چوری اور سینہ زوری

 ریاستی اداروں کی کارروائیاں تیز ہو نے سے میدان سیاست کی رونقیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان اداروں کی کارروائیوں سے لگ رہا ہے کہ اب شاید ہی کوئی بڑامگر مچھ محفوظ رہ سکے گا لہٰذا متوقع گرفتاریوں کے منظر کے ابھرنے کے پیش نظر ’’ بڑوں ‘‘ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ لوگوں سے رجوع کریں اور عوامی عدالت میں صفائیاں اوردہائیاں دیں کہ وہ کرپشن سے پوری طرح پاک یعنی اوپر سے نیچے تک پوتر ہیں یہ محض انتقام لیا جا رہا ہے۔ اور کچھ بھی نہیں ۔ادھر نیب اور اس جیسے دیگر ریاستی ادارے باقاعدہ شواہد فراہم کر رہے ہیں کہ فلاں سیاستدان نے اتنی رقم خورد برد کی ہے اور فلاں نے اتنے قومی وسائل پرہاتھ صاف کئے ہیں۔گواہان بھی شہادت دے رہے ہیں کہ ایسا ہوا مگر بڑوں کے حمایتی اور بہی خواہ یہ ماننے کو تیار نہیں مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ اب کوئی بھی دولت کا پجاری بچے گا نہیں احتساب کی چھلنی سے گزرے گا اور بتائے گا کہ اس نے کھربوں روپے عوام کے ایسے ہتھیائے لہٰذا عوام کو آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی کیونکہ ہر بد عنوان انہیں گمراہ کرنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کرے گا مگر انہیں گمراہ نہیں ہونا حقائق و شواہد کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے کیونکہ حالات واقعتا ایک نیا رخ اختیار کرنے جا رہے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ اہل اختیار پر ریاستی اداروں نے ہاتھ ڈالا ہے اگرچہ ماضی میں چھوٹے موٹے اقدامات اٹھائے گئے مگر وہ مخصوص مقاصد کے لیے تھے۔ اب جو ہونے جا رہا ہے وہ صرف اور صرف ملکی مفاد کے لیے ہے عوام کی بھلائی و بہتری کے لیے ہے کیونکہ طویل عرصے سے بد عنوانی اور دوسرے بگاڑوں نے معیشت و معاشرت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ زندگی کے مفہوم ہی کو بدل دیا ہے عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ ملک وڈیروں ، سرداروں، جاگیر داروں اور دولت والوں کے لیے وجود میں آیا جو شروع دن سے ان پر مسلط ہیں اور سیاہ و سفید کے مالک ہیں وہ ان کے مزارع اور کمی کمین ہیں…… یہ صورت حال اور یہ سوچ کسی طور بھی ملک کی سا لمیت و بقا کے لیے ٹھیک نہیں لہٰذا اب قانون و عوام کی حکومت قائم کرنے کی طرف قدم بڑھائے گئے ہیں۔ جس سے عوام کو یہ احساس ہوا ہے کہ ان کی کوئی حیثیت ہے ان کے ساتھ ظلم و ستم ہوتا ہے تو ان کی ضرور سنی جائے گی……؟

اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی جابر و با اثر کے ستم ڈھانے پر وڈیو اپ لوڈ ہوتی ہے تو حکومت حرکت میں آجاتی ہے متعلقہ محکمہ فی الفور کارروائی کرتا ہے قبضوں سے متعلق بھی ریاست و حکومت ایک پلیٹ فارم پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ناداروں ، کمزوروں ، بیواؤں اور یتیموں کے مکانات و کانات اور زمینیں اگر کوئی سینہ زور، ان پر قابض ہے یا ہونا چاہتا ہے دھر لیا جاتا ہے مگر یہ سلسلہ ابھی کچھ دیر چلے گا قبضے بھی ہوں گے جو چھڑوائے بھی جائیں گے ۔ جب قانون شکنوں کو یقین ہو جائے گا کہ اب ان کی دال نہیں گلنے والی تو وہ خود بخود اس دھندے سے الگ ہو جائیں گے ۔!

بہر حال آصف زرداری ہوں یا میاں نواز شریف لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا جو ہوا وہ اس سے لا علم ہیں سوال یہ ہے کہ کیا عوام اتنے بیوقوف ہیں کہ ان کا کہنا من و عن تسلیم کر لیں گے۔ ان کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹس آ چکی ہیں۔ ان کے مطابق عدالتوں میں کیس چلیں گے۔ قانون میں کسی سُقم کے باعث کوئی فائدہ اٹھالے تو یہ الگ بات وگرنہ پس زنداں میں جانا ٹھہر گیا۔ تجزیہ نگار اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ رہی بات این آر او کی، شاید ایسا نہ ہو سکے اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آئندہ جب عام انتخابات ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ این آر اووالے دوبارہ ایوانوں میں جا پہنچیں اور پھر وہی طرز سیاست اختیار کرلیں جو ان کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل کی سیاست صاف شفاف اور دیانت دار ہو گی ۔ کمیشن خوری گھپلے اور قومی خزانہ لوٹنے والی نہیں ہو گی کیونکہ اب ملک اس قسم کی وارداتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ قرضوں نے اس کی حالت خراب کر دی ہے آئی ایم ایف کی شرائط مان مان کر عوام کا ستیا ناس کر دیا گیا ہے انہیں دن کو آرام ہے نہ رات کو چین۔ مزید حکومت نے نئے نئے ٹیکس لگا کر ان کی حالت ابتر کر دی ہے یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہو گا کہ عوام کو چھوٹے چھوٹے ریلیف دینے کے لیے حکومت کچھ اقدامات کر سکتی ہے مگر نہیں کر رہی۔ کہ وہ مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کو پکڑ نے میں سست روی کا شکار ہے۔ سڑکوں پر قبضے کر کے کاروبار کرنے والے پہلے کی طرح کسی طاقتور کو ماہانہ دیتے ہیں حکومت کو نہیں لہٰذا وہ مہنگے داموں اشیائے ضروریہ فروخت کرتے ہیں اگر انتظامیہ کا کنٹرول ہو تو یقینا چیزیں کم نرخوں پر دستیاب ہوں گی مگر نہیں ادارے خاموش ہیں……؟

بات ہو رہی تھی آصف زرداری اور نواز شریف کی کہ وہ عوامی اجتماعات میں جا کر خود کو معصوم ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ آصف زرداری نے تو اس مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عام نئے انتخابات قریب ہیں جن میں انہیں کامیابی حاصل ہو گی ۔ اگلی حکومت وہ بنائیں گے……؟

ہو سکتا ہے ’ہماری‘ سیاست کا عجیب چلن ہے ملکی تاریخ بتاتی ہے کہ جو نظر آ رہا ہوتا ہے وہ حقیقت میں ہوتا نہیں لہٰذا ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر یہ بھی ہے کہ اب روایتی سیاست کا دو رگزر گیا کیونکہ وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب نئے دور کے تقاضوں کو ہی پیش نظر رکھا جانے والا ہے۔ پرانے سیاستدان اس ملک کو مالی نقصان پہنچانے کا سبب بنے ہیں لہٰذا آصف زرداری کا نئے انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ درست نہیں اب لوگ ووٹ دیتے وقت بد عنوانی اور ان سے لگاؤ کو مد نظر رکھیں گے۔

لہٰذا اب زندگی جھوم کے نہیں گائے گی۔ ہاں مگر گائے گی ضرور اور یہ احساس غالب رہے گا کہ بہاریں پھر بھی آئیں گی مگر اس وقت کا انتظار کرنا ہو گا ۔ لہٰذا عوام کو جوش دلانے اور انہیں بیوقوف بنانے والی باتیں چھوڑ کر حالات کا مقابلہ کرنا پڑے گا ۔ میاں نواز شریف بھی جلسے جلوسوں میں جانے کی بات کر رہے ہیں اور پر امید ہیں جبکہ الزامات اور ثبوتوں کے ڈھیر در ڈھیر لگتے جا رہے ہیں ان کے خلاف، کس قدد انہیں دولت سمیٹنے کی شدید خواہش تھی مگر کیا فائدہ ہوا ۔ عمربھی بیت گئی اور صحت بھی خراب ہو گئی۔ اس عمر میں سکون و اطمینان کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ صاحبان پیشیاں بھگت رہے ہیں گھروں میں آسائشیں میسر ہونے کے با وجود پریشان ہیں……؟

خیر ریاستی ادارے کافی فعال ہیں اور انہوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اب نرمی کسی سے نہیں برتی جائے گی حکومت میں موجود بد عنوان عناصر کو بھی آنے والے دنوں میں زیر حراست رکھے جانے کا واضح امکان ہے کیونکہ عوامی مطالبہ ہے کہ احتساب حزب اختلاف کا نہیں حزب اقتدار کا بھی ہونا چاہیے بصورت دیگر یہ ’’ وبا‘‘ پھیلتی چلے جائے گی اور ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دے گی بلکہ رکھ دیا ہے معیشت لاغر و کمزور ہے۔ سماجیات بری طرح سے متاثر ہے اور انتظامی ڈھانچہ لرزاں ہے ایک لمحے کو ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں اب بھی قبائلی نظام ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دونوں اطراف کے طمع خوروں اور عیاری و مکاری سے قومی سرمایے پر قبضہ کرنے والوں کو گرفت میں لیا جائے۔ ایسا ہی ہو گا۔ اب استثنیٰ کسی کو نہیں ملے گا۔ عدالت عظمیٰ اس حوالے سے پر عزم ہے۔ اس کی فعالیت سے یہ ثابت بھی ہے کہ اس نے عام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب رہی۔ اب وہ قبضہ گیروں کے خلاف سرگرم عمل ہے جو ملک کا انتہائی اہم اور حساس مسئلہ تصور کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا یہ سیاستدان کچھ بھی کہیں کچھ بھی کر لیں ریاست کو ’’ حیران ‘‘ نہیں کر سکتے انہوں نے اب تک جو کرنا تھا کر چکے آئندہ وہ صرف حساب دیں گے جن کا آغاز ہو چکا ہے ۔ حکومت بھی اس کے ساتھ کھڑی ہے لہٰذا جلد یا بدیر ملک کے معاشی سماجی اور سیاسی حالات بہتر ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ !

Ch Muhammad Altaf Shahid
About the Author: Ch Muhammad Altaf Shahid Read More Articles by Ch Muhammad Altaf Shahid: 27 Articles with 18500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.