کم عمری کی شادی اوربین الاقوامی اداروں کی رپورٹس

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے آج سترکروڑ سے زائد کم عمری میں شادی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اگر یہ ہی سلسلہ رہا تو دو ہزار تیس تک انکی تعداد پچانوے کروڑ ہو جائے گی،بین الاقوامی ادارے "سیو دا چلڈرن "نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہر سات سیکنڈ میں پندرہ سال سے کم عمر ایک بچی کی شادی ہو جاتی ہے،رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم عمری کی شادی سے کسی لڑکی کی پوری زندگی متاثر ہو سکتی ہے،سیو دا چلڈرن انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹیو ہیلے تھوننگ شمٹ کا کہنا ہے کہ کم عمری میں شادی سے ناموافق صورت حال کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اس سے سیکھنے، نشو و نما پانے اور بچہ رہنے کے لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے،جن لڑکیوں کی بہت جلدی شادی ہو جاتی ہے وہ عام طور پر سکول سے محروم رہ جاتی ہیں اور ان کے ساتھ گھریلو استحصال، تشددجیسے واقعات بھی بڑھنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے رپورٹ میں دنیا کے ممالک کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے، درجہ بندی سکول جانے، کم عمری میں شادی، کم عمری میں حمل، زچگی میں اموات اور پارلیمان میں خواتین کے تحت کی گئی ہے،چاڈ، جمہوریہ وسطی افریقہ، مالی اور صومالیہ ،نائجردرجہ بندی میں سب سے نیچے ہیں،کہا گیا ہے کہ جنگی صورتحال سے دوچار ممالک میں لڑکیوں کے تحفظ کی خاطر کم عمری میں ان کی شادی کر دی جاتی ہے، کئی پناہ گزین خاندان اپنی بچیوں کو غربت اور جنسی استحصال سے بچانے کے لیے بھی ان کی جلدی شادی کر دیتے ہیں۔سانچ کے قارئین کرام ! اب بات ہوجائے وطن عزیز پاکستان کے بارے میں گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اکیس فیصد بچیوں کی کم عمری میں ہی جبری شادی کردی جاتی ہے،کم عمری کی شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ اور ،قبائلی علاقوں میں ہے ، کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گا ؤ ں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ ڈیمو گرافکس آف چائلڈ میرجز ان پاکستان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے رپورٹ کے مطابق سن 2011 سے دس سال کے عرصے میں کم عمری کی جبری شادیوں کا شکار بچیوں کی تعداد چودہ کروڑ ہوگی جبکہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اکیس فیصد کم عمر بچیاں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے کم عمری کی شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ میں ہے جہاں پجھتر فیصد بچیوں اور پچیس فیصد بچوں کی جبری شادی کردی جاتی ہے انفرادی طور پر کم عمری کی شادی کا سب سے زیادہ رجحان قبائلی علاقوں میں ہے جہاں ننانوے فیصد بچیاں کم عمری میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے کی شادی کرنا جو ابھی رضا مندی کا اظہار کرنے کے قابل بھی نہ ہوا ہو، بچوں اور بچیوں دونوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کم عمری کی شادی کا یہ غلط رجحان صرف پاکستان میں ہی موجود نہیں،بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ پچاس لاکھ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر تین میں سے ایک لڑکی کی جبراََکم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں چونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گا ؤ ں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے لہذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔یہ رپورٹ عالمی ادروں کی جانب سے شائع شدہ رپورٹ کی تھی سانچ کے قارئین کرام ! وطن عزیز پاکستان میں سابقہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی رکن پارلیمان ماروی میمن نے سال 2016میں کم عمر کی شادیاں روکنے کے قانون میں ترمیم کے لئے بل جمع کروایا تھا جسے پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کی وجہ بتاتے ہوئے ماروی میمن نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ "اسلامی نظریاتی کونسل نے مجوزہ قانون پر اپنی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی ریاست میں شادی کے لیے کم سے کم عمر مقرر کرنا توہین رسالت کے مترادف ہے"۔اُس وقت مذہبی اْمور کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ اسلامی روایات کے تحت کم عمری کی شادی کو جرم قرار دینا غیر اسلامی ہے کیونکہ اسلامی تاریخ میں کم عمری میں نکاح کی کئی مثالیں موجود ہیں اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل، وزارتِ مذہبی اْمور کے حکام موجود تھے، پاکستان میں "چائلڈ میرج ایکٹ "1929کے مطابق لڑکے کی شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال جبکہ لڑکی کے لیے شادی کی کم سے کم عمر سولہ سال ہے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو ایک ماہ کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ماروی میمن اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے کم عمری میں شادی کے خلاف قانون میں موجود سزائیں سخت بنانے کی تجویز دی تھی تاکہ کم عمر لڑکیوں کی شادی کو کم کیا جائے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کم عمری میں شادی کی وجہ سے زچگی کے دوران اموات کی شرح دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے اورشادی کے لیے لڑکی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال مقرر کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ یہ غیر اسلامی ہے اور یہ توہینِ رسالت کے زمرے میں آتا ہے تو ایسے میں پیچھے ہٹ جانا ہی بہتر ہے کیونکہ پھر بات کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی،جبکہ ترمیمی قانون میں تجویز دی گئی تھی کہ کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی میں ملوث افراد کی سزا کو بڑھا کر دو سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے۔اکتوبر 2017میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے کم عمری کی شادی کا بل منظور کر لیا جس کے مطابق لڑکی کی شادی کی عمر سولہ سال سے بڑھا کر اٹھارہ سال کرنے کی تجویز دی گئی تھی،یہ بل پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران کی طرف سے پیش کیا گیا تھا بل میں کہا گیا تھا کہ کم عمری کی شادی سے نہ صرف بچیوں کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس سے کارو کاری جیسے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اس سے قبل سینیٹر رحمان ملک کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں وزارت مذہبی امور کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی نقطہ نظر سے بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر لڑکی کی شادی کر دی جائے ،قائمہ کمیٹی کی خصوصی دعوت پر بلائے گئے مذہبی سکالر سکالر ڈاکٹر منیر نے کہا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دیتے ، تو پھر ان کی شادی کیوں کر دیتے ہیں کمیٹی میں موجود این جی او کے نمائندہ نے کہا کہ کم عمری کی شادی سے ماں کی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں،وطن عزیز پاکستان کے بعض علاقوں میں کم عمری کی شادی سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات جبری شادی اور بلوغت کی عمر سے پہلے شادی ہے جس کے لیئے قانون کو سخت ترین بنانے کی اشد ضرورت ہے٭٭٭

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 121572 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.