نمونہ عمل کا مقام عطا کیا گیا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری جانے والی کتاب کو بھی اسی شان اور بلند مرتبہ سے نوازا گیا، اس میں تمام الٰہی علوم کو جمع کیا گیا، اس کو ایک جامع اور ابدی دستور حیات کی حیثیت دی گئی تاکہ ہر دور اور ہر علاقے کے لوگ، ہر زمانے میں اس کے ذریعہ دین ودنیا کی فلاح اور سعادتیں حاصل کرتے رہیں، افراد انسانی اپنے ظاہری اور باطنی اعمال کی اصلاح کرتے رہیں اورانسانیت اس پر عمل پیرا ہوکر اخلاق وکردار کی بلندیوں کو چُھو سکے۔

اس میں انفرادی مشکلات و مصائب کا حل بھی ہے اور اجتماعی مسائل کا بھی، کوئی پہلو ایسا نہیں ، چاہے وہ معاش واقتصاد سے متعلق ہو یا اصلاح معاشرے سے، یا اس کا تعلق امور مملکت سے ہو، جس کے لئے اس کتاب ہدایت میں کامل رہ نمائی موجود نہ ہو۔مشہور اور بلند پایہ مفسر قرآن امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:” تمام آسمانی صحیفوں کا خلاصہ اور نچوڑ قرآن کریم ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم پر ایمان لانا، تمام آسمانی صحیفوں پر ایمان لانے کے مترادف ہے، اور قرآن کا انکار تمام الہامی کتابوں کا انکار ہے۔“(مقدمہ تفسیر کبیر، ۶۸ )

اللہ کے اس آخری اور ابدی دستور اور کامل ترین کتاب ہدایت کے بارے میں خود اس کا نازل کرنے والا کیا کہتا ہے؟ اس کا جاننا بہت ضروری ہے، متکلم سے بہتر اپنے کلام کی مراد اور مفہوم کون بیان کرسکتا ہے، اور اس سے زیادہ جچے تلُے انداز میں اس کے رتبے کا تعین کسی دوسرے کے لئے ممکن نہیں، اللہ کے کلام پر اللہ کی جو شہادتیں ہمارے سامنے ہیں ہم ان پر جتنا غور کرتے جائیں گے، اتنا ہی ہم پر یہ حقیقت واضح ہوتی جائے گی،ارشاد ہے: مافر طنافی الکتاب من شی﴿ ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کو ادھورا نہیں چھوڑا۔“)

کہیں قرآن کے داعی حق و صداقت اور کتاب رشد وہدایت ہونے کی گواہی ان الفاظ میں دی گئی :
الحمدللہ الذی انزل علیٰ عبدہ الکتب ولم یجعل لہ عوجا قیما ًلینذر باساً شدیداً من لدنہ ویبشر المومنین الذین یعملون الصلحت ان لھم اجرا حسنا(کہف: ۱،۲)
” تمام خوبیاں اس پروردگار کے لئے ثابت ہیں جس نے اپنے بندے (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر کتاب نازل فرمائی۔ اس میں ذرہ برابر کجی نہیں رکھی ۔ نہایت ہی استقامت اور سیدھے پن کے ساتھ موصوف کیا، تاکہ وہ ایسے سخت عذاب سے ڈرائے جو اللہ کی طرف سے ہوگا اور ان ایمان لانے والوں کو خوش خبری سنائے جو اچھے اچھے کام کرتے ہیں ، کہ ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں بہت ہی نفیس اجر ہے۔“

یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ تعریف اور شکر کا مستحق وہی خدا ہوسکتا ہے جس نے اپنے مخصوص اور مقرب ترین بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے کامل اور اعلیٰ کتاب اتاری اور اس کے ذریعے زمین والوں کو سب سے بڑی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ بے شک اس کتاب میں کوئی ٹیڑھی ترچھی بات نہیں۔ اس کی عبارت دیکھو تو فصاحت و بلاغت کا مرقعہ، اندازِ بیان مؤثر اور شگفتہ جو دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ تعلیم ایسی سادہ اور معتدل جو ہر زمانے اور ہر طبیعت کے مناسب، حکم ایسے جچے تلے کہ عقل سلیم کے مطابق، جن پر عمل کسی کے لئے بھی دشوار نہیں، غرض ہر طرح کی افراط وتفریط سے پاک....ایک مقام پر پوری بنی نوع انسان کو خطاب کرتے ہوئے قرآن کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:
یا ایھا الناس قدجاءتکم موعظة من ربکم وشفاءلما ف ¸الصدور و ھدی و رحمة للمومنین﴿ (یونس:۷۵)
”اے لوگوں! تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی ہے، جودلوں کے روگ کی شفا ہے، اور ہدایت و رحمت ہے مسلمانوں کے لئے“

یہ سب قرآن کریم کی صفات ہیں، قرآن اول سے آخر تک نصیحت ہے، جو لوگوں کو مہلک اور مضر باتوں سے روکتا ہے، اللہ کی خوشنودی اور اس تک پہنچنے کا راستہ بتاتا ہے، اپنے ماننے والوں کو دین و دنیا کی رحمتوں کا مستحق گردانتا ہے، مفسرین اور صوفیہ اس آیت کی روح یہ قرار دیتے ہیں کہ اس میں نفس انسانی کے مراتب کمال کی طرف اشارہ ہے، یعنی جو شخص قرآن کے منشاءاور مقتضا پر عمل کرلے، وہ ان مراتب پر فائز ہوسکتا ہے....ایک جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کو ” نورمبین“ سے تعبیر کرتے ہیں، جو لوگوں کو شرک و بدعت کی تاریکی میں فلاح اور روشنی دکھاتا ہے:
﴾یاایھا الناس قد جاءکم برھان من ربکم وانزلنا الیکم نورا مبینا﴿ (المائدہ: ۵۷۱)
”لوگوں! یقیناً تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک بڑی دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک صاف اور واضح نور نازل کیا ہے“

مفسرین کے نزدیک ” برہان“ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں،نبی کریم علیہ السلام کو برہان ، یعنی دلیل کہا اور یہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول یہ سب باتیں آپ کی نبوت ورسالت کی روشن دلیلیں ہیں، جنہیں دیکھنے کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی، قرآن کو ” نور“ فرمایا، روشنی کا کام لوگوں کو راستہ دکھانا ہوتا ہے، اندھیرے میں اگر روشنی کا سامان نہ ہو تو ایک قدم چلنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کفر وشرک کی تاریکیاں انسان کو گھیرے ہوئی ہیں، ان تاریکیوں اور ظلمتوں سے انسان قرآن ہی کے ذریعے نجات حاصل کرسکتا اور منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے....قرآن کس درجے کی کتاب ہے۔ اس کا کیا مقام ہے، شاید انسانوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کی عظمت اور بلندی کا بیان ایک واضح مثال کے ذریعے کرتے ہیں:
لو انزلنا ھذا القران علیٰ جبل لرایتہ خاشعاً متصدعا من خشیة اللہ وتلک الامثال نضربھا للناس لعلھم یتفکرون ﴿ (الحشر:۱۲)
”اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو اے مخاطب، تو دیکھتا کہ وہ پہاڑ خدا کے خوف سے دب کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ فکر و عقل سے کام لیں“

یعنی قرآن اپنی عظمت وجلال کی وجہ سے ایسی شان رکھتا ہے کہ اگر اس کو کسی پہاڑ پر نازل کیا جاتا، اور اس پہاڑ کو احساس و شعور عطا کیا جاتا تو وہ یقیناً اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتا، لیکن منکروں اور کج روﺅں کا حال یہ ہے کہ ان کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں، قرآن سنتے ہیں اور ان کے دلوں پر جوں تک نہیں رینگتی، بار بار یہ مثالیں اسی لئے دی جاتی ہیں کہ لوگ سمجھیں، غور وفکر سے کام لیں، اور پھر عمل کریں، کیوں کہ قرآن صرف اسی صورت میں دین ودنیا کی فلاح کا ضامن ہے جب اس کو سمجھا جائے اور سمجھ کر اس کے مقتضا اور منشاء پر عمل کیا جائے۔ آپ دیکھیں گے کہ قرآن نے ایمان اور حسن عقیدہ کے بعد سب سے زیادہ زور جس بات پر دیا ہے وہ نیک عمل ہے....ایمان کے ساتھ نیک عمل سے قرآن کریم کا فلاحی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا خوبصورت اور جامع تعارف قرآن کریم کا ان الفاظ میں پیش فرمایا ہے:”اللہ ہی کی کتاب، کتاب ہدایت ہے۔ اس میں ان لوگوں کے حالات بھی ہیں جو تم سے پہلے گزر چکے ، اور ان لوگوں کے واقعات کا بھی ذکر ہے جو تمہارے بعد آنے والے ہیں، یہ کتاب الٰہی قانون محکم ہے، تمہارے مابین پیش آنے والے جھگڑوں کا فیصلہ اس میں موجود ہے۔ یہ کوئی بے مقصد دستاویز نہیں، جو شخص تکبر اور کج روی کے سبب اس کو چھوڑ دے گا، اللہ تعالیٰ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔ جو شخص اس کے سوا کسی اور جگہ سے ہدایت تلاش کرے گا، اللہ اس کو گمراہ کردے گا، یہ کتاب ، اللہ کی مضبوط رسی ہے۔ یہ اللہ کا محکم ذکر و بیان ہے۔ یہی سیدھا راستہ ہے....قرآن، اللہ کی ایسی ہدایت ہے کہ لوگوں کی خواہشات اس کو ٹیڑھا نہیں کرسکتیں، اس کی پیروی کرنے والے بے راہ رو نہیں ہوسکتے۔ لوگوں کی زبانیں اس کو خلط ملط نہیں کرسکتیں کہ اس کے ذریعے حق و باطل میں فرق و امتیاز نہ کیا جاسکے ....قرآن ایسا کلام ہے جس سے علماء کبھی سیر نہیں ہوسکتے، بار بار پڑھنے سے وہ پرانا اور بوسیدہ نہیں ہوتا، بلکہ ہر بار جب اس کی تلاوت کی جائے گی تو قاری زیادہ لطف اور حلاوت محسوس کرے گا ، اس کے علوم، اور حقائق و معارف کبھی ختم نہ ہوں گے....قرآن، اللہ کا ایسا کلام ہے کہ جنات نے سنا تو صبر نہ کرسکے اور بول اٹھے کہ یہ کیا ہی عجیب و غریب کلام ہے، اس کے مضامین کی فصاحت و بلاغت ، گہرائی اور گیرائی دنیا کو حیرت و استعجاب میں ڈالنے والی ہے۔ حق بولتا ہے، اور سیدھی راہ دکھاتا ہے....جس نے قرآن کا کوئی لفظ یا فقرہ بولا، اس نے سچ بولا، جس نے قرآن کے مطابق فیصلہ کیا، اس نے عدل و انصاف کیا، جس نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی، اس نے حق و راستی کی طرف دعوت دی۔“(مناھل العرفان علوم القرآن ص:۸۲)

بلاشبہ قرآن، دین و دنیا کی تمام سعادتوں کا ضامن ہے، کامل ترین ضابطہ ہدایت اور دستور حیات ہے، اس کتاب مبین نے انسان کے لئے سعادت دارین کی تمام راہیں کھول دی ہیں۔ تہذیب اخلاق، تدبیر منزل اور سیاست مملکت کے تمام علوم سے آگاہ کردیا اور بتادیا کہ جو قرآن پر عمل کرے گا وہی ابدی سعادت سے ہمکنار ہوگا اور جو قومیں اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گی وہی غالب و برتر ہوں گی۔

قرآن کے ابدی فلاح کے چند اصول:....قرآن کے ابدی فلاح کے اصول اورتعلیمات کو بنیادی طور پر ہم پانچ عنوانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں: (۱) عقائد، (۲) عبادات، (۳) معاملات، (۴) اخلاق و معاشرت (۵)اور قصص وامثال زندگی اصولی طور پر انہی پانچ عنوانوں کے گرد گھومتی ہے۔

(۱)عقائد:....عقیدہ انسانی زندگی کا ایک ایسا مرکزی نکتہ ہے جس کے گرد پوری زندگی کے اعمال وافعال اور اقوال وحرکات گھومتے ہیں۔ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم وعمل، تصور وفعل اور عقلیت وعملیت کو ایک دوسرے کے ساتھ لازم قرار دیا ہے۔ چند سیدھے سادے اصول جو تمام ذہنی سچائیوں اور واقعی حقیقتوں کا جوہر اور خلاصہ ہیں، ان کا نام ”عقیدہ“ اور ان پر یقین کرنے کا نام ” ایمان“ رکھا۔ قرآن کریم کے ابدی فلاح کے بنیادی عقیدوں میں ایمان باللہ ، ایمان بالرسل اور ایمان بالاخرت شامل ہیں، یعنی اللہ کی ہستی کو اپنے وجود اور صفات میں یکتا سمجھنا ،اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء کو برحق ماننا اور دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی پر دل سے یقین رکھنا ....اسے علم کلام کی اصطلاح میں عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چند ارشادات ملاحظہ ہوں:

خدا بے مثل ہے:....” اس کے مثل کوئی شے نہیں“(شوریٰ : ۱۱)
اللہ یکتا اور بے نیاز ہے:.... ” کہہ دو، اللہ ہی یکتا ہے، اللہ ہی بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے۔“ (اخلاص :۱۰۴)

اگر دو خدا ہوتے: ....” اگر زمین وآسمان میں اللہ کے سوا دوسرا خدا ہوتا، تو ان دونوں کانظام تباہ وبرباد ہوجاتا۔“(انبیاء: ۳۲)

عقیدہ رسالت:....نبوت و رسالت وہبی چیز ہے: ارشاد ہے” اللہ ہی خوب جانتا ہے منصب رسالت کس کو بخشے“(انعام۰۰۲۱)....ہر امت میں رسول آئے: ” ہر امت کے لئے رسول بھیجا گیا“ (یونس۔ ۷۲)....تمام رسول انسان تھے: ” اور ہم نے آپ سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں، آدمی بھیجے ہیں، جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے“(نحل۔ ۲۴)....تمام رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے: ....”جو لوگ اللہ اوراس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اوراس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے، اور کفر و ایمان کے درمیان ایک (نئی راہ) نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے رسواکن سزا تیار کر رکھی ہے۔“ (نساء:۰۵۱۔۱۵۱)

منکرین رسالت کا انجام:.... بلاشبہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو ماننے سے انکار کردیا، انہیں ہم یقینا آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی کی جگہ دوسری پیدا کردیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں“(نسائ: ۶۵)

عقیدہ آخرت:....” جو لوگ آخرت کو مانتے ہیں وہی کتاب الٰہی پر ایمان لاتے ہیں۔(نحل۔ ۲۳)

آخرت کا انکار خدا کا انکار ہے:.... ” اگر آپ تعجب خیز بات چاہیں تو سب سے زیادہ تعجب خیز ان لوگوں کا قول ہے کہ ” جب ہم مرکر مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے؟“ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کا انکار کررہے ہیں۔“ (رعد:۵)

منکرین آخرت کے اعمال بے سود ہیں:....” اور جن لوگوں نے ہماری آیت کو جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا انکار کیا، ان کے سارے اعمال اکارت ہیں، کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پاسکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں۔“(اعراف۔ ۷۴۱) ....”جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ (قیامت کے دن) اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا“(زلزال:۷۔۸)

(۲)عبادات:....قرآن کی رو سے انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت ہے۔ ﴾وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون﴿”میں نے جن اور انس کو صرف عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔“ ....اسلام کا تصور عبادت یہ ہے کہ انسان کی ساری زندگی اللہ کی بندگی میں بسر ہو، اسلام نے چار عبادتیں فرض کی ہیں۔ نماز، زکوٰة، روزہ اور حج، اسی بناء پر ان کو ارکان اسلام قرار دیا گیا ہے۔

نماز برائیوں سے روکتی ہے:.... ” نماز قائم کیجئے، یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور یقیناً اللہ کی یاد بڑی چیز ہے۔“ (عنکبوت:۵۴)....” پس اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔“ (توبہ۔ ۰۱۱)....” جہنمی مجرموں سے اہل جنت پوچھ رہے ہوں گے کہ تمہیں کس چیز نے دوزخ میں ڈالا۔ وہ جواب دیں گے۔ ہم نماز نہ پڑھتے تھے۔“ (مدثر: ۴۔۳۴)

زکوٰة فلاح کا ذریعہ ہے:.... ” یقینا وہ ایمان والے فلاح پائیں گے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں، بے ہودہ باتوں سے منہ موڑے رکھتے ہیں۔ اور زکوٰة دینے میں پابندی کرتے ہیں“ (مومنون: ۱۔۴)....”جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سودانے ہوں، اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کے عمل کو چاہتے ہیں بڑھاتے ہیں“ (بقرہ: ۶۳)

روزہ کی فرضیت :.... ” اے ایمان والو! تم پر بھی روزہ اسی طرح فرض کیا گیا ہے جیسے پچھلی امتوں پر کیا گیا تھا“تاکہ میں تقویٰ پیدا ہو“ (بقرہ: ۳۸۱)

فرضیت حج: ....” اور لوگوں پر خدا کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر (خانہ کعبہ) تک پہنچنے کی وسعت اور قدرت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے (آل عمران :۷۹)

(۳) معاملات: ....انسانی معاملات میں جائزہ و ناجائز کی حدیں قائم کرنا اور حلال و حرام کے متعلق حکم دینا خدا ہی کا حق ہے، خدا کے اس حق میں اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں، توحید کا جہاں ایک پہلو یہ ہے کہ عبادت صرف خدا کی ہو، سر نیاز، صرف اسی کے آگے جھکایا جائے، وہاں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ معاملات میں صرف اسی کے احکام اور قوانین کی پیروی کی جائے، قرآن نہ صرف یہ کہ تمام معاملات کے لئے واضح اور اٹل قوانین پیش کرتا ہے بلکہ ان کی پیروی کو ایمان کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔

قرآن کا نظریہ حلال و حرام :.... ” لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کیا حلال کیا گیا ہے ، ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارے لئے تمام پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں“ (مائدہ: ۴)

قانون حلال و حرام اللہ کا حق ہے: ....” انہوں نے اپنے ربیوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے اور اسی طرح مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھی، حالانکہ ان کو جو حکم دیا گیا تھا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک ہی خدا کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں“ (توبہ: ۱۳)

شراب اور جوئے کی حرمت: ....” اے مومنو! شراب ، جوا اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے بچے رہو تاکہ تم کو فلاح نصیب ہو“(مائدہ۔۰۹)

قتل نا حق کی ممانعت : ....” اور اس نفس کو قتل نہ کرو جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، مگر حق کے ساتھ“(اعراف: ۵۲۱)

” جس نے دانستہ کسی مسلمان کو قتل کیا، اس کو سزا جہنم کا دائمی عذاب ہے“ (نسائ: ۳۹)

چوری کی سزا:.... ” چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت ، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کے لئے ہوئے جرم کی سزا ہے اور خدا کی طرف سے عبرت ناک سزا، اور خدا غالب اور حکمت والا ہے“ (مائدہ: ۸۳)

(۴) اخلاق ومعاشرت.... قرآن نے حسن اخلاق اور حسن معاشرت کو جو اہمیت دی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انسان کی سعادت اور فلاح و کامرانی کے لئے ایمان کے بعد جس چیز کو ضروری قرار دیا گیا وہ حسن اخلاق اور حسن معاشرت ہے، قرآن اخلاق حسنہ کو اپنی تعلیم کا لازمی نتیجہ اور ثمرہ قرار دیتا ہے۔ اور اس بارے میں انتہائی جامع، متوازن اور موثر تعلیم اور نظریات کا حامل ہے۔ کیوں کہ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ایک بہتر، متوازن ، صالح اور اطمینان بخش معاشرے کی تعمیر اخلاق حسنہ ہی پر ہوسکتی ہے۔ اس لئے قرآن نے رذائل اخلاق کو ایمان کے منافی کہا ہے اوران سے بچنے کی سخت تاکید کی ہے۔

سچائی.... ” مومنو! اللہ کا خوف رکھو، اور سنچوں کے ساتھ رہو“(توبہ: ۹۱۱)

صبر:....” اے ایمان والو! صبر اختیار کرو اور صبر میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو، اور مقابلہ کے لئے مستعد رہو، اللہ کا خوف رکھو تاکہ تم فلاح پاسکو“ (آل عمران :۰۰۲)

عفو و درگزر:.... ” اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! درگزر کا طریقہ اختیار کیجئے۔ اچھی باتوں کی تلقین کرتے رہئے اور جاہلوں سے نہ الجھئے“ (اعراف: ۹۹۱)

ایثار:....” اور ان کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ ان کو خود ضرورت مند ہوں اور جو شخص تنگ دلی سے بچالیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں“(حشر:۹)

وعدہ خلافی:.... ” نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے نفاق کا روگ ہوگیا، جو خدا کے حضور پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا، یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا سے وعدہ خلافی کی اور جھوٹ بولتے رہے“(توبہ: ۷۷)

جھوٹ: ....” اور جھوٹ کہنے سے بچتے رہو“(حج:۰۳)

تکبر:....” زمین پر اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو“(بنی اسرائیل:۷۳)

بخل: ....” جس نے مال اکٹھا کیا اور اسے بار بار گنتا رہا ، وہ یہ سمجھنے لگا کہ اس کا مال اسے زندہ وجاوید کردے گا، ایسا ہرگز نہیں ہے، وہ یقینا جہنم میں ڈالا جائے گا“ (ہمزہ۔ ۲۔۴)

عیب جوئی:.... ” طعنے دینے اور عیب لگانے والے کے واسطے ہلاکت وبربادی ہے“(ہمزہ:۱)

غیبت: ....” ایک دوسرے کو پیٹھ پیچھے برا مت کہو، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے“(حجرات : ۲۱)

زوجین کے حقوق:....”عورتوں کے لئے بھی معروف طریقہ پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔“

شوہر کے فرائض:....عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے زندگی گزارو، پھر اگر وہ تمہیں کسی وجہ سے ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اس میں تمہارے لئے بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔(نسائ:۹۱)

بیوی کے فرائض:....” وہ مرد کی اطاعت شعار ہوتی ہے اور مردوں کے پیچھے اللہ کی نگرانی میں ان کے حقوق اور امانتوں کی حفاظت کرتی ہے۔ (نسائ:۴۳)

والدین سے سلوک:....” اگر ان(والدین) میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو تم انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکیاں دو، اور عاجزی اور انکساری سے ان کے سامنے جھکے رہو اور دعا کرو کہ پروردگاران کے حال پر رحم فرما۔ جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔“ (بنی اسرائیل:۳۲:۴۲)

آﺅ فلاح کی طرف:.... قرآن کریم کے ابدی فلاح اور لافانی سچائیوں میں سے یہ چند حقیقتوں کا ذکر ہے، ورنہ قرآن زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہ نمائی کرتا ہے، وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اور ہر مرحلے پر انسانیت کی ہدایت کے لئے اس میں ابدی تعلیمات موجود ہیں، لیکن اس حقیقت کو ضرور مد نظر رکھنا چاہئے کہ قرآن کس صورت میں نجات کی راہ دکھاتا ہے، مکمل ضابطہ حیات کیوں کر ہے؟ اور اس میں بنی نوعِ انسان کی تمام مشکلات کا حل کیسے پنہاں ہے؟ اس کا بہت مختصر اور واضح جواب ہے اور وہ یہ کہ اللہ کی اس آخری کتاب ہدایت کو پڑھ لینا کافی نہیں، بجا کہ وہ بھی باعث صد اجر وثواب ہے، مگر اس سے اگلی منزل اس کا سمجھنا ہے، پہلے پڑھنے کی سعادت حاصل کرے، اس کے بعد سمجھے، اور پھر حقیقی منزل یہ ہے کہ اس پرعمل کرے، قرآن ، محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں کہ آدمی آرام سے بیٹھ کر اس کو پڑھے، دنیا کی دوسری عام مذہبی کتب کی طرح ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں کہ کسی مدرسہ یا خانقاہ میں اس کے اسرار ورموز حل کرلئے جائیں، ان سب باتوں سے ہٹ کر قرآن، ایک عالمگیر اور ابدی تحریک و دعوت ہے۔ اس نے ایک گوشہ نشین انسان کو کنج عافیت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی اور راہ حق سے بھٹکی ہوئی دنیا کے بالمقابل لاکھڑا کیا، وہ باطل کے خلاف نبرد آزما ہوگیا، اس تحریک اور دعوت پر گھر گھر سے ایک ایک سعید اور پاکیزہ نفس کھنچا چلا آیا ، اور داعی حق کے پرچم تلے جمع ہوگیا، اسی دعوت اور تحریک نے اپنے ماننے والوں کو گمراہی اور فتنہ و فساد پھیلانے والوں کے خلاف میدان جنگ میں لاکھڑا کیا، ایک ایک فرد نے عمل کے میدان میں اپنا فرض اداکیا، یہاں تک کہ۳۲ سال کی جاں گسل کوشش کے بعد اللہ کی زمین پر اس کے ماننے والوں کی حکومت قائم ہوگئی، یہ تھا عمل کے میدان میں قرآن کا اولین نقش، جس نے اپنے ماننے والوں کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلادیا، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہوا کہ اس کو پڑھ کر سمجھا گیا، اور سمجھ کر اس پر پورے خلوص کے ساتھ عمل بھی کیا گیا۔

موجودہ دور میں امت مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اس نے قرآن پر عمل تو کجا، اسے سمجھ کر پڑھنا ہی چھوڑ دیا۔ حالانکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا وہ کون سا میدان ہے جس میں قرآن انسانیت کی مکمل رہ نمائی نہیں کرتا؟“
Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri
About the Author: Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri Read More Articles by Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri: 35 Articles with 60564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.