گلے کاٹتی ڈور اور غیر محرم سے محبت کا اظہار

ماہ فروی میں ہونے والی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو بڑے شہروں میں اکثر مقامات پر گزشتہ تین دہائیوں سے دو قسم کی سرگرمیاں زیادہ دیکھنے کوملتی تھیں جن میں نوجوان طبقہ بھر پور طریقے سے حصہ لیتا تھا ان میں سے ایک کو تو باقاعدہ تہوار کی صورت میں منایا جانے لگ گیا تھااِس پر اعلی عدالتوں کے احکامات اورسابقہ پنجاب حکومت کے سخت ایکشن کی وجہ سے کافی حد تک کنٹرول توممکن ہوا لیکن پھر بھی کہیں نا کہیں اس جان لیوا تہوار کی وجہ سے گلے کٹتے رہے اب بھی پولیس کی جانب سے کائٹ فلائنگ ایکٹ کے تحت کاروائیاں جاری رہتی ہیں لیکن پھر بھی اِکا دُکا گلی محلوں میں پتنگ بازی رُک نہیں پائی اسی اور نوے کی دہائی میں پتنگ بازی پنجاب بھر میں ماہ فروی میں عروج پر ہوتی تھی باقاعدہ ماہ فروی کے دوسرے یا تیسرے جمعہ کواور بعد میں اتوار کو لاھور اور اس کے قریبی اضلاع میں بسنت منائی جاتی تھی جس میں شرکت کے لئے دور دراز سے دوست رشتہ دار شریک ہوتے تھے بلکہ بیرون ملک سے لوگ بسنت کے نام پر ہونے والی پتنگ بازی میں شرکت کے لئے چند ہفتے پہلے سے لاھور میں ہوٹلوں کی بکنگ کرواتے انہی دنوں میں بسنت پر خصوصی پروگرام ترتیب دیے جاتے اور ٹی وی پر ڈرامے دیکھا ئے جاتے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بسنت کو اتنا عروج ملا کہ لاھور کے بعدپاکستان بھر میں مختلف دنوں خاص طور پر جمعۃ المبارک کو بسنت منائی جانے لگی پرویز مشرف کے دور میں الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کی وجہ سے اس کو اور فروغ ملا سال 2008 تک باقاعدہ سے بسنت پنجاب بھر میں منائی جاتی رہی بسنت منانے والوں نے پتنگ بازی کے دوران دھاتی ڈور اور کیمیکل ڈور کا بے دریغ استعمال شروع کر رکھا تھا جسکی وجہ آئے روز حادثات رونما ہونے لگے سڑکوں پر ہلاکتوں کا سلسلہ بڑھ گیا اکثر یہ سننے میں آتا کہ موٹر سائیکل سوار یا کسی گھر کا کوئی فرد گلے میں ڈور پھرنے سے جانبحق ہوگیا اسکے بعد اعلی عدالتوں کے احکامات کی روشنی میں پنجاب حکومت نے کائٹ فلائنگ ایکٹ کے تحت پتنگ بازی اور فروشی پر پابندی لگا دی اگرچہ ابھی بھی بعض علاقوں میں ڈھکے چھپے پتنگ فروشی ہونے کی وجہ سے پتنگ اُڑتے دیکھے جاسکتے ہیں،سانچ کے قارئین کرام ! ماہ فروی میں دوسری بڑی سرگرمی جو دیکھنے کو ملتی تھی وہ ہے ویلنٹائن ڈے ،اس کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا نے جو کردار ادا کیا شاید ہی کہیں اور نظر آتا ہوگا اس پر باقاعدہ ڈارموں اور تشہیرکا سلسلہ چودہ فروری سے چند دن پہلے سے شروع کیا جاتا اور اچھل کودناچ گانے کے ساتھ نوجوان لڑکے کا دوست لڑکی کو گلاب کا پھول دینا،دل کی شکل کے بنے دیگر گفٹس دینا ، مخلوط تقریبات میں شرکت اور اکیلے ہوٹلوں پارکوں میں ملنے کی ترغیب میں الیکٹرانک میڈیا نے اہم کردار ادا کیا وطن عزیز پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا جس کاملکی آئین قرآن وسنت کے مطابق ترتیب دیا گیا وہاں پر ایسی بے حیائی کو فروغ دینے پر عدلیہ کی جانب سے گزشتہ سال الیکٹرانک میڈیا پر پابندی لگائی گئی جس کی وجہ سے امسال ویلنٹائن ڈے پر میڈیا پر خاموشی طاری ہے ،ارشاد باری تعالی ہے " اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔" ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے " ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے یہ (پاک لوگ) ان (بدگویوں) کی باتوں سے بری ہیں (اور) ان کے لئے بخشش اور نیک روزی ہے" مومن مردوں کے لئے ارشاد ہوا "مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے" ۔سانچ کے قارئین کرام ! ویلنٹائن ڈے ہے کیا اپنے گزشتہ سال کے کالم سے کچھ نئے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ ویلنٹائن ڈے 14 فروری کو منایا جاتا تھا اِسے محبت کرنے والوں کے تہوار کے طور پر بھی منایا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ سینٹ ویلنٹائن ایک مسیحی راہب تھا ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کچھ باتیں اْس سے منسوب کی جاتی ہیں بک آف نالج میں ہے کہ’’ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لیے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پرامید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کر دیا۔‘‘ 14فروری کوسینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیا جاتا ہے تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھا جو ایک راہبہ کی محبت کا اسیر ہوگیاجبکہ مسیحیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا اس لیے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کو بتایا کہ اسے خواب میں بشارت ملی ہے کہ14 فروری کے دن اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گاراہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں نے عشق میں سب کچھ کرلیا کلیسا کی روایات کے مطابق انہیں ایسا کرنے پر قتل کر دیا گیا بعد میں کچھ نوجوانوں نے ویلنٹائن کو’شہید ِمحبت‘ کا درجہ دیتے ہوئے اس کی یادمیں دن منانا شروع کر دیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا یہ ہی وجہ ہے کہ مسیحی پادری بھی اِس دن کی مذمت کرتے ہیں یہ دن منانے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسیحی راہب ویلنٹائن نے شادیاں کروانے کا جرم بھی کیا کہا جاتا ہے کہ رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لیے افرادی قوت کی ضروت پیش آئی تو مطلوبہ تعداد حاصل نہ ہوسکی جس پر بادشاہ کے علم میں یہ بات آئی کہ شادی شدہ لوگ اپنے گھربار،بیوی بچے چھوڑ کر جنگ میں جانے کو تیار نہیں ہیں تو بادشاہ نے شادی پر پابندی لگادی لیکن ویلنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ شادی کر لی بلکہ اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی دین اسلام میں غیرمردوں اور غیر عورتوں کا ایک دوسروں سے ملنا اور اظہارمحبت کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے حدیث شریف میں ہے کہ بے شک ہر دین کا ایک خْلق ہے اور اسلام کا خْلق حیا ہے (ابن ماجہ )،معاشرہ میں جہاں کہیں بھی بے حیائی ،عریانی اور مردو عورتوں کا چوری چھپے اختلاط عام ہو وہاں رشتوں کا احترام ختم ہوجاتا ہے اور تمام تر برائیاں سرائیت کرنے لگتی ہیں اگر دیکھا جائے تو بطور مسلمان غیر محرم کے ساتھ یوں محبت کا اظہار کرنا کسی طور بھی قابل قبول نہ ہے اگر دیگر مذاہب کو دیکھیں تو وہاں بھی چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ قرار دیاگزشتہ سال ایک نشریاتی ادارے نے ویلنٹائن ڈے سے کچھ دن پہلے خبر کچھ یوں لگائی کہ پاکستان میں میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے اپنے تحریری بیان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے کہا ہے کہ ویلٹنائن ڈے کی کسی بھی قسم کی پروموشن نہ کی جائے۔ بیان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے گذشتہ برس جاری کیے جانے والے حکم نامے کا حوالہ بھی دیا گیا اور کہا ہے کہ یہ عدالتی حکم اب بھی برقرار ہے۔13 فروری 2017 کواسلام آباد ہائی کورٹ کے دیے جانے والے حکم میں کہا گیا تھا کہ ویلنٹائن ڈے کی نہ کوئی سرکاری تقریب منعقد ہو گی اور نہ ہی عوامی مقامات پر اسے منانے کی اجازت ہو گی۔سانچ کے قارئین کرام !وطن عزیز پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے جسکے آئین کی تمام شقیں قرآن وسنت کے مطابق ہیں پھر ایسے تہوار کیسے منائے جاسکتے ہیں جو اسلامی روایات کے خلاف ہوں٭
 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 121561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.