ٹینکر مافیا بالادست ،شہریوں کو پانی کیوں ملے؟

سینئر جرنلسٹ،بلاگر،سیاحت،اور فوٹو گرافی میں دلچسپی

کراچی میں ٹینکرز ایک روز میں 3ہزار روپے والے 50ہزار ٹرپ لگائیں تو 15 کروڑ یومیہ اور ماہانہ ساڑھے 4ارب روپے آمدنی ہوگی ایسے میں واٹر بورڈ حکام شہریوں کو سپلائی لائن سے پانی کیوں دینگے؟

ہر ہائیڈرنٹ پر ٹینکرز قطار میں پانی بھرتے نظر آتے ہیں جبکہ لوگ بوند بوند کو ترستے رہتے ہیں شہر میں ایک ہزار سے 7 ہزار والے ٹینکر بھی دستیاب ہیں جس کی آمدنی کا حساب تو لگائیے۔

اندازہ لگائیے سرکاری حکام کی سرپرستی میں پانی کی تجارت ہو تو پیسہ قومی خزانے میں جانے کے بجائے واٹر بورڈ حکام اور ٹینکر مالکان کی جیبوں میں جاتا ہے یہی وجہ ہے جو واٹر بورڈ کی آمدنی بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جا رہی ہے قیام سے اب تک کے ریکارڈ سامنے رکھیے سچ سامنے آجائے گا۔

پانی کے منصوبوں پر پیسہ عوام سے ٹیکسوں کی شکل میں لیا جاتا ہے مگر انہیں سپلائی لائن سے پانی فراہم نہیں کیاجاتا جان بوجھ کر علاقوں میں کئی ہفتے یا مہینوں بعد نا کافی پانی فراہم کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ سڑکوں پر نہ نکل آئیں مہنگائی کے مارے لوگ مجبوراً مہنگے ٹینکر خریدنے پر مجبور ہوجا تے ہیں کیونکہ پانی کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے

آدھے سے زیادہ شہر پہلے ہی بورنگ اور کنویں کا پانی استعمال کر رہا ہے اب صورتحال اسقدر خراب ہو چکی ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح مزید گرتی جا رہی ہے واٹر بورڈ کے حکام اور سندھ حکومت کی بے حسی کہیے کہ وہ لوگوں کو بنیادی ضرورت کا پانی بھی فراہم نہیں کرسکتی نہ ہی آئندہ کی منصوبہ بندی کرتی ہے

کیا حکومت کی ذمے داری نہیں کہ وہ مستقبل کے لیے آبی ذخائر بڑھائے دریائے سندھ کا لاکھوں کیوسک پانی ہر سال سمندر برد ہو جاتا ہے اسے کشمور سے کیٹی بندر تک مختلف مقامات پر چھوٹے یا بڑے بیراج بنا کر بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے

دریا کی مٹی سے بند بنا کر بھی پانی کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے مگر ہمارے حکمران کیوں غور کریں انھیں کچے کی زمینوں پر قبضے سے فرصت ملے تو وہ عوام کی بنیادی ضرورت کی فکر کریں ملیر ندی دریائے سندھ کی زمین پر فصلیں کاشت کی جا سکتی ہیں مگر پانی کا ذخیرہ بنانے میں موت پڑ جاتی ہے

افسوس کا مقام ہے اکہتر برس گزر گئے ایوب دور کے بعد کتنی حکومتیں آئیں اندرون سندھ اور کراچی میں پینے کے پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں کسی نے بھی سنجیدگی ما مظاہرہ نہیں کیا جیکب آباد نوابشاہ سمیت مختلف علاقوں میں کھارا پانی ہے میٹھے پانی کےلیے عوام ترستے ہیں

کراچی سے تو کسی نے بھی وفا نہ کی اور معاشی حب کو ترقی یافتہ بنانے کے بجائے پستی میں دھکیل دیا۔ کراچی کے شہری کب تک پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے کیا کوئی انھیں کرپشن سے نجات نہیں دلا سکتا ؟پائپ لائنوں کا رسائو روک کر لاکھوں گیلن پانی ضائع ہونے سے بچا نہیں سکتا ؟

ہر علاقے کو پانی کی فراہمی کاشیڈول مشتہر کیا جانا چاہیے جن مخصوص علاقوں کو مسلسل پانی فراہم کیا جا رہا ہے وہاں وقفہ دے کر قلت آب سے متاثرہ دوسرے علاقوں کی داد رسی کی جانا چاہیے ایسے علاقوں کی نشاندہی کی جائے جہاں برسوں سے پانی کی سپلائی نہیں ہو رہی وجہ تلاش کرکے فراہمی یقینی بنائی جائے

ویب پیج پر آن لائن شکایات کو فوری حل کیا جانا چاہیے وزیر اعلی گورنر کمشنر ڈپٹی کمشنر کے دفاتر میں شکایات سیل بنا کر صرف درخواستیں نہ لی جائیں بلکہ ان شکایات کا نوٹس لے کر حل نکالا جائے ۔ وال مینز سپروائزر چیف انجینئر کو جوابدہ بنایا جائے زیادہ شکایات پر تبادلے کے بجائے ملازمت سے برطرف کر دیا جائے جرمانہ بھی لگایا جائے تاکہ دوسروں کو سبق ملے ۔

Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 5 Articles with 4146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.