معیشت کے زوال کے اسباب اور علاج

آج کے جدید دور میں سائنس کے عروج کے باوجود دنیا کے مضبوط سے مضبوط ممالک کی معیشت تباہی کے دھانے پر ہے اور دنیا کے بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں اور تباہی و کسمپرسی کی دلدل میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ ہر جگہ بھوک افلاس کا دور دورا ہے غذائی اشیاء کا قحط پڑتا جارہا ہے اور غریبوں کے گھروں میں دو وقت کا چولہا نہیں جل رہا، غذائی قلت کی وجہ سے انسانی اموات کی شرح بڑھتی جارہی ہیں، خودکشیاں عام ہو رہی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ موجودہ نظام معیشت کا محبت، ایثار،اخوت، روحانیت،اخلاقیات سے دور ہونا ہے اور انسان کا دولت کو ہی اپنا مطمع نظر بنانا ہے۔نظام معیشت کو کسی نے حصول دولت کا ذریعہ قرار دے کر نذر انداز کیا تو کسی نے اس کے اخلاقی پہلو کو ترک کر دیا اس وجہ سے موجودہ نظام معیشت چاہے یورپ کی معیشت ہو یا مشرق ومغرب کا نظام معیشت انہوں نے انسانی قدروں کی مطلقاً نفی کر دی، جس میں غربت وافلاس اور بے روزگاری کے ختم کرنے کے بڑے بڑے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن غربت مسکین اور مفلس کو ہمیشہ ہر موڑ پر تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور کسی معیشت کی تباہی کے یہی اسباب ہوتے ہیں۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے دنیا کے ہر شعبے میں انسانیت کی رہنمائی فرمائی اور زندگی کے ہر گوشے کے ساتھ معیشت کے بھی رہنما اور مستحکم اصول عطا فرمائے، جس میں مکمل طور پر افراط وتفریط سے بالا تر ہوکر انسانی مادی ضروریات کو مدنظر رکھا ہے تو دوسری طرف انسانی اقدار، اخلاقیات اور روحانیت کو بھی ملحوظ خاطر رکھا، اور یہ ایک نظام معیشت ہے جو ہر دور میں یکساں مفید رہا اور رہے گا۔ اسی وجہ سے اسلام کے صدر اول سے لے کر تاحال جب بھی جہاں بھی جس جگہ اسلام غالب رہا ہے تو اسلامی معاشرے کے ساتھ ساتھ اسلامی معیشت بھی خوشحالی کا نمونہ کامل رہا ہے۔ اور کیوں نہ ہوتا آپﷺ نے اپنی بعثت سے پہلے ام المومنین حضرت خدیجة الکبریؓ کا مال تجارت امانت کے ساتھ فروخت کر کے اس بات کا دنیا کو پیغام دیا کہ میں ایسے فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھنے والا ہوں اور مدینہ میں ایسی معاشرت اور ریاست کی بنیاد رکھنے والا ہوں جس کی نظیر مشرق و مغرب میں بھی نہیں ملے گی اور تصور امانت پر تمام معاشی اصولوں کی بنیاد رکھتے ہوئے کسی بھی نظام معیشت کے تمام قباحتیں اور لامتناہی زر پرستی، ذخیرہ اندوزی کے نتیجہ میں پیدا ہو نے والی بے چینی ختم کی جا سکتی ہے اور ان سب رذائل کا قلع قمع بھی ہو سکتا ہے۔ اور پھر عدل و احسان، اخوت ، تعاون، مساوات اور اموال حلال کے وہ جامع اصول عطا فرمائے جو زندگی کے ہر شعبے میں خواہ معاشرہ ہو یا سیاست ہویا سیادت ہو فرد کے ساتھ ہو یا پورے معاشرے کے ساتھ لین دین کا معاملہ ہو مسلمانوں کے ساتھ تعلق ہو یا غیر مسلموں کے ساتھ یکساں مفید ہیں اور انہیں معاشیات کے اخلاقی پہلو بھی کہا جا سکتا ہے ”اور جن کے مال میں ایک معلوم حق ہے اس کے لئے جو مانگے اور جو مانگ بھی نہ سکے تو محروم ہے“(القرآن سورة المعارج) کا اصول عطا فرما کر ضرورت مندوں کی طرف توجہ دلا ئی اور ”اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال اور پاکیزہ ہے“ (القرآن سورة البقرہ) سے صرف کسب حلال کی طرف توجہ دلائی اور ”اے ایمان والوں آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ حق نہ کھاؤ“ (القرآن سورة النسائ) سے تمام حرام ذرائع کے راستے مسدود کر کے رکھ دیئے رشوت کی صورت میں غضب کی صورت میں خیانت کی صورت میں چوری کی، ڈاکہ زنی کی صورت میں ناپ تول میں کمی بیشی کرنے کی صورت میں مال کو بے جا تصرف کرنے کی صورت میں اور زکوٰة و صدقات کی طرف ترغیب دے کر بیواؤں، غریبوں ، یتیموں،مسکینوں،فقیروں کی داد رسی فرمائی۔

آج کے موجودہ نظام معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وسائل محدود ہیں اور خواہشات لامحدود ہیں۔ آپﷺ نے اپنے فرمان ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے“ سے انفاق یعنی خرچ کرنے کی ترغیب دلا کر خواہشات کو محدود کر دیا۔ ذرا تصور کیجئے اگر کسی ملک کا نظام معیشت ان ذریں اصولوں پر رکھا جائے تو پھر اس ملک کی معیشت کی ترقی کا کیا عالم ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جس دور میں بھی اسلامی نظام معیشت کو نافذ کیا گیا ہے اس کی معاشی ترقی مثالی رہی ہے۔ اور ظاہر ہی ہے بھلا اﷲ تبارک و تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے مقابلے میں بندوں کے بنائے ہوئے نظام کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ تمام کائنات کے خالق و مالک ہیں جب ایک دنیاوی چیز کے موجد کی ہدایات کی روشنی میں اس کی ایجاد کردہ چیز کو استعمال کیا جاتا ہے اور اگر اس کی بتائی ہوئی ہدایات کے برعکس اس کا استعمال کیا جائے جو اس نے معلوماتی کتابچہ میں درج کی ہوں تو اس چیز کے خراب ہونے کی صورت میں اس کے ذمہ دار صارفین ہوتے ہیں۔ اور اس غلط استعمال پر صارفین موجد یا اس چیز کے بیچنے والے پر کلیم نہیں کر سکتے، دنیاوی چیزوں کی بارے میں یہ اصول ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے لیکن اسی کے تناظر میں جب علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ انسانیت اور کائنات کے خالق اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا اور اہل دنیا کے امن و سکون اور خوشحالی کو اپنے کلام قرآن مجید کے واضح حکم کے مطابق صرف اور صرف دین میں رکھا ہے۔ اور تمام مسائل کا حل اﷲ تبارک و تعالیٰ کے پسند فرمودہ نظام، نظام خلافت میں ہے تو ان علماء کرام پر اور ان کے حامیان پر بنیاد پرستی، گنوار، ترقی کے دشمن کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم دنیا کے بارے میں اتنے سمجھدار اور حساس ہوتے ہیں اور جب دین و مذہب کی بات آتی ہے تو ہم سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود اس پر عمل کر نے سے ہچکچاتے ہیں اور ہماری یہی منافقانہ روش ہی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔

”سود“ ایک ایسی لعنت ہے جو معیشت کے زوال کی بنیاد ہے اور موجودہ پوری دنیا کی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار”سود“ ہے اور اب تو خود نام نہاد ماہرین معیشت نے بھی یہ تسلیم کر لیا ہے کہ نظام معیشت کی بردباری اور ناکامی سود کی کارستانی ہے۔ لیکن پھر بھی دنیا بھر کا نظام معیشت سود پر مبنی ہے اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے۔
کہاں جارہے ہو کدھر دیکھ رہے ہو

اﷲ تبارک و تعالیٰ کے پسند فرمودہ نظام خلافت اور نظام معیشت جب نافذ کیا گیا تو چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پورے ملک میں زکوٰة وصول کرنے والا کوئی نادار اور غریب نہیں تھا۔ لیکن آج اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

اگر ہم واقعی صدق دل سے زوال پذیر معیشت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو اسلام کے ذریں اصولوں پر عمل پیرا ہو کر بہت جلد اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔ ورنہ ہم سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں گے۔
Abdul Hafeez Ameerpuri
About the Author: Abdul Hafeez Ameerpuri Read More Articles by Abdul Hafeez Ameerpuri: 27 Articles with 42620 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.