بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے: امتحان عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور امت مسلمہ

ہندوستان کے پڑوس میں اسلام کے نام پر وجود پانے والا ملک ایک مدت سے یہود و نصارٰی کی سازشوں کی زد پر ہے- نظام مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کی راہ میں مدتوں سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں- ایک مدت تک یہ ملک قادیانی فتنے سے نبرد آزما رہا- قادیانیت انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا اس لیے قادیانیت کی پشت پر انگریزی منصوبہ بندی تھی- جس کے زیر اثر نظام مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کی تدابیر کو عملی لبادہ زیب ہونے سے روکا گیا-

ایک المیہ:
تحفظ ختم نبوت کے لیے ہر دور میں مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں- پاکستان میں بھی یہی ہوا کہ پیہم سازشوں کے نتیجے میں اہم مناصب پر قادیانی کارندے فائز کروائے گئے- جنھوں نے اپنے اثر و رسوخ کا مکمل فائدہ اٹھایا- 1974 کے تحفظ ناموس رسالت کے لیے تشکیل شدہ قانون کو ختم کرانے یا اس کی دفعات کو کم زور کرنے کے لیے اب تک مسلسل کوششیں ہوئیں- حتی' کہ قادیانی مفادات کی خاطر عاشقانِ رسول کو شہادت کی منزل سے سرفراز ہونا پڑا-

سلمان تاثیر جیسے شاتم نے ناموسِ رسالت کی محافظت کے قانون کو کالا قانون سے تعبیر کیا- اور جرات بے جا کی- جس پر بجائے اس پر قانونی کارروائی کرنے کے، اس کا دفاع کیا گیا- نتیجے میں ایک مرد حق آگاہ غازی ممتاز قادری نے دیوانگی کا مظاہرہ کیا- اور فرزانوں کو شکست دی- سلمان تاثیر کو وادی موت میں کیا پہنچایا کہ مغربی ممالک میں بھونچال آ گیا- اسلام کو تشدد سے منتسب کیا گیا- گستاخی کی تائید کی گئی- حکمران پاکستان نے مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے غازی ممتاز قادری کو فی الفور سولی کی نذر کر دیا- یہ حقیقت میں امریکہ کی رضا کی خاطر ہوا- آقایان مغرب کے ایما پر قانون تحفظ ناموس رسالت پر مسلسل ضرب لگائی جاتی رہی- آسیہ ملعونہ جو اہانت کی مرتکب تھی اس کی بھی پشت پناہی مغرب نواز پاک حکومت نے کی-

محافظین ناموسِ رسالت:
ان ناگفتہ بہ حالات میں پر امن تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہوا- دین کے شیدائی سر سے کفن باندھ کر نکلے- امن کے داعی تھے- تشدد سے کوسوں دور اور ناموسِ رسالت کے لیے فداکارانہ جذبات سے سرشار- نتیجہ یہ ہوا کہ قادیانیت نواز و صہیونی فکر کے حامل حکمرانوں کی نیندیں اڑ گئیں- انھیں علامہ خادم حسین رضوی و ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کا وجود کھٹکنے لگا-

حال کا منظر نامہ:
1- تحفظ ناموس رسالت کے لیے مختص قانون میں ترمیم کی کئی بار کوشش کی گئی- تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بروقت آواز بلند کی- قربانیوں سے دریغ نہ کیا-
2- ناموس رسالت کے تحفظ کے قانون پر عمل درآمد سے مسلسل گریز کیا گیا- کورٹوں میں شاتمین سے متعلق فیصلوں کو قصداً موخر کیا گیا یا پھر ان کے کیسز میں نرمی برتی گئی-
3- انھیں رہائی دلا کر امریکہ کو خوش کرنے کے جتن کیے گیے. عاشقانِ رسول کے لیے پھانسی کی سزا اور گستاخ کے لیے رہائی و اکرام!، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
4- مسلسل حملوں سے متاثر تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوں ہی عملی میدان میں قدم رکھا- لبرل اور آزاد خیال امریکہ کے فکری غلام ارباب سیاست دہل گئے- امریکہ پریشان ہو اٹھا کہ جس ملک میں نصف صدی سے زیادہ مدت تک اسلامی تعلیمات کا نفاذ نہ ہونے دیا گیا وہاں کہیں مسلمان کامیاب ہو گئے تو صہیونی پالیسی کا کیا ہوگا-
5- تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کرنے کے لیے تمام حربے آزمائے جا رہے ہیں- اس کے قائدین کو زنداں کے حوالے کیا جا رہا ہے- حکومت کے بہی خواہ علما کے ذریعے تحریک کے خلاف ماحول سازی کی کوششیں کی گئیں لیکن عامۃ المسلمین بھی شاید اب بیدار ہو چکی ہے اور اسی لیے تخریبی عناصر ناکام ہیں-
6- بہر کیف اس وقت عالم یہ ہے کہ ڈنمارک و ہالینڈ جیسے اسلام دشمن ملکوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب خاکوں کی اشاعت کے حاملین سے لے کر دنیا بھر میں گستاخ عناصر کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے، دوسری طرف اقتدار کے نشے میں چُور لیڈران امریکہ کی خوشنودی کے لیے اپنی دینی بصیرت قربان کر چکے ہیں- وہ دین کے تحفظ کے تئیں اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں- اور لبرل کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں-

بیداری کی ضرورت:
ہمارے ملک میں بھی شاتمانِ بارگاہِ رسالت کو بھرپور طریقے سے تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے، تسلیمہ نسرین کو پناہ دینے والا ہمارا ملک ہے، ہندوستانی حکومت نے امریکہ کی رضا کی خاطر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا- اس لیے ہمیں چاہیے کہ بیدار رہیں- تحفظ ناموس رسالت کے لیے قربانی کا جذبہ بیدار کریں اس کے لیے اس زمانے میں تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشعل راہ ہے، جس کے قائدین کے مبارک جذبات کو ہم سلام کہتے ہیں-

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 258663 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.