الہدیٰ انٹرنیشنل شکریہ۔۔۔!

کراچی ان گنت سنگین مسائل کی آماجگاہ بن چکا۔ شہر کے دیرینہ مسائل کس طرح اور کب حل ہوں گے۔ اب اس حوالے سے سیاسی پنڈتوں نے بھی ہاتھ جوڑ لیے ہیں کہ جب تک کراچی میں یہ حالات ہیں، ہم سے کسی قسم کی پیش گوئی کی توقع نہ رکھو۔ یہ تو ہمارے لیے بھی بڑا مسئلہ بن گیا کہ اب کیا کریں۔ اُڑتی چڑیا کے پَر گننے والے اب بتارہے ہیں کہ خان صاحب پرندوں کے پَر دو ہی ہوتے ہیں۔ خوامخواہ مخول کیوں کیا کہ ہم تو اُڑتی چڑیا کے پَر بھی گن لیا کرتے ہیں۔ عالمی و ملکی امور پر چاند ماری کرتے کرتے اپنے قرب و جوار سے بھی بے خبر ہونے لگے ہیں۔ لیکن کیا کریں اس معاشرے میں رہنا ہے تو پھر اسی کا فرد بن کر رہنا ہوگا۔ مسائل کی نشان دہی ہی نہیں بلکہ اُن کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔

درحقیقت مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وسائل نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ خصوصاً کچی آبادیوں کا حال نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہوگا۔ خیر اس وقت کراچی کا سب سے سنگین مسئلہ بے روزگاری اور پانی ہے۔ صاف پانی کی فراہمی و حصول کے لیے جو خانہ جنگی ہورہی ہے، اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جو اس کرب سے گزر رہے ہیں۔ آپ کو اس خانہ جنگی میں ہتھیاروں کا استعمال نظر نہیں آرہا، لیکن درحقیقت صاف پانی کے حصول کے لیے جس قدر تکالیف کا سامنا اہل کراچی کو اس وقت ہے، ایسا پُرفتن دور کبھی نہیں دیکھا۔ تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود پانی کی فراہمی کے تمام اعلانات ہوا ہوچکے۔ اس لیے اب بیشتر احباب ایسی فلاحی تنظیموں کی جانب رخ کرنے لگے ہیں جو زیر زمین پانی کے حصول کے لیے بورنگ کا بندوبست کراتی ہیں۔ (لیکن پروسیس میں طویل وقت لگ جاتا ہے)۔ جس کے بعد کھارا پانی بھی اس علاقے کے عوام کے لیے آب حیات سے کم نہیں ہوتا۔

پانی کا بحران اس قدر سنگین ہوچکا کہ اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ راقم نے کراچی کی ایک مضافاتی کچی آبادی میں متعدد باپردہ خواتین اور چھوٹے بچّوں کو پانی کے گیلن اور چھوٹے برتنوں میں پانی لے جاتے دیکھا۔ یہ امر میرے لیے باعث تکلیف تھا، میں جس شعبے (صحافت) سے تعلق رکھتا ہوں تو عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارا ایک فون کرنا ’الٰہ دین کے چراغ‘ کی طرح کام کرجاتا ہے (یہ خیال غلط فہمی پر مشتمل ہے)۔ میں سوچ رہا تھا کہ پہاڑی پر رہنے والے پس ماندہ ترین آبادی کے مکینوں کے لیے کیا کروں۔ اس سوچ میں گم مجھے الہدیٰ انٹرنیشنل کا حوالہ یاد آیا، جو ’تھر‘ میں فلاحی کاموں میں مصروف ہے۔
 
میں نے فوراً ای میل پر اُن باپردہ خواتین، بچّوں اور ضعیف افراد کی تصاویر کے ساتھ ایک درخواست بھیج دی۔ الہدیٰ انٹرنیشنل کی جانب سے فوراً جواب آیا اور طریق کار بتاکر مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرادی۔ یہ فلاحی ادارہ خود خواتین چلاتی اور تمام مرکزی انتظام و انصرام خواتین خود ہی دیکھتی ہیں۔ (فیلڈورک و بھاگ دوڑ کے لیے مردوں کو رکھا ہوا ہے)۔ جنہوں نے مجھے جوابی ای میل کی، وہ الہدیٰ انٹرنیشنل کی کوآرڈی نیٹر ہیں۔ میں نے ادارے کے قواعد کے مطابق انہیں واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے ہی تین علاقوں کے مکینوں سے درخواست لے کر دوبارہ ای میل کردی۔ الحمدﷲ فوری طور پر ان کے آپریشن منیجر نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ہمیں وہ جگہوں کا سروے کرادیں، جہاں کی تفصیلات آپ نے الہدیٰ انٹرنیشنل کو بھیجی تھیں۔

خدشہ تھا کہ پہاڑی پر رہنے والوں کے لیے کہیں معذرت نہ کردیں۔ کیونکہ عموماً پانی کے حصول کے لیے بورنگ 150سے 250فٹ کی جاتی ہے، لیکن یہاں 400سے500فٹ بورنگ کی ضرورت تھی۔ میں انہیں اُن علاقوں میں لے گیا۔ بعد میں علم ہوا کہ ان علاقوں سے ملحقہ ایک آبادی میں یہی فلاحی ادارہ 340فٹ گہری بورنگ کراچکا ہے جہاں گزشتہ 10مہینوں سے بلاتعطل 24 گھنٹے مفت پانی فراہم ہے۔ سروے وزٹ کے دوران بھی کچھ خواتین اس بورنگ کے ساتھ بنی پانی کی ٹنکی سے برتن بھررہی تھیں۔ اور برتن سروں پر رکھ کر پہاڑی کی مزید اونچائی پر جارہی تھیں۔ یہ ایک بہت تکلیف دہ منظر تھا، جو الہدیٰ انٹرنیشنل کے آپریشن منیجر نے بذات خود دیکھا اور سخت دکھ کا اظہار کیا۔ میں نے کئی بچوں و بچیوں سے پوچھا تھاکہ گھر سے عورتیں ہی کیوں آتی ہیں، مرد کہاں ہیں۔ خواتین نے جب دیکھا کہ میں پشتو زبان میں مخاطب ہوں تو کہنے لگیں کہ رورا (بھائی) اگر ہمارے مرد پانی بھرنے میں لگ جائیں تو روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے سے جو اجرت ملتی ہے اس سے محروم ہوجائیں گے۔ گھر کا خرچ کس طرح چلے گا۔ اس لیے ہم بہت مجبور ہوکر آتے ہیں۔ پانی کا ایک ٹینکر 5 ہزار روپے میں ملتا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ہمارے کچے گھروں میں ٹنکیاں نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتیں ووٹ مانگنے تو آتی ہیں لیکن بڑے بڑے دعوے کرکے برسہا برس غائب رہتی ہیں۔

الہدیٰ انٹرنیشنل نے 340فٹ گہرائی میں پہاڑی علاقے میں بورنگ کراکر سیکڑوں افراد کو پانی کی نعمت فی سبیل اﷲ بہم پہنچائی۔ اب ایک مرتبہ پھر الہدیٰ انٹرنیشنل نے تین مزید آبادیوں کے کنویں (بورنگ) کھدائی کے لیے اپنی خدمات فی سبیل اﷲ فراہم کیں، جس سے امید ہے کہ کم ازکم سیکڑوں گھروں کی پریشانی و دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ان شاء اﷲ۔ زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے جاچکی ہے۔ 500فٹ کے قریب بورنگ اور دیگر لوازمات کی مفت فراہمی کوئی معمولی کام نہیں۔ سرکاری لائن ان علاقوں کو فراہم ہی نہیں کی گئی اور کوئی فرد پہاڑی علاقے سے اگر نیچے کنکشن لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے کم ازکم اخراجات فی گھر ایک لاکھ روپے آتے ہیں۔ رشوت الگ سے دینا پڑتی ہے جو کم ازکم چالیس ہزار روپے ہے۔ سندھ حکومت نے چار برس قبل گیارہ کروڑ روپے کی لاگت سے ایک واٹر پمپنگ اسٹیشن کی تعمیر شروع کی تھی، لیکن سنگین بے ضابطگیوں اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی وجہ سے کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود وہ غیر فعال و نامکمل ہے۔ متعلقہ اداروں سے کئی بار رابطہ کیا گیا، لیکن مالیاتی خوردبرد کی وجہ سے اہم واٹر پمپنگ اسٹیشن کا کوئی پرسان حال نہیں۔

زیر زمین پانی کا استعمال انتہائی سخت مجبوری ہے، لیکن جب پینے کے لیے صاف پانی ہی میسر نہ ہو تو ان حالات میں جوہڑوں میں جانوروں کے لیے خطرناک قرار دیا جانے والا پانی بھی کسی نعمت سے کم نہیں کہلاتا۔ الہدیٰ انٹرنیشنل ملک بھر میں بے لوث کئی چھوٹے بڑے اور اہم پروجیکٹس پر کام کررہی ہے۔ لیکن کراچی جیسے شہر میں مکمل طور پر نظرانداز کیے جانے والے علاقوں میں زندگی کی اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اگر ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی نہ کی جائے تو یہ یقیناً ناانصافی ہوگی۔ ہزاروں افراد کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے کی جانے والی کوششیں قابل ستائش اور دیگر فلاحی اداروں کے لیے بھی تقلید کا سبب ہیں کہ شہروں میں بھی ایسی کئی آبادیاں ہیں، جہاں بلاامتیاز رنگ ونسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ کئی فلاحی ادارے بلاامتیاز کام کررہے ہیں۔ لیکن اس ادارے میں ایک خاص انفرادیت ہے، جو دیگر اداروں میں کم دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے الہدیٰ انٹرنیشنل آپ کا شکریہ۔۔۔
 

Qadir Khan Yousuf Zai
About the Author: Qadir Khan Yousuf Zai Read More Articles by Qadir Khan Yousuf Zai: 399 Articles with 266030 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.