آپ خان صاحب کو نہیں جانتے

آج سے بیس یا پچیس سال پہلے یہ کہانی پڑھی تھی لیکن اُس وقت پتا نہیں سمجھ نہیں آئی یا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی آج سمجھ آئی تو سُوچا آپ لوگوں کو بھی سمجھنے کا موقع ملنا چاہیے اس لیے آپ بھی پڑھے اور سمجھے شام کا وقت ہے ہوا ناپید حبس کی وجہ سے سانس لینا دشوار شہزادہ اپنے محل کی چھت پر ٹہل رہا ہے وزیر چند قدم چل کر شہزادئے کے پاس آتا ہے پوچھتا ہے کہ سرکار کوئی پریشانی شہزادہ نفی میں سر ہلاتا ہے اور کہتا ہے کرنے کر کچھ بھی نہیں وزیر مسکرا کر کہتا ہے شہزادہ حضور نشانہ بازی کی مشق کر لیں شہزادہ کہتا ہے نشانہ بازی کی مشق اور یہاں وزیر ادھر اُدھر دیکھتا ہے اُس کی نظر محل کے سامنے سے گزرنے والے ایک بچے پر پڑتی ہے وہ تیر کمان اُٹھا کر شہزادئے کو دیتا ہے اور کہتا ہے سرکار اس طرح نشانہ لگائے کہ تیر بچے کے بالوں کو چھو کر گزر جائے شہزادہ پریشانی سے کہتا ہے اور اگر نشانہ خطا ہو گیا تو وزیر مسکرا کر کہتا ہے شہزادہ حضور آپ کی رگوں میں جو خون ہے ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کا نشانہ خطا ہو جائے شہزادہ تیر کمان سنبھالتا ہے نشانہ لیتا ہے تیر جا کر بچے کی پیشانی میں پیوست ہو جاتا ہے اور بچہ جاں بحق ہو جاتاہے بچے کے ماں باپ اور رشتہ دار بچے کی میت لے کر بادشاہ کے دربار میں پیش ہو جاتے ہیں اور بادشاہ کے سامنے فریاد کرتے ہیں کہ حضور آپ کے محل سے چلنے والا تیر ہمارئے بچے کی جان لے گیا ہم آپ کی رعایا ہیں اور ہم آپ سے انصاف کا تقاضا کرتے ہیں بادشاہ اُن کو ہر ممکن انصاف کی یقین دہانی کراتا ہے اور کہتا ہے اس واقع کی پوری تحقیق کی جائے گی کہ یہ واقع کس طرح پیش آیا اور لواحقین سے وعدہ کرتا ہے کہ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور واقع کی تحقیقات کے لیے قا ضی کی سربرائی میں ایک کمیٹی بنا دیتا ہے کمیٹی تحقیقات شروع کرتی ہے لواحقین اور محل کے ارد گرد بسنے والے لوگوں کے بیانات قلمبند کیے جاتے ہیں اُس بچے کے ماں باپ انصاف کے لیے در در کے دھکے کھاتے ہیں لیکن انصاف اُن کے نصیب میں نہیں ہوتا دلبرداشتہ ہو کر وہ دونوں خود کشی کر لیتے ہیں اُن کے لواحقین اُن کی میتوں کو لے کر بادشاہ سلامت کے پاس آجاتے ہیں بادشاہ سلامت ایک دفعہ پھر فرماتے ہیں انصاف ہو گا اور ہر صورت میں ہو گا قاضی کو طلب کیا جاتا ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ دو دن میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جائے دو دن بعد قاضی صاحب اپنی رپورٹ پیش کرتے ہیں کہ تیر محل کی چھت پر سُوکھنے (خشک) کے لیے رکھے گئے تھے تیز ہوا کی وجہ سے تیر اُڑ کر گلی سے گزرنے والے بچے کی پیشانی پر جا لگا بدقسمتی سے جس کی وجہ سے بچے کی موت واقع ہو گئی ماڈل ٹاؤن میں چودہ لوگ جب پولیس گردی کا شکار ہوئے تومیرئے کچھ دوست کہتے اگر عمران خان کی حکومت ہوتی تو پولیس والوں کی اتنی ہمت ہی نہ ہوتی کے بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلا دیتے اور اگر غلطی سے اس طرح کا واقع ہو ہی جاتا تو ان لوگوں کو دوسروں کے لیے مثال بنا دیا جاتا میں اُن سے پوچھتا کہ خان صاحب کے پاس ایسی کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ خان صاحب اس دیمک ذدہ سسٹم کو ٹھیک کر لیں گے-

میرے دوست فرماتے آپ خان صاحب کو نہیں جانتے پھر وہ مجھ کو عمران خان کی دور کپتانی اور شوکت خانم ہسپتال کی مثالیں دیتے اور میں آگے سے ہنس کر صرف یہ کہتا اﷲ کرئے خان صاحب کی حکومت آئے اور اﷲ نہ کرئے خان صاحب کے دور حکومت میں اس طرح کا واقع وقوع پذیر ہو پھر دیکھیں گے کہ کس طرح خان صاحب اس ملک میں قائم طاقتور لوگوں کی اجارہ داری کو توڑتے ہیں میرئے دوست سوال کرتے کہ آپ پی ٹی آئی سے اتنے مایوس کیوں ہیں میں اُن کو جواب دیتا میں پی ٹی آئی سے مایوس نہیں ہوں اور نہ ہی مجھ کو عمران خان کی ایمانداری یا نیت پر کوئی شک ہے لیکن میں اس نظام سے ناامید ہوں کیوں کہ یہ گلا سڑا نظام صرف راؤ انوار،شاہ رخ جتوئی اور ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو تحفظ دیتا ہے اور عافیہ صدیقی ، خلیل ، ذیشان اور اریبہ جیسے کمزور لوگ اس کے پاٹوں میں پس جاتے ہیں اس بد بو دار نظام کا ٹھیک ہونا طاقتور لوگوں کے مفاد میں نہیں اور مفاد پرست لوگ ہی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے عمران خان کے گرد جال بچھا رہیں ہیں ہماری بدقسمتی کہ خان صاحب کے دور حکومت میں ساہیوال کا سانحہ پیش آ گیا عثمان بزدار صاحب کاکرب میں مبتلا عمیر کو پھول پیش کرنا ، فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان کے بیانات اور راجہ بشارت کی پریس کانفرنس اگر بے حسی کی انتہا تو عمیر کا جے آئی ٹی کو دیا گیا بیان ہمارئے بوسیدہ نظام کے منہ پر وہ تھپڑ ہے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا عمیر کے بیان کے مطابق پہلے گاڑی کے ٹائر پر فائر کیا گیا پھر ذیشان جو گاڑی چلا رہا تھا اُس کو گولیا ں مار کر موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا اس دوران خلیل نے اُن پولیس والوں کو پیسوں کی آفر کی پھر پولیس والوں نے کسی سے فون پر بات کی فون پر بات کرنے کے بعد اُنھوں نے ایک دفعہ پھر گاڑی پر نشانہ بازی کی مشق کی اس نشانہ بازی میں خلیل ، خلیل کی بیو ی اور اُن کی بیٹی اریبہ جاں بحق ہو گئے پھر بچوں کو گاڑی سے نکال کر یہ تسلی کرنے کے لیے ان میں سے کوئی دوبارہ زندہ نہ ہو جائے دوبارہ گاڑی پر فائرنگ کی گئی اگر آپ اریبہ کی میڈیکل رپورٹ پڑھے تو آپ حیران ہو گے کہ اُس کمسن بچی کو اتنے قریب سے اس قدر وحشیانہ انداز میں گولیاں ماری گئی کہ اُس کی پسلیاں ٹوٹ گئی اور جہاں گولیاں لگی اُس کے ارد گرد کی جگہ گولیوں کی تپش کی وجہ سے جلی ہوئی ہے اپنے وحشیانہ جذبے کی تسکین کے بعد زندہ بچ جانے والے تینوں بچوں کو زخمی حالت میں ویرانے میں پھینک دیا گیااس کیس کا انجام بھی ماڈل ٹاؤن واقعہ سے مختلف نہیں ہو گا سالوں سال انکوائری چلے گی پہلے جے آئی ٹی پھر جوڈیشل کمیشن اُس وقت تک لواحقین بھی دھکے کھا کھا کر تنگ آ جائے گے پھر خلیل اور ذیشان کے گھر والوں کو لوگ سمجھائے گے جو ہونا تھا ہو گیا بہتر یہ ہی ہے جو پیسے ملتے ہیں وہ لے لو اور خاموشی اختیار کر لو اس نظام کے تحت یہ ہی کچھ ہو سکتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں صر ف طاقتور حلقوں سے ایک گزارش ہے جو دکھ اور غم ان خاندانوں کو ملنا تھا وہ مل چکا صرف ایک دفعہ آپ لوگ ذیشان کی والدہ کا دکھ بھرا کمیٹی کے سامنے دیا گیا بیان اور مایوسی کے لبادئے میں لپٹی اُن کی آواز سُن لیں اور ایک دفعہ ذیشان کی وہ بچی جس کو یہ بھی نہیں پتا کہ اُس کے اوپر کون سی قیامت گزر چکی ہے اور ہو سکتا ہے اپنی آئندہ کی زندگی اُس کو دہشت گرد کی بیٹی کے لیبل کے ساتھ گزارنی پڑئے گی جس کی وجہ سے ہر روز اُس کی موت واقع ہو گی اُس کے بارئے میں سُو چ لیں اس کے بعد بھی اگر آپ کو لگتا ہے کہ اُن درندوں کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے آپ کو ذیشان کو دہشت گرد ثابت کر نا ہے تو بسم اﷲ۔۔۔۔۔

Raja Waheed Ahmed
About the Author: Raja Waheed Ahmed Read More Articles by Raja Waheed Ahmed: 20 Articles with 13175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.