آہ

اُٹھ اُمتِ مُسلّمہ ...اُٹھ... اَب یہ تیری غیرت کا مقام ہے.....
مسجدِ اقصی ٰ کے قریب اسرائیلیوں نے متنازع سُرنگ مکمل کرلی ....
اِسرائیل کی ہٹ دھرمی اور اُمتِ مُسلّمہ کی معنی خیز خاموشی.....؟؟

آہ!آج اُمتِ مُسلّمہ سورة مائدہ کی ۲۸ ویں آیت جس کا ترجمہ یہ ہے کہ” تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ یہود اور مشرکین کو پاؤ گے“جس میں میرے ربِ کائنات اللہ رب العزت نے واضح طور پر اہلِ ایمان کو خبردار کرتے ہوئے بتا دیا ہے کہ یہود اور مشرکین کبھی بھی اہلِ ایمان کے اچھے دوست ثابت نہیں ہوسکتے مگر اِس کے باوجود بھی اُمتِ مُسلّمہ خدا جانے کیوں نہیں اَب تک اِس آیتِ قرآنی کے معنی و مفہوم کو سمجھ نہیں پارہی ہے....؟؟ جبکہ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مسلم اُمہ اپنے وقتی سیاسی اور اقتصادی فوائد کے حصول کے خاطر اُلٹا آنکھ بند کئے اِن ہی یہود اور مشرکین سے دوستانہ مراسم بڑھانے اور خیرسگالی جیسے رابطوں کو قائم کرنے کے لئے مصروفِ عمل دکھائی دیتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اِس کی یہی کوشش آج اِس کی مسلسل تنزلی اور پستی کا باعث بنی ہوئی ہے یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اَب تو کبھی کبھی مسلمانوں کی موجودہ اقتصادی ، سیاسی اور اخلاقی ابتر حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے بڑا افسوس ہوتا ہے اور یہ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ستاون کروڑ ہونے کے باوجود بھی یہ یہودیوں اور مشرکین سے مار کھائے جارہے ہیں مگر پھر بھی اِن کی آنکھ نہیں کُھلتی ہے کہ اَب سنبھل جائیں اور پستی اور اپنے رسوائی سے نکل کر اِن دوست نما یہود اور مشرکین سے ڈٹ کر مقابلہ کریں جنہوں نے اِن کو ہر لحاظ سے تباہ وہ برباد کر کے رکھ دیا ہے ایسے میں ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ آخر مسلمانوں میں ایسی بھی کیا خامی پیدا ہوگئی ہے کہ یہ مٹھی بھر یہودیوں سے اپنا استحصال کرا کر بھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں آج اِسی اُمتِ مُسلّمہ میں سے وہ مسلمان کہاں چلے گئے اور اِن کی وہ غیرت کہاں چلی گئی جو اپنا سب کچھ لُٹا کر بھی یہود اور مشرکین سے مصالحت کو تیار نہیں رہے اور جو اپنا ہر بڑے سے بڑا نقصان برداشت کر کے بھی اپنی آخری سانسوں تک احکام شریعت پر قائم رہے اور دنیا میں امر ہوگئے اور آج ایک ہم ہیں کہ یہود اور مشرکین کے ہی چھوڑے ہوئے شوشہ روشن خیالی کی بنیاد پر اِنہیں گلے لگانے کو اپنا کوئی عظیم طُرّہ قرار دے رہے ہیں۔اور فخریہ طور پر یہودیوں اور مشرکین سے اپنے تعلقات کے گُن گاتے نہیں تھک رہے ہیں۔ اِس کوئی شک نہیں کہ ایسا کرنے میں سراسر ہمارا ہی گھاٹہ ہے۔ جبکہ ہم یہ بات بھی آج اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہود اور مشرکین ہی مسلم ممالک کی معیشت کے بڑے دُشمن ہیں اور اِس حقیقت سے بھی کوئی مسلمان قطعاََ انکار نہیں کرسکتا کہ مسلم ممالک میں آج جتنے بھی معاشی و اقتصادی اور سیاسی بحران پیدا ہو رہے ہیں اِن سب کے پسِ پردہ اِن ہی یہودیوں اور مشرکین کی ہی کارستانیاں کارفرما ہیں اور یہی مسلم اُمہ کو اپنی خفیہ و اعلانیہ مکروفریب اور سازشوں سے تباہی کے دہانے تک پہنچا رہے ہیں اہلِ دانش کا خیال یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی فتنہ دجال پیدا ہوگا تو وہ بھی اِن ہی یہودیوں اور مشرکین میں سے ہوگا۔

جبکہ اُدھر دنیا بھر میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئے آبادی اور اعدادوشمار کے لئے امریکی تھک ٹینک، پیوفورم آن رلیجن اینڈ پبلک لائف اور محقیقین کے مطابق جو ایک تازہ ترین رپورٹ سامنے آئی ہے اِس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے یوں مسلمانوں کی اِس قدر تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد یہود و مشرکین کے نزدیک جہاں باعث حیرت ہے تو وہیں یہ رپورٹ اِن کے لئے کے سخت تشویش اور دردِ سر کا بھی باعث بنی ہوئی ہے جس سے متعلق خود اِن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اِس رپورٹ کی تیاری میں مردم شماری رپورٹس، ڈیموگرافک اسٹیڈیز اور دنیا بھر کی آبادی کے عام سروے جیسے پندرہ سو یا اِس بھی زائد ماخذ سے بھرپور استفادہ کیا گیا جس کے بعد بھی اِس رپورٹ کی تیاری میں لگ بھگ کوئی تین برس کا عرصہ لگا ہے اِس لحاظ سے اِن لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِس دوران کم و بیش دوسو بتیس ممالک اور علاقوں سے مردم شماری کی گئی اِس کی روشنی میں مسلمانوں کی آبادی اور اعدادوشمار کے حوالوں سے جو فیگرز سامنے آئی ہیں اِس کے مطابق اِس وقت عیسائیت کے بعد مذہبی اعتبار سے مسلمان جو ایک اللہ، ایک رسولﷺ اور ایک قرآن پر ایمان رکھتے ہیں وہ دنیا بھر میں ایک ارب ستاون کروڑ کی تعداد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں جن کی موجودہ تعداد کا ساٹھ فیصد حصہ بّرِاعظم ایشیا میں ہے اور اِن کی کُل آبادی کی تعداد کا 20فیصد مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رہتا ہے جبکہ اِسی طرح اعدادوشمار کے مطابق اِس وقت جرمنی میں لبنان سے بھی زیادہ مسلمان بستے ہیں اور روس سے متعلق اِس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ روس جیسے ملک کی آبادی میں بھی مسلمان بڑی تعداد میں ہیں یہاں مسلمانوں کی تعداد لیبیا اور ایران کے مسلمانوں کی مجموعی تعداد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

اِسی طرح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی آبادی اور اعدادوشمار جمع کرنے والے ایک انتہائی سنیئر محقیق مسٹر برائن گرم کا یہ کہنا ہے کہ آج نہ صرف اِن کے ہی نزدیک بلکہ دنیا کے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے بھی یقیناً اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کا ہونا حیرانگی اور سخت تشویش کا باعث ہے اِن کا کہنا ہے کہ” مسلمانوں کی کُل تعداد میرے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے اُنہوں نے دنیا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو آگاہ کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ آج دنیا کے جن ممالک میں زیادہ مسلمان آباد ہیں اُن میں انڈونیشیا، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور مصر شامل ہیں اِن کی سیاسی، مذہبی، معاشی و اقتصادی اور اخلاقی معمولات زندگی پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے یہاں میرا خیال ہے کہ اِس کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہر لحاظ سے خود کو سنبھالنا ہوگا تاکہ یہودومشرکین کی کس نئی ساز ش کا اثر اِن پر نہ ہونے پائے جبکہ اُدھر اِس حوالے سے ایک حالیہ شائع ہونے والی رپورٹ میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ ایتھوپیا اور افغانستان میں مسلمانوں کی تعداد قریباَ َبرابر ہے جس میں یہ بھی تحریر ہے کہ 3سو ملین مسلمان اِن ممالک میں رہتے ہیں جہاں اسلام اکثریتی مذہب نہیں ہے پرنٹس یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر امانی جمال نے ایک موقع پر دنیا پر یہ واضح کیا ہے کہ ”یہ خیال کہ مسلمان عرب ہیں یا عرب ہی مسلمان ہیں یہ یکدم غلط مفروضہ ہے “۔اور اِس کے ساتھ ہی اِس رپورٹ میں دنیا کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی کُل آبادی سے 87 سے90فیصد مسلمان سُنی العقیدہ ہیں جبکہ صرف 10سے 13فیصد شیعہ العقیدہ مسلمان ہیں جن میں سے بھی زیادہ تر ایران، عراق، پاکستان اور بھارت میں رہائش پذیر ہیں جبکہ بّرِاعظم یورپ میں تین کروڑ اڑتیس لاکھ مسلمان آباد ہیں جو کہ یورپ کی کُل آبادی کا صرف 5فیصد ہیں جبکہ اِسی طرح برّاعظم امریکہ میں رہنے والے 46لاکھ مسلمانوں میں نصف سے زائد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں رہتے ہیں تاہم اِن سے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔اِن اعدادوشمار کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا دُرست ہوگا کہ دنیا میں مسلمانوں نے کسی اور میدان میں ترقی کی ہو یا نہ کی ہو مگر تیزی سے اپنی آبادی بڑھانے کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے وہ نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ لائق تحسین وافتخار بھی ہے کہ آج یہود و مشرکین کو اِن کی بڑھتی ہوئی آبادی سے ہی پریشانی لاحق ہوگئی ہے اور اِن پر لرزہ طاری ہے مگر اَب بھی ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مسلمان اپنی آبادی بڑھانے کے ساتھ ساتھ یہودو مشرکین سے اپنا وہ تعلیمی میراث اور ورثہ بھی چھین لیں جس کو اٹھا کر یہ لے گئے تھے اور جس سے اِنہوں نے مسلمانوں کو محروم رکھ کر اِن کو اپنا محکوم بنارکھا ہے ۔

بہرحال! یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دنیا میں اتنی بڑی تعداد رکھنے کے باوجود بھی مسلمان مٹھی بھر اسرائیلی یہودیوں اور مشرکین کے غاصبانہ مظالم سے اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں کو نہیں چھڑا سکے ہیں حد تو یہ ہے کہ فلسطینی عوام غاصب صہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کے قیام 14مئی 1948 کے دن یعنی” یوم نکبہ“ کو ایک بہت بڑی تباہی قرار دیتے ہیں کیونکہ تب سے ہی صہونی ریاست اسرائیل کے کمبختوں نے ہمارے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی زندگی ا جیرن کر رکھی ہے اور آج دنیا بھر کے مسلمان اِن یہودیوں اور مشرکین کے چُنگل سے اپنے مظلوم فلسطینی مسلمان بھائیوں کی جان بخشی کے لئے کچھ کرنے سے بھی قاصر ہیں جبکہ نہ صرف فلسطینیوں کے لئے بلکہ اُمتِ مسلّمہ کے لئے بھی یہ ایک فکر انگیز خبر ہے کہ”اسرائیلی ماہرین آثارِ قدیمہ نے مسجد اقصیٰ کے قریب اُس متنازعہ سُرنگ کی تعمیر مکمل کرلی ہے جس کی تعمیر ایک عرصہ سے جاری تھی جو فلسطینیوں سمیت ساری دنیا کے مسلمانوں کے نزدیک خلاف ِ ضابطہ تھی جس کی تعمیر سے متعلق گزشتہ دنوں اسرائیلی ماہرین آثارِ قدیمہ اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اسرائیلی اینٹکوٹیزاٹھارٹی کے ترجمان کے حوالے سے کہاہے کہ مسجداقصیٰ کے صحن کے جنوب اور پرانے شہر کی مغربی دیوار سے شروع ہونے والی 600میٹر طویل سُرنگ پر تعمیراتی کام اَب مکمل ہوگیا ہے یہ سُرنگ دوسرے قمپل پیرڈ میں شہر کا سیلابی پانی نکالنے کے لئے کثیر رقم سے کھودی گئی تھی تاہم اَب اِس سے گندو غلاظت صاف کر کے دوبارہ استعمال کے قابل بنا دیا گیا ہے جبکہ اِس متنازع سُرنگ کی تعمیر کے خلاف فلسطینیوں نے اپنا احتجاج جاری رکھا ہوا ہے اِن کا واضح مؤقف یہ ہے کہ اِس متنازع سُرنگ کی تعمیر سے مسجدِ اقصیٰ کی بنیادیں کمزور ہوجائیں گی جس سے نہ صرف مسجد اقصیٰ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ اِس سے گزرنے والے سیلابی پانی سے فلسطینیوں کے علاقوں کو بھی ڈوب جانے اور جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہے اِس ساری صُورتِ حال میں اَب ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مسلم اُمہّ کسی مصالحت کا شکار ہوئے بغیر اپنے باہمی اتحاد اور اتفاق سے مسجد اقصیٰ کے قریب سے 600میٹر طویل اِس سُرنگ کو جو اسرائیلی آبادی سے سیلابی پانی گزارنے کے صرف اِس نیت سے بنائی گئی ہے کہ اِس کے استعمال سے مسجدِ اقصیٰ اور فلسطینی مسلمان بھائیوں کی آبادی کو نقصان پہنچے.... تو اَب ضرورت اِس اَمر کی ہے اُمتِ مُسلّمہ اِس کے استعمال سے قبل اِسے روکنے کے لئے دنیا بھر میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرنے اور مسجدِ اقصیٰ کو نقصان سے بچانے کے لئے اسرائیل کے خلاف تحریکیں شروع کرے اور اسرائیلیوں سمیت اِس کے سرپرستوں بالخصوص امریکا اور دنیا بھر میں فساد برپا کرنے کے لئے اسرائیلیوں کے پالنے والے ادارے اقوام متحدہ پر بھی یہ بات زور دے کر کہئے کہ وہ اِس سُرنگ کو بند کرے اور اسرائیلی یہودیوں سے فلسطینیوں کی آبادی خالی کرائے تاکہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے مظالم سے نجات ملے جس نے نصف صدی سے بھی زائد عرصہ سے فلسطینی مسلمانوں کی زندگیاں اپنے انسانیت سُوز مظالم سے اجیران بنا رکھی ہیں۔
وسوسے شیطان نے بخشے دلِ نادان کو
جنگ کی ڈالی بنا بابیل سے قابیل نے
مِلّت اسلام کو اتنا زیاں پہنچا نہ تھا
جتنا پہنچایا ہے نقصاں قومِ اِسرائیل نے

یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی ایک انتہائی ناپاک اور زمین پر فساد برپا کرنے والی وہ صیہونی ریاست ہے جو پاک اور مقدس سرزمین فلسطین پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے جس کی اِس جیسی اور بہت سی گھناو ¿نی حرکتوں کی وجہ سے نہ صرف ہمارے ملک پاکستان ہی نے نہیں بلکہ دنیاکے دوسرے ممالک نے بھی اَب تک اِسے تسلیم نہیں کیا ہے اور اِسی کے ساتھ ہی میرااپنے فلسطینی بھائیوں کی جرا ¿ت اور بہادری پرسلام اور اُمت ِ مسلّم سے یہ کہنا ہے کہ اُٹھ اُمتِ مُسلّمہ اُٹھ یہ اَب تیری غیرت کا مقام ہے دیکھ یہ تونے یہوداور مشرکین سے دوستیاں بڑھا کر اپنے فلسطینی بھائیوں اور مسجدِ اقصی ٰ کو نقصان پہنچانے کا سامان پیداکررکھاہے آخر میں اپنے فسلطینی بھائیوں اور اُمتِ مُسلّمہ کی غیرت کو جگانے کے لئے یہ شعر حاضر خدمت ہے۔
پوچھتے ہیں یہ فلسطیں کے مسلماں یارب
ہم غریبوں کے لئے کوئی مکاں ہے کہ نہیں
عرصہ دہر میں شداد بھی فرعون بھی ہیں
کوئی موسیٰ بھی خداوندِ جہاں ہے کہ نہیں
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 896011 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.