تیسری ورلڈ وار کی چاپ

قحط الرجال کے اس سیاہ ترین ایام میں اللہ کے بندے خال خال ہی ملتے ہیں جو حق سچ کی خامہ فرسا سائی کے لئے اپنی جانیں تک قربان کرنے سے کنی نہیں کتراتے۔ قلماروں کا یہ لشکر صداقت شجاعت اور بسارت ایسی لاجواب و باکمال جرات رندانہ کا علمبردار ہوتا ہے۔ لطف تو یہ ہے کہ یہودیوں کا تخلیق کردہ کارپوریٹ میڈیا جو فسوں کاری پرفریبی بدنیتی اور لغویات کی شاطری کا آئینہ دار ہے ہمیشہ اسلام کشی اور امت مسلمہ کی گردان کرتا رہتا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کو کریڈٹ جاتا ہے کہ9 الیون کے بعداسکے نیٹ ورک اور چرب زبان نیوز کاسٹرز تجزیہ نگار اور ریسرچ سکالرز نے ایک طرف ٹوئن ٹاورز کی تباہی کی ذمہ داری القاعدہ کے سر تھوپ دی اور دوسری طرف دنیا بھر کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے دھوکہ دہی فراڈ اور بے سروپا اور من گھڑت خبریں شائع کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ صہیونی زرائع ابلاغ نے میڈیا وار سے ہی عراق اور افغانستان پر امریکی حملوں کا جواز تراشنا ۔اسلام مسلمانوں و جہاد پر دہشت گردی کے دشنام طرازی کی تعصبانہ طور ماراج بھی برق رفتاری سے جاری و ساری ہے جو مغرب کے متعصبانہ رویوں کی چھوٹی سی جھلک ہے۔9سالہ اندھیر نگری میں امریکہ اور یورپ سے تعلق رکھنے والے چند دیوئی مالائی و حق پرست صحافی اور دانشور ایسے بھی تھے جنہوں نے دینی نسلی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عالمی سامراجیت اور برطانوی استعماریت پر نہ صرف کڑی تنقید کی بلکہ انہوں نے اپنے قلم سے ظالموں کا حقیقی پردہ فاش کیا۔ سیمیور ہرش امریکی صحافت کا معروف نام ہے جسکا تعلق شگاگو سے ہے۔ امریکہ نے ویت نام جنگ میں شہریوں اور ویت نامی گوریلوں کو پابند سلاسل کرنے کی خاطر گوانتاناموبے کیمپ بنا رکھے تھے۔ امریکی فورسز نے مائی لائی کیمپ میں قید درجنوں معصوم شہریوں کو رات کی تاریکیوں اور تنہائیوں میں بھون ڈالا۔ امریکی ترجمان نے مگرمچھ کے ٹسوے بہائے کہ باغی قاتل ہیں۔ مگر سیمیور ہرش نے قاتلوں کا کھرا ڈھونڈھ کر دنیا میں ہلچل مچا دی۔ قاتل کوئی اور نہیں بلکہ خود کیمپ کے امریکی محافظ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سیمیور ہرش مائی لائی کیمپ کے سانحہ جانکاہ کے حقائق تلاش نہ کرتا تو یہ راز بھی ہمیشہ راز ہی رہتا۔ سہمیور ہرش امریکہ سمیت مغرب کی کئی بڑی جاسوس ایجنسیوں کے اندر اپنی جڑیں پیوست کرچکا ہے۔ امریکی نیوز پیپر نے خبریں شائع کیں کہ امریکی آفیسرز و جرنیلوں نے سیمیور ہرش کو تفاصیل سے آشنائی فراہم کی تاکہ دنیا وائٹ ہاؤس پر جنگ بندی اور قابض افواج کے انخلا کا دباؤ ڈال سکے۔ اقوام عالم کی تاریخ اپنے شہریوں یا فوجیوں کو خود ہلاک کرنے ایسے دوغلے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ دنیا میں وکی لیکس انکشافات کو نائن الیون کے بعد دوسرا حیرت انگیز واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ وکی لیکس انکشافات کے ڈرامے کی پہلی قسط ریلیز ہوئی تو دنیا کانپ اٹھی۔ وکی لیکس کا مالک جولیان منٹوں میں شہرت کی تمام بلندیوں کو مات دے چکا ہے ۔۔ شبلی نعمانی نے کہا تھا کسی شخصیت کی شہرت و مقبولیت کا اندازہ صرف اس وقت کیا جا سکتا ہے جب وہ افسانوی کردار بن جائے۔ شبلی کے فلسفے کی روح سے وکی لیکس افسانوی شہرت کا طرہ امتیاز بنا ہوا ہے۔ دوسری طرف سیمیور ہرش اور نامور تجزیہ نگاروں نے ڈروامے کی دو چار اقساط کے بعد کف افسوس ملتے ہوئے کہا کہ انکشافات کے پس چلمن سرمایہ داریت کی بو آرہی ہے کہ ٹوئن ٹاور کی طرح اس ڈرامے کی ہدایتکاری اسی گروہ کا کمال ہے جنکے شاطر دماغوں نے 11 الیون کا ڈرامہ لکھا تھا۔ سیمور ہرش نے کئی اعتراضات اٹھائے کہ یہ ادارہ کیوں اور کیسے وجود میں آیا اسکے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں؟ اسے فنڈنگ کہاں سے ملتی ہے؟ وکی لیکس جمبو جیٹ کو اڑان کے درمیان کس نے ہائی جیک کیا؟ ان سوالات کو سمجھنے کے بعد گھمبیر معاملے کی گھتی سلجھائی جاسکتی ہے۔ وکی لیکس کی زندگی کے ماہ و وصال کا زیادہ عرصہ سفر میں گزرا۔ لندن میں جولیان اسانچ کی گرفتاری حفاظتی تحویل تھی۔ciaنے جولیان کو پٹھے سے پہلوان بنایا جبکہ موساد نے ہائی جیک کرلیا۔ سمیور ہرش کہتے ہیں کہ جان یونج کا شمار وکی لیکس کے بانیوں میں کیا جاتا ہے کو2007 میں ادارے سے فارغ کیا گیا۔جان یونج نے بتایا کہ وکی لیکس خیراتی ادارہ نہیں بلکہ یہ توcia کا ذیلی ادارہ ہے۔23 اگست2011 کو وال سٹریٹ جرنل نے وکی لیکس کی فنڈنگ پر تفصیلی ایڈیشن شائع کیا۔ اخبار کو کڑی محنت کے باوجود فنڈنگ کرنے والے اداروں کا پتہ نہ چل سکا۔ امریکی صحافی میڈیسن نے جولائی2010 میں مفصل رپورٹ جاری کہ چائنا کی ایجنسیوں کا صد فیصد کہنا ہے کہ وکی لیکس امریکی جنگوں کا قابل بھروسہ ساتھی ہے۔ وکی لیکس انکشافات کو سیاق و سیاق سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ سچ سامنے آتا ہے کہ وکی لیکس نامی فلم روئے ارض پر سیاسی اور اقتصادی ارتعاش پیدا کرسکتی ہے۔cia نے اس مقصد کے لئے وکی لیکس کو 20 ملین ڈالر ادا کئے مگر وائٹ ہاؤس خاصا مایوس تھا کہ وکی لیکس دستاویزات کے کئی حصے اسرائیل کے ہتھے چڑھ گئے۔ وکی کے سپوٹرز میں جارجیا میں ایڈورڈ شو کی حکومت کے خلاف بے تحاشا ڈالر مہیا کرنے والے صہیونی سرمایہ دار جارج سوروس بھی شامل ہیں۔ وکی لیکس انکشافات کے تباہ کن حصے موزوں وقت پر ریلیز ہونگے۔ انکشافات کے پلندے میں لاکھوں صفحات شانل ہیں۔ دستاویزات کی چھانٹی کیسے کرنی ہے؟ کس صفحے کو کب اور کہاں شائع کرنا ہے؟ اسکا بندوبست سی آئی اے کا ذمہ ہے۔ امریکی ماہر جو ناتھن نے وکی لیکس کے انکشافات کی پہلی قسط کے بعدvicky leak and xionist posion نامی کتاب شائع کی جس میں جو ناتھن نے کئی سوالات اٹھائے ہیں کہ وکی لیکس کے ذریعے عراق و افغان جنگوں کی تفاصیل ،امریکی افواج کے ہاتھوں مرنے والے افغانیوں اور عراقیوں کی تعداد کا معمہ تو حل ہوچکا۔ طالبان پاکستانی حکومت ISI اور اسامہ بن لادن سے جڑے ہوئے انکشافات بھی طشت ازبام ہوچکے مگر تعجب تو یہ ہے کہ موساد اور کرزئی کے متعلق کسی سفارت کار کا نقطہ نظر ابھی تک افشاں کیوں نہیں ہوا؟ افغانستان میں کھربوں ڈالر کی پوست اور اسکی سمگلنگ کا سہرا کس کے سر ہے؟ کرزئی کا بھائی اور افغان پارلیمنٹ کے درجنوں اراکین پر منشیات فروشی کا بھوت سوار ہے مگر کرزئی اور پوست کے سمگلرز کا کیا ریلیشن ہے؟ کسی نے ناسور بنے اس گھمبیر معاملے کی ریسرچ کا بیڑہ کیوں نہیں اٹھایا۔ نور المالکی کی حکومت کیسے وجود میں آئی۔ عراق میں مارے جانیوالے عراقیوں اور امریکیوں کی ساری پروفائل دنیا کے سامنے عیاں ہوسکتی ہے مگر افغانستان میں اسرائیلی کمانڈوز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں جبکہ بغداد کے در و بام کو خون کے تالابوں سے بھر دینے والی بلیک واٹر کے کارنامے انکشافات کا حصہ کیوں نہ بن سکے؟ کیا کوئی اسرائیلی یا امریکی جرنیل یہ بتانا چاہے گا کہ بغداد میں اسرائیل کے55 ادارے کیا کرتے رہے؟ عراق میں مسلمانوں کے خلاف امریکی ڈیتھ سکواڈ کس نے مہیا کئے۔ عراق میں تعینات امریکی ناظم پال وولفرڈز کے اقدامات کا قصہ کون سنائے گا ؟ وہ جنگی جرائم کا سرغنہ ہے اسے کون گرفتار کرے گا؟۔ عراق میں امریکی فوجیوں کی تربیت کے لئے پال وولفرڈز نے اسرائیلی کمانڈوز شان بیت کو متعین کیا تھا اس معاملے کی تفصیل کس طرح سامنے آسکتی ہے؟ یہودی خطے سے شائع ہونے والے اخبار حارث نے سوالات کے متعلق لکھا ہے کہ موساد اور وکی لیکس کے درمیان جنیوا میں معاہدہ ہوا کہ اسرائیلی مفادات کو زچ پہنچانے والی دستاویزات شائع نہیں ہونگی۔ جوناتھن کی کتاب بتاتی ہے کہ نائن الیون اور وکی لیکس انکشافات کے زریعے سب سے زیادہ فائدہ تل ابیب کے مقدر کا سکندر بنا۔ اسرائیل کے نیتن یا ہو نے تسلیم کیا تھا کہ وکی لیکس دستاویز سے پوری دنیا شرم سے منہ چھپا رہی ہے مگر اسرائیل کے لئے اچھی اقتصادی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ مندرجہ بالا سنیاریو کا تجزیہ کیا جائے تو خدشات کا ایک سمندر سینے میں تلاطم پیدا کرتا ہے کہ ابھی مزید جنگیں ہونگی2011 ہوشربا تبدیلیوں کو جنم دے سکتا ہے ؟حالات تیسری عالمی جنگ کا پتہ دیتے ہیں۔ تیونس مصر کے انقلابات سوڈان کی تقسیم کے خطرناک نتائج افغانستان میں ناٹو کی شکست عالم عرب میں شہنشاہی نظام کے انتشار، برصغیر کے شعلہ زن معاملات اور ایٹمی جنگ کے خدشات تیسری عالمی جنگ کی پیشین گوئی کررہے ہیں۔ تیسری عالمی جنگ تباہ کن بن سکتی ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 129014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.