حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی۔۔!!

کینہ ایک ایسا مرض ہے جس میں مبتلا فرد نفسیاتی مسائل کا مسلسل شکار رہتا ہے۔ بد قسمتی سے ہماری صحافتی برادری میں بڑی ایسے مریضوں کی بڑی فراونی پائی جاتی ہے ۔ گزشتہ دنوں ایک خاتون صحافی نے راقم کو اپنے ادارے کے نیوز ایڈیٹر اور سٹی ایڈیٹر کی جانب سے ناروا سلوک کا ذکر کیا ۔ انہیں حراساں کرنے کے عمل پر نہایت افسوس ہوا۔ تاہم میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ کی اس سلسلے میں جو بھی شکایت ہے اپنے ادارے سے وابستہ ذمے داران سے رابطہ کریں ۔خاتون صحافی میری منہ بولی بہن ہیں لیکن دکھ ہوا کہ میں ان کے لئے کچھ نہیں کرسکا۔ مجھے انتہائی افسوس ہوا کہ صحافت جو انتہائی مقدس پیشہ ہے ، اس میں اخلاقیات کا معیار اس قدر گر گیا ہے کہ اب یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ خواتین کی عزت نفس بھی محفوظ نہیں رہے گی۔

خواتین کا اپنے گھر سے باہر نکل کر صحافت جیسے پیشے میں جرات مندی سے کام کرنا قابل قدر و ستائش ہے ۔ ان کی حوصلہ افزائی اور ان کا احترام کرنا چاہیے لیکن اس کے برعکس عمل سے شدید دکھ ہوتی ہے خاص کر کہ کسی صحافی خاتون کے ساتھ ایسا سلوک اور وہ بھی اخباری ادارے میں کیا جائے ۔ ذاتی طور پر کئی ایسے مسائل سے آگاہ رہتا ہوں لیکن لابنگ کی بیماری سے دور رہنے کی وجہ تنازعات میں مداخلت کم ازکم کرتا ہوں ۔اس واقعے کے علاوہ کئی معاملات اور بھی ہیں جن سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ۔ ایسے افراد کو میں خوشامدی ٹولہ سمجھتا ہوں ۔

خوشامدی افراد اپنی اس بیماری میں مبتلا ہو کر دراصل اپنے نفس کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔ اس سے کسی دوسرے کو فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ جو منفی عمل موصوف نے اختیار کیا ہوتا ہے وہ اس کی تربیت کا بتا دیتا ہے کہ اس کی گھر سے اس کے پیشے تک تربیت کس طرح استوار ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں کسی کندھے پر چڑھ کر آگے بڑھنا ، سیاسی کلچر کا حصہ ہے ، لیکن صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس کے تقدس کی قسم(شہادت) تو خود رب کائنات نے دی ہے۔ صحافت میں مسابقت معمول کا حصہ ہے۔ ذاتی طور میں سیکھنے کو ترجیح دیتا ہوں ، سینئر جونیئر کا تصور صرف مدت ملازمت تک ہی لازم سمجھتا ہوں ۔ اس لئے صحافت میں جو جتنی محنت کرے گا ، وہ اتنا ہی کامیاب و قابل احترام ہوگا ۔ لیکن جب شہرت کے حصول کی بیماری میں مبتلا ایسا کوئی شخص خوشامد پسندی کی انتہا پر پہنچ جائے تو مجھے کم ازکم اس کا کوئی علاج نہیں معلوم ۔

کالم ایک اظہاریہ ہے جس میں کالم نویس حالات و واقعات پر اپنا ذاتی تبصرہ کرتا ہے لیکن ادارے کی پالیسی کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ہم معاشرے میں سیاسی ، سماجی اور اخلاقی مسائل پر اصلاح کے لئے اپنے اسلوب کے مطابق لکھتے ہیں کوئی متفق ہوتا ہے کسی کو اختلاف ہوتا ہے۔ یہ اُس کا حق ہے کہ وہ کیا رائے قائم کرتا ہے ۔ لیکن جب کوئی صحافی کسی ادارے میں باقاعدہ وابستہ ہوتا ہے تو یہاں معاملہ جداگانہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اُس وقت بڑا افسوس ہوتا ہے کہ میرٹ کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ اس کی واحد وجہ دل میں بغض ہوتا ہے ۔ میں کوئی معالج تو نہیں کہ کسی کی روحانی یا جسمانی بیماری دور کروں ، بس اس کے لئے اﷲ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ رب کائنات اس کو ہدایت دے۔

میں نے اپنی نصف صدی کی زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں ، کیونکہ زندگی سیکھنے کا عمل ہے اس لئے مسلسل سیکھتا رہتا ہوں ۔ لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ ملکی سیاسی اخلاقی گراؤٹ کا اثر صحافت میں بڑی تیزی سے سریت کرچکا ہے۔یہ بہت خطرناک روش ہے۔ اس کا براہ راست نقصان مستقل لکھنے والے لکھاری پر پڑتا ہے ۔ وہ اپنے ہدف سے ہٹ جاتا ہے کیونکہ وہ جن خصوصی موضاعات پر مکمل توجہ مرکوز رکھتا ہے ۔ اس سے اُس کی دلچسپی ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے جہاں اس کی تخلیقی صلاحیت کو نقصان پہنچتا ہے وہاں اُس کے ادارے پر اثر پڑتا ہے جس کے لئے وہ صحافی محنت کرتا ہے ۔کیونکہ وہ اپنی توجہ دوسری جانب مبذول کرلیتا ہے۔

میں نے تمہید میں ایک اخباری ادارے سے وابستہ خاتون کے ساتھ ناروا سلوک کا ذکر کیا ۔ اب اگر اس خاتون کے ساتھ جس نیوز ایڈیٹر اور سٹی ایڈیٹر نے جو رویہ اختیار کیا اس کی بنی ہوئی ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہوجائے تو اس سے دو افراد کو نہیں بلکہ پورے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا ۔ جو یقینی اچھی بات نہیں ہے۔یہ سوشل میڈیا کا دور ہے ۔آج کا کالم بہت بے دلی کے ساتھ لکھ رہا ہوں ، کیونکہ تواتر کے ساتھ کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ دل بہت افسردہ ہوگیا ہے۔

راقم بہت سارے معالات میں حسن ظن سے کام لیتا رہا ہے اور صحافت کے شعبے سے وابستہ احباب کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ صحافت کو مقدس فرض سمجھ کر ادا کرتے رہو ۔ چونکہ راقم میں بھی انسان ہونے کے تحت خامیاں ہیں اس لئے بشری تقاضوں کی وجہ سے منفی جذبات کا غالب آجانا خارج از امکان نہیں ہے۔ لیکن مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں سفارشی نہیں ، میری تربیت اخلاقی اقدار و صدیوں سے قائم قوم کی وجہ سے بہت مصلحانہ ہے۔ حسن ظن سے کام لیتا ہوں ۔ اس لئے آج کے کالم میں ، اُن احباب سے صرف اتنی گذارش کرونگا کہ کینہ پروری سے گریز کریں یہ آپ کی’’ خودی‘‘ کو مار دے گا ۔ آپ چلتے پھرتے تو نظر آئیں گے لیکن یقین کیجئے کہ صرف مُردہ وجود کے ساتھ سانس لینے والی مخلوق ہونگے ۔

معاشرتی ناہمواریوں کی نشان دہی کرنے والی خواتین سمیت سب کا احترام کیجئے ۔ سب کی عزت کیجئے تاکہ آپ کی عزت کی جا سکے ۔ خوشامدی ٹولہ اپنے مکروہ حرکات سے گریز کرے کیونکہ اس سے کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔ میں کسی بھی ادارے اور فرد کا نام اسی لئے نہیں لکھ رہا تاکہ کسی فرد کے ذاتی عمل سے اُس کے ادارے کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچے اور کسی فرد کے کینہ کی وجہ سے صحافت سے وابستہ دیگر احباب پر عوام کا اعتماد مجروح نہ ہو۔ گو کہ عوام سب جانتے ہیں لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ اصلاح کاروں میں ہمارا شمار ہو۔

علاوہ ازیں میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہے ۔ ایسے زندگی کا اہم جز سمجھ کر انجوائے کیجئے ۔ یہ نصیحت مجھے اپنی تربیت سے ملی ہے ، اپنوں سے ملی ہے ، مخلص دوستوں سے ملی ہے ، اچھے دوستوں کا انتخاب کرنے کا یہی فائدہ ہے کہ ان کی صحبت کئی بڑے مسائل سے بچا لیتی ہیں۔ ایسے احباب جو شخصیت پرستی پر یقین رکھتے ہیں انہیں اُن شخصیات کا انتخاب کرنا چاہیے جن کی زندگی کے تجربات سے سیکھنے کا سمجھنے کا موقع ملے ۔ انسان کے پاس زندگی کے دن ہی کتنے ہوتے ہیں ۔ پھر جس نے زندگی اور موت کو بہت قریب سے دیکھا ہو تو وہ کسی کو یہ بھی کہہ بھی نہیں سکتا کہ کچھ حیا ہوتی ہے، کچھ شرم ہوتی ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 264916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.