سوشل میڈیا کے اثرات

موجودہ دور میں اس صدی کی سب سے بڑی اور اہم ایجاد اگر کمپیوٹر کو کہا جائے تو بلا شبہ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں اور جوں جوں افادیت سے بھرپور ایجاد مختلف ادوار سے گزر کر آج جس مقام پر کھڑی ہے کہ وہ پہلا کمپیوٹر جس کی رفتار کچھوے کی طرح اور وزن اور حجم ہاتھی کی طرح تھا اب سمٹ کر ایک ہاتھ میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اس کی رفتار کی پیمائش شاید اب اس کے بنانے والے کے بس میں بھی نہیں۔

رفتہ رفتہ مختلف مراحل طے کرتے ہوئے جب اس ٹیکنالوجی نے اسمارٹ فون کی شکل اختیار کی اور مختلف
النوع قسم کی سہولیات روزانہ کی بنیاد پر اس اسمارٹ فون کی اپلیکیشن کے نام پر اس کی زینت بننے لگی اور دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج کہلانے لگی ۔یقینی طور پر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اس طرح دو دہائیوں میں سوشل میڈیا کے نام پر مختلف اپلیکیشن کے دور کا آغاز ہوا جس میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا اور اس کا نہ رکنے والا سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔ فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹافون، واٹس ایپ اور لاتعداد دوسری اپلیکیشنز جو مختلف طریقوں سے صارف کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور سب کا یہی کہنا ہے کہ ہم ہی اس بنی نوع انسان کے لئے فائدہ مند ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ افادیت سے بھرپور چیز کا ہمارے یہاں بالخصوص ایسا ہی حشر کیا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا بنانے والے بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوں گے۔

وہ سوشل میڈیا جس سے لاتعداد کام لئے جا سکتے تھے اسے ہم نے ایک محدود پیمانے میں بند کردیا۔ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ ہم سنی سنائی بات کو کسی طور پر آگے نہ بڑھائیں مگر ہم ہیں کہ کاپی پیسٹ کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بغیر سوچے سمجھے دوسروں کے عقائد کو درست کرنے لگتے ہیں۔ کسی واقعہ یا حادثے کی فوری اطلاع دینا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں مگر اس حادثے، واقعے اور سانحے کے پس منظر اور نتائج سے ہمیں کوئی سر و کار نہیں ہوتا۔

فحاشی اور بے حیائی کے فروغ، بے معنی، لغو اور ناشائستہ جملوں کا بے دریغ استعمال بھی کرتے ہیں اور دوسرے ہی منٹ میں ہم سے بڑا کوئی علامہ بھی نہیں ہوتا۔

کسی کی ذاتیات و کردار پر گھناونے جملے اس سوشل میڈیا کے آنے کے بعد کس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ہر کسی کو زخمی اور دکھ پہنچا کر دلی تسکین حاصل کرتے ہیں۔

آج کل خصوصی طور دیکھا جا رہا ہے کہ نو عمر طالبعلموں کے ہاتھوں میں نت نئے ماڈل کے موبائل اور اسمارٹ فون جس تیزی سے دکھائی دے رہے ہیں یقینی طور پر اس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں جس سے نہ صرف طالبعلموں کی پڑھائی متاثر ہورہی ہے ، وقت کا زیاں ہو رہا ہے اور بلکہ ناپختہ ذہن ہونے کی وجہ سے وہ مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس ظلم میں والدین بھی برابر کے شریک ہیں۔
یقینی طور کسی بھی قسم کی بات کو آگے بڑھانےسے پہلے ہمیں ایک دفعہ سوچنا ہوگا کہ چاہے یہ بات کس حد تک درست اور صحیح ہی کیوں نہ ہو کہ اس سے کسی کی دل آزاری تو نہیں ہوگی۔

یہ ہر شخص کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتا ہے یا منفی اگر مثبت استعمال کیا جائے تو اس سے بڑھ کر مفید چیز کوئی نہیں۔سوشل میڈیا پر عام زندگی سے بڑھ کر جذباتیت اور منفیت پائی جاتی ہے جو اصل زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ہمیں کوشش کرنی چائیے کہ اس کا مثبت استعمال دوسروں کی مشکل زندگی میں حوصلے بلند کرنے کا سبب ہو نہ کہ پریشانیوں کا۔

ہمارے معاشرے کو سنوارنے میں اچھے اور نیک والدین اور اساتذہ بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کر کے بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تعلیم و تربیت ہی وہ ہتھیار ہے جس کی مدد سے ہم ایک ترقی یافتہ ملک کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔