ریمنڈ ڈیوس کی رہائی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے؟

پاکستان کی سر زمین پر امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے خاک و خون کا کھیل کو ئی نئی بات نہیں ہے کہ ملکی حالات پر گہری نظر رکھنے والے محب وطن دانشور اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتیں امریکی اشاروں پر ہی ہو رہی ہیں اس کیلئے وہ اکثر اوقات مقامی گروپوں اور جرائم پیشہ افراد کو استعمال کرتے ہیں جن کو رقم اور جدید ترین اسلحہ وافر مقدار میں مہیا کر دیتے ہیں۔ عسکری ماہرین کے اس دعوے کا ثبوت ہمیں میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آنیوالی ان رپورٹوں سے بھی ملتا ہے جِن میں سے چند ایک کا ذکر ہم یہاں کیے دیتے ہیں۔

2008ء میں اسلام آباد کے علاقے ایف تھری میں افغان باشندوں کے روپ میں چار امریکی انتہائی حساس عمارتوں کی تصاویر بناتے گرفتار ہوئے جنکی جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی سے آٹو میٹک رائفلیں اور دستی بم بھی برآمد ہوئے لیکن اعلیٰ حکام کی بروقت مداخلت پر ان کو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود''وسیع تر ملکی مفاد''میں رہا کر دیا گیا۔

2009ء میں چار امریکی کالے شیشوں والی گاڑی میں ایک ناکے پر جدید ترین آٹو میٹک اسلحے سمیت گرفتار ہوئے اور انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ ان کا تعلق بلیک واٹر سے ہے لیکن چند ہی گھنٹوں میں امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر انہیں رہا کر دیا گیا ۔

2009ء میں ہی ہالینڈ کے دو ''سفیر'' ایک پرائیویٹ نمبر کی گاڑی میں دو سموک، دو فلیش بموں،دو ہینڈ گرنیڈ،چار میگزین اور چھے بِلٹ پروف جیکٹس سمیت اسلام آباد میں گرفتار ہوئے لیکن یہاں بھی امریکیوں نے انہیں ''اپنے آدمی''قرار دے کر چھڑا لیا۔

5اگست 2009ء کو ایک امریکی سفارتخانے کے اہلکار نے ہمارے ایک پولیس اہلکار پر نہ صرف بندوق تانی بلکہ پاکستان کو گالیاں بھی دیں لیکن یہاں بھی حکومت کی ''مفاہمت'' نے معاملے کو ''بگڑنے''سے بچا لیا۔

25اگست2009ء کو راولپنڈی میں ایف آئی اے نے چار امریکیوں کو اسلحے سمیت گرفتار کیا لیکن مارگلہ پولیس نے بے عزتی کروا کر چھوڑ دیا۔

جنوری2010ء میں گوادر روڈ سے تین امریکی پاکستانی پولیس کے ہتھے چڑھے لیکن ہمیشہ کی طرح یہاں بھی امریکی غنڈوں کو above the lawقرار دے دیا گیا۔

اگرچہ مذکرہ بالا تمام واقعات ہی ایسے ہیں جو بجا طور پر ملکی وقار و سلامتی کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اِن میں سے کوئی ایک واقعہ بھی کسی دوسری ملک میں پیش آتا تو ایک طوفان کھڑا ہو جاتا(فیصل شہزاد کیس ہمارے سامنے ہے )لیکن جمعرات کے روز دو امریکی دہشت گردوں کے ہاتھوں تین معصوم و بے گناہ پاکستانیوں کا سرِعام قتل ایک ایسا دِلدوز واقعہ ہے جس نے ایک عام پاکستانی تک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا پاکستان واقعتاََ امریکی و مغربی بھیڑیوں کی شکارگاہ بن چکا ہے ؟جہاں وہ جب چاہتے ہیں ،جس کو چاہتے ہیں اپنے خونی پنجوں سے چِیر پھاڑ ڈالتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اور قابل غور بات یہ بھی ہے کہ بے گناہ پاکستانیوں کے خونِ ناحق سے ہولی کھیلنے والا ریمنڈ ڈیوس وہی اہلکار ہے جسے اس سے قبل پشاور سے ناپسندیدہ قرار دے کر نکالا گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ملک میں کس کی اجازت سے دندناتا پھر رہا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی پوری دنیا کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں جس کا ایک ثبوت خود امریکی محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ سے بھی ہو تا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال تقریباََ 2500امریکی مختلف جرائم میں گرفتار ہوتے ہیں جن کو متعلقہ ممالک کی عدالتوں کا سامنا کرتے ہوئے سزاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے بلکہ 1860ء سے اب تک چھ واقعات میں امریکیوں کو سزائے موت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس بات سے قطع نظر کہ ریمنڈ ڈیوس کیس کیا صورت اختیار کرتا ہے کہ یہ تو آنیوالے چند دنوں میں واضح ہو ہی جائے گا لیکن اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ہونیوالے کسی بھی فیصلے کے اثرات پاکستان اور خصوصاً پنجاب کیلئے خاصے دور رس ہوں گے جہاں میاں نوازشریف کی پارٹی کی حکومت ہے جِن کے ماتھے پر پہلے ہی ایمل کانسی ڈیرہ غازی خاں سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کرنے کا بدنما داغ ہے۔ اور اب بھی امریکہ نے تمام تر دباﺅ میاں شہباز شریف پر ڈالتے ہوئے ڈیوس کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے بصورتِ دیگر پنجاب میں یو ایس ایڈ کے تحت چلنے تمام پروگرام بند کرنے کی دھمکی دیدی ہے۔ دوسری جانب میاں شہباز شریف کا بیان کافی قابلِ اطمینان ہے کہ '' قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں گے انصاف کا بول بالا ہو گا کوئی خون پاکستانی خون سے قیمتی نہیں ''لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہمارا شیر اپنے اس بیان کی لاج کہاں تک رکھتا ہے۔

دوسری جانب قوم اِس واقعہ کو اس تناظر میں بھی دیکھ رہی ہے کہ قرطبہ چوک میں تین پاکستانیوں کو سرِ عام قتل کرنیوالے امریکی کس طرح قابلِ معافی ہو سکتے ہیں جبکہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بے گناہ ہونے کے باوجود امریکی عدالت نے 86سال کی سزا سنا رکھی ہے اسی امریکی تعصب کے پیشِ نظر عوام کی ایک بڑی تعداد''ریمنڈ ڈیوس کے بدلے عافیہ''کا نعرہ لگاتی بھی نظر آ رہی ہے جس کا اظہار علم دین پارک سے تعلق رکھنے والے ایک مقتول فہیم کے بھا ئی وسیم احمد نے بھی اِن الفاظ میں کیا''عزت اور جان کی قیمت وصول نہیں کی جاتی البتہ اگر امریکہ قوم کی بیٹی عافیہ کو رہا کر دے اور حکومت اسے پاکستان میں آزادی سے زندگی گزارنے کا موقع دے تو ہم بخوشی اس مقدمے سے دستبردار ہو جائیں گے''

اور سب سے اہم بات یہ کہ اس واقعہ کو اسلامی دنیا میں حال ہی میں پیدا ہونیوالی بیداری کی لہر کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے جس کا ایک مظاہرہ ماضی قریب میں تیونس میں دیکھنے میں آیا اور حالیہ دنوں میں مصر میں جاری پر تشدد مظاہروں میں بھی نظر آرہا ہے جہاں ایک طویل عرصہ تک امریکی حمائت یافتہ ڈکٹیٹرز عوام کا خون چوستے رہے اور آخر کار عوام کے ذہنوں میں پکنے والا یہ لاوا پھٹ رہا ہے اور امریکی سامراج کو نیست و نابود کرتے ہوئے امریکہ کے آگے سجدہ ریز بے دام غلاموں کو ببانگِ دہل یہ کہہ رہا ہے کہ
ع اب جس کا جی چاہے پالے روشنی
ہم نے تو دِل جلا کے سرِ عام رکھ دیا

کون نہیں جانتا کہ پاکستان پر اسلام اور عوام کا نام لے کر اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں پر براجمان نام نہاد عوامی خدمتگاروں کی ڈوریاں دراصل کہاں سے ہلائی جاتی ہیں؟ ،بہترین وسائل و افرادی قوت کے باوجود عوام غربت،بیروزگاری اور بدامنی کا شکار کیوں ہیں ؟کس طرح ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کو اقتدار کے ایوانوں سے دور اور چند خاندانوں کو تخت پر بٹھا کر اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کیلئے کٹھ پتلیوں کی طرح نچایا جاتا رہا ہے۔ لہٰذ اب بھی وقت ہے کہ حکمران ہو ش سے کام لیتے ہوئے امریکی کیمپ سے نکلیں اور اپنے قارونی خزانے عوام کیلئے کھول دیں اور اگر فوری طور پر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بدلے قوم کی بیٹی عافیہ کو ہی رہائی دلا دیں ورنہ یاد رکھیں کہ اگر اس موقع پر بھی حکومت نے امریکی غلامی کا ثبوت دیتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس کوامریکی دباﺅ پر'' سفارتی استثنیٰ''دیکر رہا کردیا گیا(یاد رہے ویانا کنونشن میں بھی 39/2 کے تحت یہ استثنیٰ کسی سنگین جرم کی صورت میں خود بخود ختم ہو جاتا ہے ) تو یہ رہائی پاکستانی عوام کیلئے اس انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے جس کیلئے کروڑوں نگاہیں چشم براہ ہیں۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 91443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.