لارڈ تھامس بیمنگٹن میکالے کا نظامِ تعلیم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

برصغیر ہند میں انگریزوں کی آمد نے نظام سیاست کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبہ کو بھی متاثر کیا تاہم یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نئی روشنی کے علمبردار اس موضوع پر بھی اپنی رعایا سے وہ بدترین انتقام لیں گے جس کی مثال صدیوں میں بھی نہیں ملے گی۔ بقول ڈاکٹر احسن اقبال، ”انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کر کے یہ لوگ ہمارے اقتدار کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ اس لئے اگر تعلیم کا نظام کیا بھی تو وہ محض عیسائیت کے لئے، ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندوستانی باشندوں کے لئے کوئی نظم نہ تھا“۔ (شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃاللہ علیہ: حیات اور علمی کارنامے، از اقبال حسن خان، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ ۱۹۷۳ء، صفحہ:۳۹)

دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برصغیر ہند میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح امریکہ وغیرہ میں جدید علوم کی درسگاہیں قائم ہوجانے کے بعد ہمیں امریکیوں کو آزادی دینی پڑ گئی تھی اسی طرح برصغیر جو کہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے، اگر ہم نے یہاں پر جدید تعلیمی ادارے قائم کردیئے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول کرنا پڑے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی رائے بدلنی پڑی۔ چنانچہ وائسرائے ہند (۱۸۰۷ء تا ۱۸۱۳ء) لارڈمِنٹو نے اس مقصد کے لئے ایک طویل میمورینڈم کورٹ آف ڈائریکٹر س کو بھیجی کہ علم کا روز بروز زوال ہورہا ہے، اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دروغ حلفی اور جعل سازی کے جرائم بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتربیت پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کیا جائے اور کالج وغیرہ کھولے جائیں۔ آخر بڑی تگ و دو کے بعد ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کے لئے ایک کمیٹی قائم ہوئی۔ جس کی سفارش پر تعلیم دینے کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی سالانہ امداد منظور کی گئی۔ تاہم اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ عیسائی مبلغین کو پہنچا جو برصغیر کو بحیثیت مجموعی عیسائی بنانے کی آرزو رکھتے تھے۔ اس طرح حکومتی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے جہاں انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مثلاً کلکتہ کا اینگلوانڈین کالج (۱۸۱۷ء)، بنارس کا جے نرائن کالج (۱۸۲۱ء) اور آگرہ کالج (۱۸۲۳ء) وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح برصغیر میں پادریوں کی آمد اور عیسائیت کی نشر واشاعت کے لئے گویا سرکاری سرپرستی حاصل ہو گئی۔ ان پادری حضرات نے اہل ہند کے مذاہب پر عموماً اور دین اسلام پر خصوصاً تابڑ توڑ حملے کرکے پورے ملک کو فرقہ وارانہ مناظروں کی آگ میں جھونک دیا۔ جس کے نتیجہ میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃاللہ علیہ، مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃاللہ علیہ، مولانا منصور علی خان رحمۃاللہ علیہ اور ڈاکٹر وزیر خان کی طرح علماء حق نے میدان میں آکر اہل باطل کا مقابلہ کیا اور اسلام کی حقانیت پر عیسائیوں اور ہندوؤں سے فیصلہ کن مناظرے کر کے دنیا کو وہ علمی سرمایہ فراہم کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ دوسری طرف یہ استعماری تعصب اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آیا جب ہندوستانیوں کے لئے ذریعہ تعلیم کا مسئلہ طے کیا جانے لگا اور برصغیر کے مستقبل کے متعلق اس اہم موضوع پر دو مختلف نظریات کے حامل گروہ سامنے آئے۔ ایک وہ جو انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بناکر ایک ایسا نظام تعلیم رائج کرنا چاہتے تھے، جس کی جڑیں اس ملک کے عوام میں نہیں تھی۔ دوسرا وہ جو مشرقی علوم کو برقرار رکھ کر اس میں مغربی سائنس کی پیوندکاری کے حق میں تھا۔ مؤخر الذکر گروہ کے پر جوش حامی جناب پرنسِپ صاحب (سیکریٹری، ایشیاٹک سوسائٹی) تھے جو ایک معتدل سوچ رکھنے والی شخصیت تھے۔ جب کہ اول الذکر گروہ کے سرخیل لارڈ تھامس بیمنگٹن میکالے تھے۔ جو نہ صرف یہ کہ انگریزی علوم کے زبردست حامی اور مؤید تھے بلکہ اس حوالے سے خاصے متعصب بھی تھے اور مشرقی علوم وفنون کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کی اس متعصّبانہ ذہنیت کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے ایک ممورینڈم کی شکل میں ۳ فروری ۱۸۳۵ء کو بیرک پور (کلکتہ) کے مقام پر گورنر جنرل ہند (لارڈ ولیم بینٹنگ) کو پیش کی۔ جس پر مباحثہ کے لئے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس ۷مارچ ۱۸۳۵ء کو منعقد ہوا۔ وہ کہتے ہیں، ”ہمارے پاس ایک رقم (ایک لاکھ روپیہ) ہے۔ جسے سرکار کے حسب ہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم وتربیت پر صرف کیا جاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟ کمیٹی کے پچاس فیصد اراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے۔ باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لئے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہے۔ پھر مغربی تخلیقات ادب کی منفرد عظمت کے کما حقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گفتار ہیں۔ ہمیں ایک ایسی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال انکی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہمیں انہیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگا۔ اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے۔ ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ یہ زبان قوت متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے۔ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل کرتخلیق کیا ہے اور گزشتہ نوّے سال سے بکمال خوبی محفوظ کیا ہے۔ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایہ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سوسال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پر مہیا تھا“ ۔ ذریعہ تعلیم کے سلسلہ میں میکالے نے کہا، ”اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کا اختیار ہے تو پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہوگی کہ اس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیا جاسکے۔ آیا جب ہم یورپئین سائنس کی تدریس کا انتظام کرسکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں جن کے بارے عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ آیا جب ہم پختہ فکر، فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے۔ ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اڑائیں“۔

عربی اور سنسکرت کے بارے میں میکالے کا بیان، ”عربی اور سنسکرت کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور دلیل بھی دی جاتی ہے جو اس سے بھی زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عربی اور سنسکرت وہ زبانیں ہیں جن میں کروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں محفوظ ہیں اور اس لئے یہ زبانیں خصوصی حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔ یقیناً حکومتِ برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام مذہبی مسائل میں روا دار اور غیر جانبدار رہے، لیکن ایک ایسے ادب کی تحصیل کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا جو مسلمہ طور پر معمولی قدر وقیمت کا حامل ہے اور محض اس لئے کہ وہ ادب اہم ترین موضوعات پر غلط ترین معلومات ذہن نشین کراتا ہے۔ جو لوگ ہندوستانیوں کو حلقہ بگوش مسیحیت کرنے کے کام میں مصروف ہیں، ہم ان کی سرکاری طور پر ہمّت افزائی سے اجتناب کر تے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی مجتنب رہیں گے۔ جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو کیا مناسب اور درست ہوگا کہ ہم سرکاری خزانے سے رشوت دے کر لوگوں کو اس امر پر مستعد کریں کہ وہ اپنی جوان نسل کی زندگیاں یہ جاننے میں برباد کر دیں کہ گدھے کو چھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کس طرح پاک کر سکتے ہیں یا وید کے کن کن اشلوکوں کو پڑھنے سے ایک بکرا مار دینے کا کفارہ ادا ہوجاتا ہے“۔

عربی و سنسکرت ذریعہ تعلیم اداروں کی لئے میکالے کی سوچ، ”میں اس نظام ناکارہ کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتاہوں جسے ہم نے ابھی تک سینے سے چمٹا رکھا ہے۔ میں فی الفور عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت روک دوں گا۔ میں کلکتہ کے مدرسہ اور سنسکرت کالج کو ختم کر دوں گا۔ بنارس برہمنی تعلیم کا بڑا مرکز ہے اور دلی عربی تعلیم کا۔ اگر بنارس اور دلّی کے کالجوں کو برقرار رکھنا ہے تو میری کم سے کم یہ سفارش ہوگی کہ ان میں داخلہ لینے والے کسی طالب علم کو وظیفہ نہ دیا جائے“۔

”تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ آخر میں جب اس تجویز پر رائے شماری کا مرحلہ آیا تو اتفاق سے اس کے حامی اور مخالف اراکین کی تعداد برابر برابر تھی اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پار ہا تھا۔ تب لارڈ تھامس بیمنگٹن میکالے نے ہی اس تجویز کے حق میں اپنا ووٹ ڈال کر بزعم خویش برصغیر میں انگریزی زبان کے اجراء کا راستہ ہمیشہ کے لئے ہموار کردیا“ ۔ بالعموم ملک کے روشن خیال طبقہ کی طرف سے اس فیصلہ کی تعریف میں بڑے گن گائے جاتے ہیں کہ موصوف نے اس فیصلہ کے ذریعے دراصل ہندوستان کو آزادی کا پروانہ عطا کیا تھا یعنی اس نظام نے ”علی گڑھ تحریک“ کو جنم دیا اور علی گڑھ تحریک نے پاکستان کو جنم دیا۔ بقول صلاح الدین احمد، ”آج ہم اس مملکت میں ایک باوقار اور آزاد زندگی اس طرح بسر کررہے ہیں گویا یہ ہمارا پیدائشی حق ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ اگر سرسید قومی وحدت اور قومی ہستی کی وہ بنیاد استوار نہ کرتے جس پر تحریک علی گڑھ کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی اور قومی احساس اور روشن خیالی کی وہ شمع روشن نہ کرتے جو آج سے کم وبیش پون صدی پیشتر انہوں نے روشن کی اور ہمیں ملّا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کے صحیح انداز سے روشناس نہ کراتے تو آج ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں“۔ حالانکہ یہ بات بدیہی طور پر غلط ہی نہیں گمراہ کن بھی ہے۔ بلاشبہ قیام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حوالے سے علی گڑھ کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ”آل انڈیا مسلم لیگ“ کا قیام ”مسلم ایجوکیشنل کانفرنس“ کے توسط سے علی گڑھ سے جا ملتا ہے۔ لیکن کیا محض اس وجہ سے علماء ہند اور ان ہزاروں مسلمانوں کی جد وجہد آزادی سے بیک جنبش قلم انکار کردیا جائے جو مسلم لیگ کے شریک سفر نہ تھے یا بالفاظ دیگر علی گڑھ تحریک سے وابستہ نہ تھے۔ جس نے بقول ان کے مسلمانانِ ہند کو ملّا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلاکر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تاریخ نہ تو عدل وانصاف پر مبنی قرار دی جاسکتی ہے اور نہ ہی تحقیقی نکتہ نگاہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ آزادی کی اس تحریک میں ہندو و مسلم سب اقوام نے مل کر حصہ لیا تھا جس میں مسلمانوں کی قربانیاں برصغیر کے باقی مذاہب کے لوگوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ پھر مسلمانوں میں بھی علماء ہند کی جد وجہد آزادی کی ایک طویل تاریخ ہے جس کی دلخراش داستانیں کالاپانی (خلیجِ بنگال) سے لے کر مالٹا (بحیرہ روم) تک کے قیدخانوں سے مرتب کی جاسکتی ہیں۔ جب کہ بدقسمتی سے مسلم لیگ کا دامنِ تاریخ اس قسم کی قربانیوں سے تقریباً خالی ہے۔ رہی موصوف کی یہ بات کہ ”سرسید کی تحریک نے ہمیں ملّا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا ورنہ ہم لوگ ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں“، تو اس کا جواب صرف یہی دیا جاسکتا ہے کہ امت کے نے سلف صالحین کا دامن پکڑتے ہوئے سرسید کی مذہبی تعبیرات کو قطعاً رد کردیا ہے۔ جو بقول مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃاللہ علیہ، ”یہ منزل مذہب کی طرف لے جانے والی نہیں، بلکہ مذہب سے انکار کی ایک نرم اور ملائم صورت ہے“ ۔

اس فیصلہ کی وجہ سے برصغیر کا فارسی خواں طبقہ جو زیادہ تر مسلمان تھا، پس منظر میں چلاگیا اور انگریزی کے نئے مقام کی وجہ سے ایک قسم کا ناخواندہ شمار ہونے لگا، جب کہ ہندوؤں نے اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کے لئے زبردست جد وجہد کی، جس کا اثر سرکاری ملازمتوں کے حصول پر بھی پڑا، جیساکہ بنگال کے ایک آئی سی ایس آفیسر ولیم ولسن ہنٹر نے اپریل ۱۸۷۱ء میں صرف بنگال میں سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کا جو نقشہ پیش کیا ہے، نہایت ہی مایوس کن ہے۔ واضح رہے کہ یہ فہرست صرف ان گزیٹیڈ ملازمتوں کی ہے جن پر ہندو، مسلمان اور انگریز سب فائز ہوسکتے ہیں۔ اس کے مطابق کل ۲۱۱۱ آسامیوں میں یورپئین کی تعداد ۱۳۳۸، ہندو ۶۸۱ اور مسلمان فقط ۹۲ ہیں (”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ از ولیم ولسن ہنٹر، آئی سی ایس آفیسر بنگال، مترجم ڈاکٹر صادق حسین، دفتر اقبال اکیڈیمی، ظفر منزل، تاج پورہ، لاہور ۱۹۴۴ء، صفحہ: ۲۳۴ و ۲۳۵)۔ ہائی کورٹ کے وکلاء کی فہرست جن کا درجہ بیرسٹروں سے ذرا کم ہے اور بھی زیادہ عبرتناک ہے اور یہ وہ شعبہ تھا جو تمام کا تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ ۱۸۵۱ء تک کل دوسو چالیس ہندوستانی داخل کئے گئے جن میں فقط ایک ہی مسلمان تھا۔ ولیم ولسن ہنٹر مزید لکھتے ہیں، ”حقیقت یہ ہے کہ ہمارا طریقہ تعلیم جس نے ہندوؤں کو ان کی صدیوں کی نیند سے جگایا اور ان کے کاہل عوام میں قومیت کے شریفانہ جذبات پیدا کردیئے ہیں، مسلمانوں کی روایات کے بالکل خلاف اور ان کی ضروریات کے بالکل غیر مطابق ہے، بلکہ ان کے مذہب کی تحقیر ہے۔ ہندو اسلامی حکومت میں بھی اپنی قسمت پر ایسے ہی مطمئن تھے جیسے کہ اب ہماری حکومت میں۔ آج کل ترجیح صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو انگریزی زبان جانتا ہو اور ہندو انگریزی خوب سیکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ترجیح اس شخص کو دی جاتی تھی جو فارسی زبان جانتا تھا“۔

سرسید احمد خان نے برصغیر ہند و پاک میں لارڈمیکالے کے نظام تعلیم کو جس دلجمعی اور اخلاص سے متعارف کرانے کی کوشش کی، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جیساکہ آپ لارڈمیکالے صاحب کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، ” ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو مشرقی علوم کی ترقی کے پھندے میں پھنسانا ہندوستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے بلکہ دھوکہ میں ڈالنا ہے۔ ہم لارڈمیکالے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے کہ اس نے اس دھوکہ کی ٹٹی کو اٹھا دیا تھا“ ۔ علی گڑھ کالج کے مقاصد تعلیم، اس ادارے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کچھ یوں بیان کئے گئے ہیں، ”ہم کو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان جو اتحاد ہوا ہے وہ مدت دراز تک قائم رہے گا۔ پس اپنے ہم وطنوں کے دلوں پر ان باتوں کا روشن کرنا اور ان کو اس پر تعلیم دینا کہ وہ ان برکتوں کی قدر شناسی کرسکیں اور زمانہ سلف کے دھوکہ دینے والے خیالات کو باطل کرنا کہ جو ہماری ترقی کے مانع ہوتے ہیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کے لائق و کار آمد رعایا بنانا اور ان کی طبیعتوں میں اس قسم کی خیر خواہی پیدا کرنا جو ایک غیر سلطنت کی غلامانہ اطاعت سے نہیں بلکہ عمدہ گورنمنٹ کی اصلی قدر شناسی سے پیدا ہوتی ہے“ ۔ بدقسمتی سے آج کی طرح اس دور میں بھی مسلمانوں کی تنزلی کا واحد علاج انگریزی کے حصول میں سمجھ لیا گیا تھا۔ بقول شیخ محمد اکرام، ”مسلمانوں کے مصائب اگر تمام تر اقتصادی ہوتے تب بھی ان کا حل آسان نہ تھا لیکن اس زمانے میں انہیں جو نئے مسائل پیش آرہے تھے وہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ اقتصادی اور ذہنی پستی کی اصلاح کے لئے ضروری تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کریں اور وہ اس سے بدکتے تھے“ ۔

علی گڑھ کالج (موجودہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے مسلمانوں کی تعلیم وترقی میں جو نمایاں خدمات انجام دیں اگرچہ ان کی فہرست بڑی طویل ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علامہ شبلی اور حالیؔ کی طرح سرسید کے رفقاء بھی علی گڑھ کالج کے نتائج سے کچھ زیادہ خوش نہ تھے۔ جیساکہ علامہ شبلی رحمۃاللہ علیہ جنہوں نے سرسید کے ساتھ سولہ سال علی گڑھ میں مل کرکام کیا۔ اس کے پست معیار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مولوی محمد سمیع کے نام خط میں لکھتے ہیں، ”معلوم ہوا کہ انگریزی خوان فرقہ نہایت مہمل فرقہ ہے۔ مذہب کو جانے دو، خیالات کی وسعت، سچی آزادی، بلند ہمتی، ترقی کا جوش برائے نام نہیں، یہاں ان چیزوں کا ذکر تک نہیں آتا۔ بس خالی کوٹ پتلونوں کی نمائش گاہ ہے“۔

علی گڑھ نے ہندوستانی طلباء میں انگریزی تعلیم اور تہذیب وثقافت کا وہ صحیح ذوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کا خواب لارڈ میکالے نے دیکھا تھا اور جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرسید مرحوم نے اس ادارہ کی بنیاد رکھی تھی۔ جسے بعد میں آنے والوں نے مزید آگے بڑھایا۔ بقول مشہور ماہر تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم، ”ہمیں اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں کہ ہماری اولاد کافر اٹھے گی، بے دین اٹھے گی، کیا اٹھے گی، ہمیں محض اس چیز سے تعلق ہے کہ جب یہ ہمارا بیٹا کسی انٹرویو میں جائے گا تو انگریزی اس طرح سے بولے گا کہ اب تک انگریز کا جانشین جو کرسی پر موجود ہے، وہ مرعوب ہوجائے گا ۔اس کے علاوہ اور کوئی مقصد ہمارا نہیں ہوتا اور اس کی خاطر ہم اس کے لئے تیار ہیں کہ ہماری اولاد مسلمان نہ رہے “۔

حقیقت یہ ہے کہ گلوبل ویلج کے اس دور میں انگریزی بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے اور ویسے بھی علمی لحاظ سے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور غالباً انہی ضرورتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمارے اکابرین نے شروع ہی سے اس کے سیکھنے کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ جیساکہ سرسید احمدخان کے ہم عصر مولانا عبد الحئی فرنگی محلی ارشاد فرماتے ہیں، ”لغت انگریزی کا پڑھنا یا انگریزی لکھنا، سیکھنا اگر بلحاظ تشبہ ومحبت ہو تو ممنوع ہے اور اگر اس لئے ہو کہ ہم انگریزی میں لکھے ہوئے خطوط پڑھ سکیں اور ان کتابوں کے مضامین سے آگاہ ہوسکیں تو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ مشکوٰةشریف میں ہے کہ حضورﷺ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہود کا خط سیکھنے کے لئے حکم فرمایا اور انہوں نے تھوڑے دنوں میں اسے سیکھ لیا “ ۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃاللہ علیہ کے فتاویٰ میں انگریزی پڑھنے پڑھانے کے جواب میں تحریر ہے، ”انگریزی زبان سیکھنا درست ہے بشرط یہ کہ کوئی معصیت کا مرتکب نہ ہو اور نقصان دین میں اس سے نہ آئے“ ۔ اسی طرح دار العلوم (دیوبند) کی اساسی شخصیت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃاللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ جب انہیں سفر حج کے دوران ایک انگریزی خواں کپتان سے ترجمان کے ذریعہ گفتگو کرنے میں دقت محسوس ہوئی تو آپ نے مصمم ارادہ فرمایا کہ واپس ہونے کے بعد خود انگریزی زبان سیکھوں گا تاکہ اس زبان میں گفتگو پر اچھی طرح قادر ہوسکوں ۔ جب کہ مولانا سید محبوب رضوی نے ان اسباب وعوامل کا تجزیہ کرتے ہوئے بڑے جامع انداز میں لکھا ہے، ”انگریزی تہذیب وکلچر انگریزی تعلیم کے ساتھ لازم وملزوم بن گئے تھے اور انہیں کو ذریعہ ترقی وتہذیب سمجھا جاتا تھا۔ علماء صرف اس چیز کے خلاف تھے“ ۔

برصغیر کے جن مسلم اکابرین نے اس نظریہ تعلیم کو خصوصیت سے ہدف تنقید بنایا ہے ان میں مولانا ابو الکلام آزاد سرفہرست ہیں۔ آپ فرماتے ہیں، ”تاریخ اس طرز تعلیم کے لئے کوئی جواز پیش کرنے سے قاصر ہے، جس کی میکالے نے ڈالی تھی۔ میکالے کی یہ دلیل کہ سنسکرت اور فارسی کو ذریعہ تعلیم نہیں قرار دیا جاسکتا، غلط نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حجت لغو ہے کہ ذریعہ تعلیم صرف انگریزی زبان ہو سکتی ہے“ ۔ آپ نے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی کہ وہ کون سی زبان ہونی چاہئے جسے برصغیر کی اقوام کے لئے ذریعہ تعلیم بنایاجائے۔ تاہم ایک مستند عالم دین اور عبقری شخصیت ہونے کے ناطے ظاہر ہے کہ آپ کی پسندیدہ زبان عربی ہی ہو سکتی ہے۔ جو آپ کی مادری زبان بھی تھی۔ ورنہ کم از کم اردو، جس کے آپ صاحب طرز ادیب تھے۔

علامہ مناظر احسن گیلانی رحمۃاللہ علیہ اسلامی نظامِ تعلیم وتربیت کے فیض و برکات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں، ”اور یہ سلسلہ اس وقت تک باقی رہا جب تک بجائے مشرق کے مغرب سے ایک عجیب تعلیم اور غریب تربیت کا آفتاب طلوع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد تو خیر قیامت ہی برپاہوگئی۔ ہند میں بھی، مصر میں بھی، ترکی میں بھی، ایران میں بھی، حتیٰ کہ اب تو اس کی شعاعیں عرب کو بھی گرمارہی ہیں اور اسلام غریب کا آخری کوہستانی حصار یا پناہ گاہ افغانستان بھی اس کی روشنی نماتاریکی میں بتدریج گھرتاچلا گیا“ ۔
اردو شعراء میں اکبر الٰہ آبادی سے بڑھ کر شاید ہی کسی نے اس نظام تعلیم پر تنقید کی ہو، جیساکہ آپ جدید تعلیم پر براہ راست تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں....
نقص تعلیم سے اب اس کی سمجھ ہی نہ رہی
دل تو بڑھ جاتا تھا اجداد کے افسانے سے
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائے گا تعلیم بدل جانے سے
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ ومسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھاڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا
مسجدیں سنسان ہیں اور کالجوں میں دھوم ہے
مسئلہ قومی ترقی کا مجھے معلوم ہے

شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ نے اسے دین ومروت کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔ جیساکہ آپ ضرب کلیم میں ارشاد فرماتے ہیں....
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
اک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
جب کہ کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا جنہوں نے اکبر الٰہ آبادی پر ”پی ایچ ڈی“ کا تحقیقی مقالہ لکھا ہے کے مطابق، ”آپ کے نزدیک ہندوستان میں انگریزی تعلیم سے لوگوں کو صرف یہ فائدہ ہوا“....
میں کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کرگئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مرگئے

بقول پروفیسر سید محمد سلیم، ”لارڈمیکالے کے نظامِ تعلیم کو اگر تعلیم برائے ملازمت کا عنوان دیا جائے تو غلط نہ ہوگا اور دنیا میں شایدہی کسی نے نظام تعلیم کا مقصد اتنا پست مقرر کررکھا ہو“ ۔

اس بحث کو ختم کرنے سے قبل بابائے اردو مولوی عبد الحق مرحوم کے ایک خطبے کے چند ارشادات پیش خدمت ہیں جو انہوں نے بلوچستان ٹیچر ایسوسی ایشن کے سالانہ جلسہ کے موقع پر دیا تھا، ”انگریزی حکومت میں ہماری تعلیم کا جو ڈول ڈالا گیا تھا، اس کا مقصد ہمیں علم سکھانا نہ تھا بلکہ اس کی تہ میں زیادہ تر سیاسی اغراض تھیں۔ اہل حکومت صاف کہتے تھے کہ ہم مٹھی بھر آدمی ایک ایسے وسیع ملک اور ایسی آبادی میں ہیں جن کی کوئی بات ہم سے نہیں ملتی۔ رنگ وروپ، مذہب واخلاق، رسم ورواج، تہذیب وتمدن غرض ہر چیز میں ہم سے مغائر ہیں۔ ایک قوم کو بہ زور شمشیر فتح کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے مغائرت اور نفرت کم نہیں ہوتی، بڑھتی ہے اس خطرہ سے بچنے کی صرف ایک ہی تدبیر ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ اہل ہند کو فاتح کی تہذیب اور تمدن میں ڈھال لیا جائے اور یہ تہذیبی فتح انگریزی زبان کے ذریعے پوری علم وحکمت کی تعلیم دینے سے ہوسکتی ہے“ ۔
Ansari Muhammad Sahib Alam
About the Author: Ansari Muhammad Sahib Alam Read More Articles by Ansari Muhammad Sahib Alam: 7 Articles with 13853 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.