عکسِ آغاز ‘ اور انور ظہیر رہبرمیری نظر میں

لمحہ موجود میں افسانہ ادب کی دیگر اصناف میں زیادہ پسند کی جانے والی صنف شمارہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ادب کی بعض اصناف میں تغیر وتبدیلی آئی لیکن مختصر کہانی اور مختصر افسانے سے قاری کی دلچسپی برقرار رہی بلکہ اس نے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ادب دوامی ہے ، اسے زندگی کے کسی موڑ پر زوال ہوا، نہ اِس وقت ہے اور نہ ہی کبھی روبہ زوال ہوگا۔یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ ہم کتاب سے دور ہوگئے ہیں، ہم نے مطالعہ کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیاہے، کتابیں مہنگی اور قوت خرید سے باہر ہوگئیں ہیں، کتابیں چھپنا شاید بند ہوگئیں ہیں، لکھنے والوں نے خدا ناخواستہ قلم کی بساط لپیٹ دی ہیں،یہ وہ باتیں ہیں جوکہی جاتی ہیں۔وقت اور حالات نے افسانہ نگار کو مختصر کہانی اور افسانہ لکھنے اور قاری کو اختصار میں مطالعہ کی لذت سیمٹنے کا عادی بنا دیا ہے ۔ ادب وہی ہے جو زمانے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھے، قاری کی سوچ اور خواہش کی تکمیل کرے اور ایسا ہی ہوا افسانہ نگاروں نے معاشرہ میں بدلتی صورت حال کو محسوس کرتے ہوئے اپنے قاری کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے مختصر افسانہ نگاری پر توجہ دی اور وہ ایسے افسانوں میں روزمرہ کے مسائل ، خوشی و غمی کاا ظہار طویل تحریر کے بجائے مختصر افسانے کے ذریعہ کرنے لگے اور وہ مقبول بھی ہوئے۔ اس عمل سے لمحہ موجود کے افسانہ نگاروں نے اپنے قاری کا دل جیت لیا۔ بات برقی میڈیا ، کمپیوٹر ، انٹر نیٹ اور موبائل کی نہیں بلکہ بے شمار قسم کے حالات نے قاری کو پڑھنے سے دور کردیا ہے ۔ ادب تو ہمیشہ رہنے والی شہ ہے۔ گزشتہ سترسالوں میں کبھی بھی زوال پزیر نہیں رہا۔ البتہ حالات اور واقعات اس پر اثر انداز ہوتے رہے اسی مناسبت سے اس کی رفتار بھی کبھی سست اور کبھی تیز رہی۔اب دیکھئے اپنے وطن سے دور رہتے ہوئے ہمارے ادیب وا دنش ور کس محنت اور جانفشانی سے ادب کی تخلیق ، فروغ اور اشاعت میں مصروف ہیں۔ ان ادیبوں میں ایک نام انور ظہیر رہبر کا بھی ہے۔ شاعر بھی ہیں اور افسانہ نگار بھی۔ مختصر افسانہ نگاری رہبر صاحب کا عرصہ دراز سے محبوب مشغلہ ہے۔ انہوں نے بے شمار افسانے تخلیق کیے جو مقبول ہوئے۔

افسانہ نگار ڈاکٹر شہناز شورو کے مطابق ’’افسانہ ابتداء ہے، افسانہ انتہا ہے ،افسانہ قاتل ہے، افسانہ مقتول ہے، افسانہ بنائے زندگی ، افسانہ بقائے زندگی، افسانہ راز ، افسانہ بے خودی، افسانہ ہوش مندی، افسانہ نگاہ، افسانہ نشتر، افسانہ واردات، افسانہ خلق اور افسانہ خدا ہے‘‘۔افسانہ نگاری کے موجد منشی پریم چند ہیں۔ پھر ایک لمبی بارات ہے افسانہ نگاروں کی جنہوں نے اردو ادب کی اس صنف میں اپنا اپنا حصہ خوبصورتی سے ڈالا۔ یو توبے شمار نام ہیں لیکن کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی، انعام الرحمان سحری، غلام عباس، عصمت چغتائی ، سعادت حسن منٹو، قرۃ العین حیدر، ممتازمفتی ،سہیل عظیم، نیاز فتح پوری، نذر سجاد ظہیر، فرحت اللہ بیگ، ڈپٹی نذیر احمد، ڈاکٹر فہیم اعظمی، جمال ابڑو،انتظار حسین، واجدہ تبسم، مظہر الحق علوی، احمد ندیم قاسمی، اسد محمد خان، مستنصر حسین تارڑ، عبد اللہ حسین، مرزا ادیب، اشفاق احمد، محمد منشایاد، مسعود مفتی ، مجنو گورکھپوری، گلزار، اختر حسین رائے پوری، انیس ناگی، زاہدہ حنا، اقبال الیاس احمد، عشرت معین سیما، ڈاکٹر شہناز شورو، قمر انساء قمر اور دیگر کے علاوہ اب انور ظہیر رہبر بھی اردو کے مختصر افسانہ نگاروں کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز پاچکے ہیں۔

انور ظہیر رہبر کے افسانے عہد حاضر کی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔افسانہ کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ان کی نظر لمح�ۂ موجود کے قاری کے مزاج اور اس کی علمی پیاس پر بھی دکھائی دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں اور اس کے کرداروں کو غیر ضروری طور پر طول دینے سے پرہیز کیا ۔ ان کے افسانوں کی ایک اہم خصوصیت اختصار ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کی زبان آسان اور سادہ، لہجے میں پختگی، الفاظ کا چناؤ اور استعمال عمدہ اور بر وقت ، اس کی نشست و برخاست دل میں اتر جانے والی ہے ، ان کے افسانوں کا پلاٹ دیو مالائی اور کردار مصنوعی نہیں بلکہ ان کی کہانیاں زندگی کے ارد گرد ہونے والے واقعات ، حادثات، رسم و رواج کے گرد گھومتی ہیں جب کہ ان کے کردار معاشرہ میں موجود عام کردار ہیں جو ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دیتے ہیں۔ عام لوگ ان کرداروں پر غور ہی نہیں کرتے لیکن ایک افسانہ نگار عقاب کی نظر رکھتا ہے وہ ان کرداروں کو اپنے افسانوں میں خوبصورتی سے پیش کرتاہے، یہی خصوصیت ’ عکسِ آغاز‘ کے افسانہ نگار میں دکھائی دیتی ہیں ۔ انور ظہیر کے افسانے لمحہ موجود کے حالات ، واقعات، کیفیات، رنج و غم، دکھ سکھ، شدت پسندی، دہشت گردی، جنونیت، مظالم اور مظلوموں کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں ان کے ایک افسانے ’’ہاتھ سے جنت بھی گئی‘‘ میںآجکل کے حالات ور کیفیت کی تصویر کشی عمدہ طریقے سے کی گئی ہے۔دیکھئے چند سطریں۔

’’اس کے چیتھڑے اڑ چکے تھے ، سردھڑسے جدا ہوچکا تھا، عجیب سا دھماکا ہوا تھا بہت زور کی آواز ہوئ تھی، اس کے تن کے خون کا رنگ بھی سیاہ ہوگیا تھا جیسے خون میٖںآکسیجن کی آمیزیش بند ہوگئ ہو، پھر بھی اْسکا جسم کانپ رہا تھا جیسے ابھی کوئ رمق باقی ہو ۔ ہر طرف اندھیرا چھا چکا تھا ایسے میں اْسے لگ رہا تھا جیسے کوئ اْس سے کچھ پوچھ رہا ہو۔
’’ یہ تم نے کیا کیا؟‘‘
’’میں نے ، میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا!!!‘‘
اْس نے اْس انجانی آواز کو جواب دیا۔
’’لیکن پہلے یہ تو بتاؤ تم ہو کون اور تم مجھ سے اس قسم کا سوال کیوں کررہے ہو؟ ‘‘
اْس نے اْس انجانی آواز سے پوچھا۔
’’ میں ، میں تو موت کا فرشتہ ہوں اس لئے تم مجھے بالکل صحیح صحیح جواب دو!!!‘‘
’’کیا تم موت کا فرشتہ ۔۔۔۔۔۔‘‘
ڈر سے اسکا جواب بھی ادھورا ہی رہ گیا۔۔مو ت کے فرشتے نے اپنا سوال پھر سے دہرایا :
’’ ہاں بتاؤ یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے آخران معصوموں کی جان کیوں لی؟کیوں بے قصوروں کو تم نے اس بے دردی سے مار ڈالا، اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بھی جان لے لی، آخر کیوں؟ ‘‘
’’ میں نے۔۔۔ میں نے وہ خوف سے ہکلا رہا تھا۔‘‘ موت کا فرشتہ پھر بولا:
’’ اچھا یہ تم ڈر کیوں رہے ہو؟ ڈرنا تو تم کواْس وقت چاہیے تھا جب تم نے اپنے جسم میں بم باندھا تھا ، اب کیوں؟ اب تو تم مرچکے ہو، اب کیسا ڈرنا؟ ‘‘
’’ میں مر چکا ہوں تو تم مجھ سے اتنے سوال کیوں کررہے ہو؟ مجھے تو میری تنظیم نے بتایا تھا کہ ایسا کرنے سے میں سیدھا جنت میں جاؤں گا، پھر یہ سوال جواب کیوں؟ تم موت کا فرشتہ ہو تو مجھے فوراً جنت میں لے کر چلو۔۔۔‘‘
کرنے کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کافی بڑھ چکی تھی۔ خدا خدا کرکے ایک اسٹیشن آیا اور ڈبے کا دروازہ کھلا تو ایسا لگا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نے ایک دھکا دیا ہے اور باہر کی جانب نکلتی گیس نے کچھ سکون دیا کیونکہ تازہ ہوا کا جھونکا نئی آکسیجن کے ساتھ اندر آیا تھا۔ لیکن گیس کی اس تبدیلی کا وقفہ بہت ہی مختصر تھا۔ پرشکر یہ تھا کہ مسافر بھی کچھ کم ہوئے تھے۔

ایک اور افسانہ ’’لائن نمبر 7‘‘ ان کے ذہن میں موجود کیفیات کی عکاسی کررہاہے۔’’میں بھی ریل گاڑی میں سوار ہو ا ۔ اندر بھی بے انتہا رش تھا۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ میں جگہ بناتا ہوا دروازے کے قریب ہی شیشے کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ لمبے چوڑے مرد عورتیں کھڑے تھے، یہاں کے لوگ ڈیل ڈول میں ذرا قوی ہوتے ہیں ۔ ریل گاڑی اندھیری سرنگ میں دوڑرہی تھی۔ کبھی کبھی شیشے سے دوسری جانب سے آتی ریل گاڑی نظر آجاتی تو پھر کچھ روشنی بھی ساتھ آجاتی۔ اندر کا ماحول سناٹے سے پر تھا۔ لوگوں کے ہاتھوں میں اخبار، رسالے، موبائل ٹیلیفون، آئی پیڈ یا آئی ریڈر تھے اور سبھی اپنی اپنی چیزوں میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ آپس میں بہتّ ہستہ آہستہ باتیں بھی کررہے تھے کہ یہاں زور سے باتیں کرنا غیر اخلاقی مانا جاتا ہے ۔ لوگوں کی زیادتی اور تازہ ہوا اندر نہ ہونے کے باعث کچھ گھٹن سی بھی تھی۔ انسانوں کے سانس خارج کرنے کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کافی بڑھ چکی تھی۔ خدا خدا کرکے ایک اسٹیشن آیا اور ڈبے کا دروازہ کھلا تو ایسا لگا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نے ایک دھکا دیا ہے اور باہر کی جانب نکلتی گیس نے کچھ سکون دیا کیونکہ تازہ ہوا کا جھونکا نئی آکسیجن کے ساتھ اندر آیا تھا۔ لیکن گیس کی اس تبدیلی کا وقفہ بہت ہی مختصر تھا۔ پرشکر یہ تھا کہ مسافر بھی کچھ کم ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد ہی اپنی عادت کے مطابق میں اپنے مشغلے میں گرفتار ہو چکا تھا اورشیشے کی دیوار سے لگے لگے ہی مسافروں کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے میرا یہ مشغلہ بڑا محبوب تھا ۔ مجھے اچھا لگتا ہے لوگوں کے چہروں کو پڑھنا۔ کچھ لوگ اخبار رسالے سے اپنے چہروں کو ڈھانپ رکھتے ہیں تو پھر انکے چہرے کے اتار چڑھاؤ پر نظر نہیں پڑ پاتی۔ تب مجھے بڑی مایوسی ہوتی ہے کیونکہ آدھے ادھورے چہرے مجھے ادھ کھلی کتاب سے لگتے ہیں جسے پڑھنا مشکل سا ہوتا ہے ۔

ایک افسانہ ’’مجازی خدا میں خدا کی تلاش‘‘ میں انور ظہیر رہبر نے وطن سے دور رہنے والے شوہر اور اس کی بیوی کی خواہشات کوخوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔’’سہاگ رات کو گھونگھٹ اٹھا اور جب پہلی بار تم کو دیکھا تو خوشی ہوئی کہ تم نہ صرف اچھی شکل صورت کے تھے بلکہ تم بہت اچھے طریقے سے میرے ساتھ پیش آئے۔ لیکن تم نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ تم مجھے جلد ہی سعودیہ اپنے پاس بلا لوگے لیکن پانچ سال ہوگئے ایسا نہ ہوسکا۔شادی کے پندرہ دن بہت اچھے گزرے اور پھر پندرہ دن بعد تم بہت جلد آنے اور مجھے اپنے ساتھ لے جانے کا وعدہ لیکر عازم سعودیہ ہوگئے۔اب تمھارے گھر میں اپنی ساس اور دو دیوروں کے ساتھ رہنے لگی۔ میری دونوں نندیں شادی شدہ تھیں اور اپنے اپنے گھروں میں رہتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ مجھے بہو ہونے کے ناطے گھر سنبھالنا پڑا۔ میرے گھر سنبھا ل لینے سے سب خوش تھے۔ میری ساس بہت زیادہ۔۔۔تمہارے جانے کے کچھ دن بعد ہی میری طبعیت خراب رہنے لگی۔ متلی ہورہی تھی اور جسم میں کچھ تبدیلی بھی محسوس کررہی تھی۔ ساس بیمار تھیں اور مجبوراً مجھے اپنے ایک دیور کے ساتھ لیڈی ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا جانتے ہو مجھے کتنا برا لگ رہا تھا لیکن کیا کرتی تم تو تھے نہیں اسی کے ساتھ جانا پڑا۔ ڈاکٹر نے خوشخبری سنائی کہ میں حاملہ ہوں لیکن یہ خبر بھی سب سے پہلے تم کو نہ دے سکی کیوں تم وہاں موجود نہیں تھے۔ گھر آکر ساس کو بتایا تو وہ خوشی سے باغ باغ ہورہی تھیں ان کو صبر نہ ہوا اور انھوں نے اٹھا کر تم کو فون کردیا اور جو بات مجھے بتانی چاہیے تھی وہ انھوں نے بتادی۔ پھر تم نے مجھ سے بات کی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اپنا بہت خیال رکھوں۔ بس اتنا ہی تمھارے لیے کافی تھا۔۔۔۔جیسے جیسے مہینے گزر رہے تھے میرے جسم میں تبدیلی آرہی تھی۔ کبھی رات میں تو کبھی دن میں مجھے کوئی خاص چیز کھانے کا من کرتا مگر میں کس سے کہتی تم تو تھے ہی نہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب مجھے کبھی بہت اچھا لگتا تو کبھی بہت غصہ بھی آتا۔ مگر یہ ساری کیفیت کس کو دکھاتی تم جو نہیں تھے۔ میں سوچتی رہتی کہ بیٹا ہوگا کہ بیٹی پھر سوچتی کہ اس کے لیے کیا کیا تیاری کروں۔ لیکن تم ہوتے تو ساتھ ملکر تیاری کرتی نا۔ میں سب کچھ خود کرتی رہی الٹی سیدھی جو کر سکتی تھی۔نو مہینے پورے ہونے کو تھے تم نے کہا تھا کہ ڈلیوری کے وقت تم آجاو گے لیکن بعد میں تم نے بتایا کہ تمھیں چھٹی نہیں مل رہی ہے۔ لیبر روم کے حالات دیکھ کر مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا میری امی میرے ساتھ تھیں۔ لیکن اس وقت مجھے تمھاری ضرورت تھی لیکن تم یہاں بھی نہیں تھے فواد۔شاہد کے دنیا میں آجانے سے اور بہت طرح کی مصروفیت ہو گئی تھیں۔ دن بہت مصروف گزرتا لیکن رات کو جب تھک جاتی اور شاہد سوتا نہیں تو دل چاہتا تھا کہ تم یہاں ہوتے تو کم ازکم اسکو کچھ دیر دیکھ لیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب شاہد تین ماہ کا ہوگیا تو تم پورے ایک سال بعد عید کی چھٹی پر آئے صرف چار ہفتے کے لیے۔ شاہد چھوٹا تھا سارا وقت اسی کے ساتھ گزر جاتا تھا تم بھی اسی کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے تھے۔ چار ہفتے پر لگا کر اڑکر گزر گئے۔ جاتے جاتے ایک بار پھر تم نے اپنا وعدہ دہرایا کہ بس کچھ مزید کاغذات کی ضرورت ہے اسکے بنتے ہی مجھے اور شاہد کو پاس بلا لوگے۔ لیکن یہ وعدہ بھی وعدہ فردا ہی رہا‘‘۔
ایک افسانہ’’میتھی‘‘میں بھی کچھ اسی قسم کی کہانی کو قلم بند کیا،انداز خوبصورت ہے۔
’’تم یہ کیا کررہے ہو ؟"
میں زور سے چیخی۔
" لیکن میری آواز کہیں بند کمرے کی دیواروں میں گم ہوگئی۔ "

بہت ظالم تھا وہ اس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پورے دس مہینے اس کمبخت نے مجھے ایک کمرے میں بند رکھا اور صبح و شام میری عزت سے کھیلتا رہا۔ اس نے مجھے رسی سے باندھ کر میری عزت لوٹی میرے ساتھ بلاتکار کرتا رہا۔ لیکن کوئی بچانے نہیں آیا۔ پورے دس مہینے وہ لیبیا میں میرے ساتھ زیادتی کرتا رہا۔ میری بھی مت ماری گئی تھی جو میں اسکا بھروسہ کر بیٹھی تھی۔ میں نرس ہوں اور اس نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ وہ مجھے سعودی عرب میں نرس کی جاب دلا دے گا۔ میں نے اس پر بھروسہ کیا اور اس نے میرے بھروسے کو خوب روندا۔ میں کیا کرتی وہ میرے محلے میں ہی رہتا تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ میرا پڑوسی ہی میری عزت کا دشمن ہوگا" ۔ اسی طرح افسانہ نگار کے دیگر افسانے جن میں ’ اب تک تھی کہاں....‘، ’لورز بوائے (ایک سچے واقعے سے ماخوذ)‘، ’ 47 کلو میٹر‘، شکنیں ‘، ’پوسٹروالا ‘، ’ہاتھ سے جنت بھی گئی....‘، ’’بے کفن محبت‘، ’منزل‘، ’ سرد خانے میں‘، ’کبھی دل سے تم نکلے ہی نہیں !!‘، ’آوازیں‘، ’مجازی خدا میں خدا کی تلاش‘، ’ وہ شاید میرے جیسا ہی ہو!‘۔ ’3/2 حصہ‘ جیسے افسانوں میں روزمرہ زندگی کی عکاسی نظر آتی ہے۔جرمنی عرصہ دراز سے انور ظہیر رہبر کا وطن ثانی ہے ، وہ یورپ کی رہن سہن ، تہذیب و تمدن ، بود و باس ، سیاست، معاشرت، تہذیب اورادب غرض مغرب کے رنگ ڈنگ سے خوب آگاہ ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر افسانوں میں ان کے وطن ثانی کے حالات کی عکاسی محسوس ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں کہ وہ اپنے وطن کے حالات اور واقعات سے بے خبر ہیں بلکہ پاکستانی حالات اور واقعات پر ان کی گہری نظر ہے۔ یہاں کی تہذیب و ثقافت، حالات و واقعات کو بھی انہوں نے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور خوبصورت انداز میں پیش کیا۔

انور ظہیر نام ، رہبر تخلص کرتے ہیں۔ جامعہ کراچی سے فزکس میں بی ایس سی اور ماسٹر میڈیسن فزکس اپلائیڈ یونیورسٹی برلن ، جرمنی کے علاوہ جرمنی کی عدالت عالیہ سے جرمن، اردو ہندی، پنجابی اور انگریزی زبان کے ترجمان کا ڈپلومہ بھی رکھتے ہیں۔ گویا تعلیم کے اعتبار سے تو سائنٹسٹ ہیں ، لیکن وطن سے دور روز گار کس کو کس جانب لے جائے اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہوتا چنانچہ وہ جرمنی کے محکمہ وزارت داخلہ سے منسلک ہیں، وزارت خارجہ میں شعبہ اردو، تہذب و ثقافت کے انچارج ہیں، ڈائریکٹر ہیں ادارہ ’ایک چھت کے نیچے‘، جہاں مادری زبان اور بڑوں کو جرمن زبان کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ شاعر بھی ہیں ، ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تجھے دیکھتا رہوں ‘‘ بھارت کے شہر کولکاتا جسے ہم کلکتہ کہتے ہیں سے شائع ہوا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’سمندر پہ مکاں ‘ زیر طبع ہے۔ افسانوں کا مجموعہ ’ عکس آغاز‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے جب کہ دوسرا مجموعہ ’’ورق ورق ‘‘ زیر ترتیب ہے ۔ سائنسی موضوعات پر ان کی کئی تصانیف زیر طبع ہیں۔کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ’’سلسلہ‘‘ نے جنوری2018ء کی اشاعت میں انور ظہیر رہبر کا خصوصی گوشہ بھی شائع کیا۔ رہبر صاحب جرمنی اور یورپ کے کئی شہر میں اردو ادب کی روشنی پھیلا نے میں پیش پیش ہیں ۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس نیک کام میں ان کا پورا خاندان ہی مصروف عمل ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اردو ادب کا معروف نام عشرت معین سیما سے کون واقف نہیں وہ رہبر صاحب کی شریک حیات ہیں، سرور غزالی ان کے بھائی ہیں۔جرمنی میں اردو زبان و ادب کے لیے تینوں کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ افسانوں کا یہ مجموعہ اردو ادب میں خوبصورت اضافہ ہے ۔ اللہ کرے زور کرم اور زیادہ۔
14اپریل 2018ء پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
صدر: ہماری ویب رائیٹرز کلب؛
سرپرست: سہ ماہی ’سلسلہ‘ کراچی
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281467 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More