اسٹریٹ کرائمز سے کیسے بچیں

میں کوئی پیشہ ور لکھاری ہوں نہ علم و ادب آشنا، البتہ حال ہی میں تین دفعہ اسٹریٹ کرئمز کا سامنا کرنےجن میں سے ایک کوشش کوباریک فرق سے ناکام بنانے ، اسٹریٹ کرائمز کے کچھ اور متاثرین سے انٹرویو کرنے کے بعد اپنے مشاہدات اس نیت سے قلم بند کرنے کا خیال دل میں ابھر آیا کہ شائد اس سے کوئی مستفیذ ہوسکے۔ اس تحریر میں علم و فضل کی چاشنی ہونے کا امکان نہ تلاش کیا جائے، لفاظی سے خود بھی پرہیز کرنے کا ارادہ ہے۔

وطن عزیز کو قانون شکنوں کی جس فوج کا سامنا ہے اس میں اسٹریٹ کرمنلز کے وہ لاتعداد گروہ بھی شامل ہیں جن کو پورے ملک کے نہتے شہریوں کو بالعموم اور کراچی واسیوں کو بالخصوص روزانہ کی بنیادوں پر خراج دینا پڑ رہا ہے۔ یہ وہ اٹھائی گیرے ہیں جو اچانک نمودار ہوکراپنے شکارپر عقاب کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں، اسے قیمتی متاع یعنی نقدی، گھڑی و موبائیل فون وغیرہ سے محروم کرکے چھلاوے کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ ان سماج دشمنوں میں سے جو زیادہ تجربہ کار اور مضبوط گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ گاڑی / موٹر سائیکل بھی چھین لیتے ہیں۔

اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں اور ان وارداتیوں کو کم سے کم تین اقسام میں بانٹا جاسکتا ہے۔ پہلی قسم میں وہ گروہ شامل ہیں جو گلی محلوں، بازاروں اور مصروف شاہراہوں پر شکار کی تلاش میں منڈلاتے پھرتے ہیں اور جہاں کوئی آسان ہدف ان کی نظروں میں آیا اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ ان کے اہداف عام طور پر دو قسموں کے ہوتے ہیں۔ پہلی میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی وضع قطع سے مالی طور پر آسودہ نظر آتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ ان کی جیب میں قیمتی موبائیل فون، دستی گھڑی، چند ہزار نقد روپے اور دوسری اشیاء ضرور ہونگی۔ یہ اصحاب اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے ایک ایسے وقت و مقام پر موجود ہوتے ہیں جوایسے جرائم پیشہ یا ان کے مخبروں کی دسترس کے قریب ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے اہداف وہ افراد ہوتے ہیں جن کی کار یا موٹر سائیکل دوران سفر خراب یا پنکچر ہوجاتی ہے اور وہ مجبوری کی حالت میں کہیں کھڑے ہوجاتے ہیں، کسی دوست یا مکینک وغیرہ کو فون کرکے مدد کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ جرائم پیشہ ایسے وقت میں کسی بہانے اپنے ہدف کی قریب ہوکر اپنا ہتھیار اسے دکھا کر دھمکاتے ہیں اور اپنی خواہش پوری کرکے اڑن چھو ہوجاتے ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین اکثر اپنے پک اینڈ ڈراپ کیلئے وین سروس حاصل کرتی ہیں ۔ ایسی گاڑیاں سواریوں کو لینے اور چھوڑنے کے دوران کچھ وقت مقررہ مقام پرانتظار بھی کرتی ہیں اور نتیجے میں جرائم پیشہ افراد کیلئے آسان ہدف بن سکتی ہیں۔ کچھ مخصوص علاقوں کے ٹریفک جام بھی ایسے مواقع فراہم کردیتے ہیں جہاں شہری ان جرائم پیشہ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ یہ اچانک کسی گاڑی کے قریب پہنچ کر اپنے ہتھیار کی نمائش کرکے دھمکاتے ہیں اور گاڑی میں محبوس مسافر کے پاس اپنے موبائیل ، نقدی اور دوسری قیمتی اشیاء ان کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔

دوسری اور زیادہ خطرناک قسم کے جرائم پیشہ رہائشی علاقوں ، دفاتر اور کاروباری مراکزکے اطراف اپنے اہداف تلاش کرتے ہیں، اپنے ہدف کا تعین کرلینے کے بعد اس کے آمدورفت کی نگرانی کرتے ہیں اور شکار کی غفلت کے وقت عمل میں آتے ہیں۔ ان سےبچنا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ یہ انتظار کرکےصرف اس وقت اپنے عزائم آشکار کرتے ہیں جب انہیں کامیابی کا سو فیصد یقین ہوتا ہے۔

تیسری طرح کے جرائم پیشہ جو اسٹریٹ کرائمز گروہ میں شامل ہیں یہ غریبوں اور مزدوروں کو نشانہ بنانے کیلئے لمبے روٹ کی پبلک ٹرانسپورٹ میں تین یا چار کی ٹولی میں سوار ہوتے ہیں اور ساری سواریوں سے موبائیل فون و نقدی وغیرہ لوٹ کر اتر جاتے ہیں، متاثرین کوئی بہت زیادہ نقصان نہیں اٹھاتے اس لئے ایسی وارداتوں کی پولیس میں رپورٹس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ شہری ان سے کیسے بچیں؟؟

اسٹریٹ کرائمز اس قدر منظم طریقے سے اور اتنی سرعت سے کئے جاتے ہیں کہ اس کا شکار اور اگر اطراف میں دوسرے شہری موجود ہوں تو ان کے صورتحال کو سمجھنے سے پہلے یہ گروہ اپنی مقصد براری کرچکا ہوتا ہے، لٹنے والے اور دیکھنے والے سکتے کی سی کیفیت میں رہ جاتے ہیں۔ اس قسم کی وارداتوں میں لٹنے والوں سے زیادہ خطرہ لٹیروں کو ہوتا ہے کہ واردات ناکام ہونے اور پکڑے جانے کا خوف ان کو کسی بھی انتہائی رد عمل تک لے جاسکتا ہے لہذا عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ دوران واردات ایسا کوئی بھی عمل یا اشارہ نہ کیا جائے جس سے وہ کوئی غلط فیصلہ کرے۔ البتہ ایسےحفاظتی اقدامات ہر شخص کو ضرور کرنے چاہئیں جس سے کسی کو یہ تاثر نہ جائے کہ آپ آسان ہدف ہیں۔ اس لئےآپ جہاں بھی موجود رہیں اطراف کے لوگوں سے غفلت نہ برتیں۔

چوری شدہ یا چھینی گئی اشیاء، موبائیل فون، لیپ ٹاپ، گھڑیاں وغیرہ چاہے کتنی ہی مہنگی ہوں نہایت ارزاں قیمتوں پر فروخت ہوتی ہیں مگر نقد رقم کی قیمت کم نہیں ہوتی۔ دوسری اشیاء میں کریڈٹ و اے ٹی ایم کارڈز، شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ لٹیروں کے کسی کام کے نہیں ہوتے مگر آپ کو ان کے دوبارہ اجرا کیلئے پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیں، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ جیب میں ضرورت سے زائد نقد رقم نہ رکھی جائے، کریڈٹ و اے ٹی ایم کارڈ ز کا استعمال اگر روازنہ نہیں کرتے تو اسے اپنے ساتھ لئے پھرنا بھی ضروری نہیں ہوتا ، اگر رکھنا ہی ضروری ہو تو بہتر ہے کہ ان کو بٹوے میں نہ رکھیں بلکہ لباس کی دوسری جیبوں میں رکھیں ، شناختی ستاویزات کی بھی جہاں تک ممکن ہو تصدیق شدہ نقول رکھنی چاہئے ہیں۔ اچھے اور مہنگے موبائیل فون رکھنے کا ہرایک کو خبط ہوتا ہے چاہے اس کےسارے فیچرز کی ضرورت نہ ہو، بہتر ہے کہ صرف ایسا سیٹ استعمال کریں جو آپ کی روزمرہ ضروریات پوری کرتا ہو اور اس کی بھی عوامی مقامات پر نمائش سے حتی الامکان بچناخطرے کو کم کردیتا ہے۔

موٹر سائیکل یا گاڑی پنکچر / خراب ہونے کی صورت میں سب سے پہلے اپنی قیمتی اشیاء و موبائیل فون کی حفاظت کو یقینی بنائیں ، پولیس ایمرجنسی پر فون کرکے انہیں اپنے محل و قوع سے آگاہ کریں اورکسی اجنبی سے مدد لینے کے بجائے ان سے مدد کے طالب ہوں، پولیس کی گاڑیاں تقریباَ ہر مصروف شاہراہ پر کچھ فاصلوں سے موجود ہوتی ہیں، وہ آپ کی مدد کرکے حق الخدمت تو ضرور وصول کریں گے مگر یہ بہرحال خطرے کا سامنا کرنے سے بہترانتخاب ہوگا ، وہیں کھڑے ہوکر کسی کا انتظار کرنے سے بہتر ہے کہ کسی قریبی دکان یا ہوٹل چلے جائیں، اگر کوئی میکینک / ورکشاپ وغیرہ قریب سے تو اس سے رابطہ کریں۔

گاڑیاں استعمال کرنے والوں میں یہ چلن عام ہے کہ فیملی کو کار میں چھوڑ کر کسی قریبی دکان یادفتر وغیرہ میں چلے جاتے ہیں اور پیچھے فیملی خطرے میں رہتی ہے، اس مشق سے گریز کرنا چاہئے اور اگر مجبوری ہو تو کار کسی محفوظ و مصروف جگہ پر پارک کرنی چاہئے۔

انسان اپنی رہائش گاہ، دفتر یا کام کے مقام کے قریب پہنچ کر طمانیت محسوس کرتا ہے اور تھوڑا بےفکر ہوجاتا ہے جبکہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں اس کی آمدورفت پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ حال ہی ایک میں سیاسی شخصیت کو اس کی رہائش گاہ کے داخلی دروازے پر قتل کیا گیا تھا۔ اس لئے ہوشیاری اسی میں ہے جب اپنی منزل کے قریب پہنچ جائیں تو اطراف کا اچھی طرح معائنہ کرلیں، کوئی آپ کے پیچھے ہی نہ وہاں پہنچا ہو یا غیر ضروری طور پر قریب موجود ہو تو محتاط رہیں۔ ہاتھ میں تھامے ہوئے لیپ ٹاپ بیگ یا موبائیل اچکنے یا گاڑی چھینے جانے کے واقعات ایسے ہی وقت ہوتے ہیں جب انسان سارے دن کے اپنے کام سے تھکا ہارا گھر کے قریب پہنچتا ہے تو دل میں طمانیت کا احساس ہوتا ہے اور اسی وقت یہ جرائم پیشہ اسے اچانک آگھیرتے ہیں۔ مشکوک افراد کی موجودگی یا تعاقب کے خفیف سے شبہ کی صورت میں اپنے حواس بالکل قابو میں رکھیں، کسی قسم کا کوئی خطرہ مول لیں نہ اپنی منزل پر رکنے کی کوشش کریں۔ آپ کی فوری ضرورت محفوظ مقام پر پہنچنا ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ جرائم پیشہ کا سامنا کرنے بہتر ہے کہ اسے یہ محسوس کرایاجائے کہ وہ آپ کی نظروں میں آگیا ہے یا آپ اس سے محتاط ہوگئے ہیں، نظروں میں آجانے کا خطرہ سونگھ کر وہ دوبارہ آپ کی طرف رخ کرنے کے خطرے کا سامنا کرنے سے گریز کرے گا۔

جرم کسی قانون اور سزا سے کم نہیں ہوسکتا، یہ قانون کے عمل میں آنے کا خوف ہوتا ہے جو جرائم کو روکتا ہے۔ ایسی کوئی واردات اگر آپ کے سامنے ہورہی ہو تویہ آپ کی ذمہ داری سے کہ ایسی وارداتوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں، آج آپ نشانہ نہیں تو مستقبل میں ہوسکتے ہیں۔ عینی شاہدین کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنی حفاظت یقینی بنائیں، موقع واردات پر ٹھہرنے کی ضرورت ہے نہ پولیس کا کردار آپ ادا کرسکیں گے، بہتر ہے وارداتیوں کا حلیہ /گاڑی کا نمبر و دوسری شناختیں اچھی طرح مشاہدے میں لائیں اور فوری طور پر پولیس یا رینجرز کی ہیلپ لائن کومطلع کریں۔ سب سے اہم ہے کے واردات ہونے اور مجرمان کے فرار کے بعد واردات کا شکار شہری کی مدد کی کوشش کریں۔

روزانہ ان گنت ایسے واقعات ہوتے ہیں اگر روز کی بنیاد پرصرف ایک جرائم پیشہ بھی قانون کی گرفت میں آجائے تو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ یہ جرائم مٹ جائیں گے۔

 

Syed Amjad Hussain
About the Author: Syed Amjad Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.