شیخ صاحب! کس کس کو پکڑیں گے؟

وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے قرضے معاف کروانے والوں کو قومی مجرم قرار دیتے ہوئے بڑھک لگائی ہے کہ حکومت ان سے بہرحال وصولیاں یقینی بنائے گی اور اس سلسلہ کے پہلے مرحلہ میں سو بڑے قرض نادہندگان کے گرد شکنجہ سخت کیا جارہا ہے جو کہ جلد ہی کٹہرے میں ہونگے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی اس بڑھک کو فی الحال ہم نعرہ مستانہ کے سوا کچھ بھی قرار دینے کی پوزیشن میں نہیں کہ قرضوں کی معافی کے حوالے سے موجود اعدادوشمار میں ایسے ایسے پردہ نشینوں کے نام بھی ہیں کہ ان کے خلاف کاروائی موجودہ حکومت یا پھر کم از کم شیخ صاحب کے بس کی بات نہیں۔ پھر بھی ہم ان کی کامیابی کے لئے نہ صرف دعا گو ہیں بلکہ ان کی آسانی کے لئے بڑے نادہندگان کے نام بھی پیش کئے دیتے ہیں لیکن بہت ہی غیر یقینی کے ساتھ کہ ان”بڑوں“ کی جیب سے قومی دولت کا نکالنا جوئے شیر لانے ہی کے مترادف ہے۔ سرکاری اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 1985ءسے 1994ءاور 1999ءسے 2003ءتک 30 بینکوں اور مالیاتی اداروں کے قرضے معاف کرانے والوں میں خود کو”پویتر“ ظاہر کرنے والے ہی سر فہرست ہیں۔

قومی اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود 1985ءسے 1994ء کے دوران معاف کرائے گئے بینک قرضوں کی تفصیل دیکھیں تو سر فہرست شریف برادران ہیں جنہوں نے بارہ سو کروڑ یعنی 12 ارب روپے قرضہ معاف کروا رکھا ہے، چودھری برادران ،350 کروڑ یعنی3 ارب 50 کروڑ روپے، ہمایوں اختر خان 80 کروڑ روپے، سلیم سیف اللہ خان صدر پاکستان مسلم لیگ ہم خیال 200 کروڑ یعنی 2 ارب روپے، ڈاکٹر بشارت الٰہی برادر نسبتی مرحوم صدر جنرل ضیاءالحق و سسر محترم ڈاکٹر انوارالحق و170 کروڑ یعنی ایک ارب70 کروڑ روپے، سینٹر اسلام الدین شیخ 70 کروڑ روپے، مخدوم احمد محمود رہنما پاکستان مسلم لیگ فنکشنل و عزیز پیرپگاڑا 50 کروڑ روپے، مردان علی شاہ پیرپگاڑا صدر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل 20 کروڑ روپے محمد خان جونیجو مرحوم سابق وزیراعظم 40 کروڑ روپے معاف کروا چکے ہیں جبکہ سابق سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان کے خاندان اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام یوسف نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ سندھ کے جتوئی خاندان نے بھی یو بی ایل سے 6.7 ملین روپے قرضہ لیا اور معاف کرایا۔معافی حاصل کرنے والوں میں ڈائریکٹر غفار جتوئی اور ان کے بھائی شامل ہیں جبکہ لغاری خاندان نے بھی یو بی ایل سے 67 ملین روپے معاف کرائے ۔

قرضوں کی معافی کی اس فہرست کے علاوہ ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق پرویز مشر ف کے دور میں 60 ارب روپے کے قرضے معاف کئے گئے۔ قرضے معاف کرانے والوں میں سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان کے بھائی سینیٹر ہارون اختر، وفاقی وزیر میاں منظور احمد وٹو، مسلم لیگ ن کے صوبائی وزیر میاں شجاع الرحمن، مسلم لیگ(ق) سندھ کے لیڈر علیم عادل شیخ، سندھ میں اپوزیشن لیڈر جام مدد علی، احتساب کمیشن کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد اور دیگر کئی سیاستدان، صنعت کار اور کارخانے دار شامل ہیں۔ نیشنل بنک آف پاکستان نے ایک ہزار چھیاسی افراد کے ذمے23514 ملین تقریباً ساڑھے تیس ارب روپے کے قرضے، پاک سعودی انسوسٹمنٹ کمپنی نے 31 افراد کے ذمے 462 ملین تقریباً چھیالیس کروڑ روپے، پاک لیبیا ہولڈنگ کمپنی نے 46 افراد کے ذمے 1394 ملین تقریباً ایک ارب 40 کروڑ روپے فرسٹ وومن بینک نے ایک کروڑ ستر لاکھ روپے زرعی ترقیاتی بینک نے 883 افراد کے ذمے7560 ملین تقریباً سات ارب 56 کروڑ روپے، ایس ایم ای بینک نے 205 افراد کے ذمے 1228 ملین تقریباً ایک ارب 22 کروڑ روپے بینک آف خیبر نے 26 افراد کے ذمے 1126 ملین تقریباً ایک ارب تیرہ کروڑ روپے، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بینک نے 596 افراد کے ذمے 1959 ملین تقریباً ایک ارب 96 کروڑ روپے اور بینک آف پنجاب نے 608 ملین تقریباً ساٹھ کروڑ روپے کے قرضے معاف کئے۔

ایک اور سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 برسوں کے دوران 54 ارب روپے کے قرضے معاف کئے جا چکے ہیں‘ صرف مشرف حکومت کے ابتدائی 3 برسوں کے دوران سرکاری بینکوں سے 8 1ارب کا قرضہ معاف کرانے والوں میں ایک ہزار کے قریب بااثر تاجر اور فوجی حکام بھی شامل ہیں جبکہ موجودہ ”عوامی “ حکومت بھی قرض معافی کے حوالے سے ”فراخدلی“ میں کسی سے پیچھے نہیں اور اب تک کے میسر اعدادوشمار کے مطابق موجودہ حکومت نے بھی اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں 33 ارب روپے کا قرضہ معاف کیا۔ قرضوں کی شکل میں معافی کے اس کھیل میں بااثر صنعتکار، جاگیر دار، سیاستدان اور بیورو کریٹس شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے حوالے سے دیکھیں تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بھی7.23 بلین اور دوسرے میں6.64 بلین روپے کی قومی رقم بنکوں کو کبھی نہ مل سکی۔

روسو نے کہا تھا کہ کسی سماج میں پائے جانے والے تمام مسائل طبقاتی نظام کا شاخسانہ ہیں۔پاکستان کی ساٹھ سالہ تخت حکمرانی کا گہرائی و دانش مندی سے جائزہ لیا جائے تو ایک حقیقت سچائی کے روپ میں ہمارے رہبروں و سیاسی پردھانوں و حکومتی آقاؤں کی بدعنوانیوں پر شرم سے ہمارے سرجھکا دینے کا کام کرتی ہے مگر ہمارے حکمرانوں و سیاستدانوں کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کو سیاسی مخاصمت کا حصہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں، حکومت و اقتدار کا نشہ بڑا عجیب ہوتا ہے،بے پناہ مشکلات ،مصائب، بندشوں کے باوجود ہمارے حکمرانوں و سیاست گرددوں کو اس نشے میں بڑا سرور ملتا ہے اور شائد اسی سرور کے نشے میں فیل بدمست بن کر حکمران طبقہ قومی و عوامی وسائل کو جی بھر کر لوٹتا ہے اور شاید اسی نشے سے سرشار وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ بھی اپنی ”طاقت“ دکھانے کے نعرے لگانے لگے ہیں، اب دیکھنا ہے یہ کہ وہ کس کو پکڑتے ہیں اور کس کو چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان کا پالا شاید اپنے سے بھی زیادہ طاقتوروں سے پڑنے والا ہے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54201 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.