زندگی!!!

زندگی کو سمجھنے کی ایک چھوٹی سی کوشش!

زندگی کی حقیقت اور سچائی کو آج تک کبھی کوئی نہ جان سکا۔ آخر زندگی ہے کیا؟ مقصد کیا ہے اسکا؟ جب بھی انسان سوچنے لگتا کے اچھا فلاں چیز زندگی ہے تو دوسرے ہی پل اس پے ایسا راز افشاں ہو جاتا ہے کے وہ پھر سے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔

ہم نے اکثر اپنے بڑوں کو یہ کہتے سنا ہے کے خوشی اور دکھ نام ہے زندگی کا۔ جب ایک پل خوشی اور دوسرے پل دکھ ملے تو سمجھ لو تم زندہ ہو۔ جب انسان کو کوئی چیز ملتی ہے جسکی اس نے ہمیشہ خواہش کی ہوتی تو وہ خود کو آسمان میں محسوس کرتا ہے جیسے کسی آزاد پرندے کی طرح اڑ رہا ہے۔ وہ اس پل میں اتنا خوش اور مطمئن ہو جاتا ہے کہ اپنے سارے دکھ،غم اور تکالیف بھول جاتا اور بس اس پل کو جینے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان سمجھتا ہی نہیں کے سب کچھ عارضی ہے اور بہت جلد ختم ہو جائے گا۔

اور اسکے متضاد جب اسکو کوئی دکھ پہنچتا ہے تو زندگی سے دور جانے اور موت کی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کے بس زندگی ختم ہو جائے گی اب،اسکی زندگی کا اور زندہ رہنے کا کوئی مقصد ہی نہیں رہا۔انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کے سب ٹھیک ہو جائے گا وقت کے ساتھ ساتھ،وقت بہت بڑا مرہم ہے اور وہ بہت جلد سب بھول جائے گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ صبر آ ہی جاتا ہے۔کوئی بھی دکھ ہمیشہ کا نہیں ہوتا۔

انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کسی کو پا لینے کی ہوتی ہے اور سب سے بڑا دکھ کسی اپنے کو کھو دینے کا۔ یا شاید دکھ خوشی پے بھاری ہے کیونکہ کسی کے چلے جانے کا یقین کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہ یقین کرنا کے اب وہ شخص کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ کسی کو اپنی زندگی میں شامل کر لینا تو بہت آسان کام ہے لیکن کسی کو اپنی زندگی سے جاتے دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کے انسان سب بھول جاتا ہے۔
درحقیقت زندگی میں کیا ہونے والا ہے کبھی کوئی جان نہیں سکتا، یہ ایک بہت غیر متوقع چیز ہے۔ انسان کو پل کی خبر نہیں۔ بس سب کچھ عارضی ہے۔ کب کیا اوجھل ہو جائے گا آنکھوں سے کسی کو نہیں پتا۔ یا ایسے بھی کہا جا سکتا ہے کے زندگی حاصل اور لا حاصل خواہشات کا نام ہے۔ کچھ خواہشات پوری ہو جاتی ہیں اور انسان کے لیے خوشی اور سکون کا باعث بن جاتی ہیں۔ اور دوسری طرف جب کچھ حاصل نہیں ہوتا تو وہی خواہش ایک حسرت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور انسان زندگی بھر اس حسرت کو ایک روگ کی طرح لیے پھرتا رہتا ہے کے کاش یہ ہو جاتا،کاش ایسا ہو جاتا اور کاش ویسا ہو جاتا۔

اصل چیز تو قسمت ہے کبھی انسان کو وہ سب مل جاتا ہے جو اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا اور کبھی کبھی وہ چیز بھی چھین جاتی ہے جسکو وہ اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ انسان ماضی میں رہنے اور اسکی غلطیاں ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے کے سب کچھ اسکی مرضی کے مطابق ہو پر وہ بھول جاتا ہے قدرت کے قوانین کو۔

اس لیے بہتر ہے انسان اپنے حال کو جینے اور مستقبل کو بہتر بنانے میں لگا رہے اور ماضی کو بھول جائے کیوں کہ ماضی کو بھول جانے میں ہی بہتری ہوتی ہے کیوں کہ بعض اوقات یہ ماضی ہی ہوتا ہے جو انسان کو تکلیف میں رکھتا ہے۔ جیسے شاعر نے کیا خوب کہا ہے
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا!!!

انسان کو بس اپنی زندگی صبر شکر سے گزار دینی چاہیے اور خوش رہنا چاہیے!!! بس یہی زندگی ہے!!!

Hira Mumtaz
About the Author: Hira Mumtaz Read More Articles by Hira Mumtaz: 7 Articles with 5865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.