سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ملکی صورتحال

گزشتہ دنوں آسیہ مسیح کیس کا فیصلہ آیا تو ملک بھر میں شدید غم و غصہ اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جو قریب تین دن جاری رہا۔ ایسے ہی ایک احتجاجی مظاہرے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے خطاب کنندہ بزرگ پیر افضل قادری صاحب ہیں جو علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے معتمد خاص ہیں۔ وہ اعلٰی عدلیہ، چیف آف آرمی سٹاف اور وزیراعظم پاکستان پر شدید الزامات لگاتے نظر آۓ۔ بصد احترام ان بزرگوں سے گزارش ہے۔

کیا یہ فیصلہ آرمی چیف یا فوج نے صادر فرمایا؟؟

اگر آرمی فیصلے کرتی ہوتی تو فوج کو سرعام مغلظات بکنے والے جیلوں کے اندر ہوتے، اور ملک کی بنیادوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے غدار بھی ملک بھر میں یوں کھلے عام دندناتے نہ پھرتے۔

کیا واقعی یہ فیصلہ عمران خان نے لکھا؟؟؟

اگر ہاں تو اپنے سخت عداوت پسند سیاسی حریف نوازشریف اور مریم نواز کی ضمانتیں بھی کیا انہوں نے ہی کروائی ہیں؟؟؟

ان ججز نے کن وجوہات کی بنیاد پر بریت کا فیصلہ دیا، کیا وہ دستاویز فتوے لگانے والے حضرات نے پڑھی ہیں؟؟

کیا یہی جج حضرات اس فیصلے سے قبل ان سب افراد کی نظروں میں قابل رشک اور ہردلعزیز نہیں تھے؟؟
یاد رہے عہد بعید کی بات نہیں، گزشتہ حکومت نے جب ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کرنے کی مبینہ کوشش کی، تو یہی موجودہ حکمران (جو اس وقت اپوزیشن میں تھے) اس راستے میں رکاوٹ بنے۔ یقین واثق ہے اس مسئلہ کی حساسیت سے ضرور واقفیت بھی رکھتے ہوں گے۔ انتخابی مہم میں بھی ختم نبوت اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا موضوع زیر بحث رہا تھا۔ یہ بھی سب کے سامنے ہے کہ جن حکمرانوں کی بد انجامی تاریخ کا حصہ بن چکی، اس "بھیانک اَنت" میں مذکورہ جسارت بھی شامل تھی۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ اس حکومت کو قائم ہوۓ دو اور دو چار دن نہیں ہوۓ تو جان بوجھ کر سیاسی خودکشی کیونکر کریں گے؟؟

یہ سب کہنے کا مطلب، سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے اتفاق ہرگز نہیں۔ یہ بھی ذہن نشین رہے میں نہ حکومتی وکیل ہوں اور نہ ارباب اختیار کی یاوری مقصود ہے۔ حکمرانوں سے شدید اختلافات کے باوجود میں فتنہ تکفیر کے خلاف ہوں۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں، 80 ہزار کے قریب بے گناہ کلمہ گو افراد دین کے نام پر فتنہ گروں کا شکار بن کر جہان فانی سے چل بسے۔ لاکھوں زخمی، ہزاروں عمر بھر کے لیے معذور ہوئے۔ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس نازک صورتحال میں حکمرانوں کا رویہ یقیناً قابل مذمت رہا جو حالات کی سنگینی سے لاعلم ہیں، بجائے دھمکیاں دینے کے اگر حکومت خود سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کرتی تو حالات شائد مختلف ہوتے۔

اس واقعہ کی آڑ میں دشمنان اسلام و پاکستان خوب متحرک دکھائی دے رہے ہیں، جو ہمارے بھولے بھالے جذباتی مسلمان بھائیوں کو خام مال کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تاکہ ٹھنڈی پڑ چکی تکفیری آگ میں نفرت کا تازہ ایندھن ڈال کر دوبارہ بھڑکایا جا سکے۔

ساری صورتحال میں بطور خاص سوشل میڈیا پر تحریک ظالمان، داعشی، لبرل، پشتین، الطاف کالیے، اور ملحدین تک سب اپنے اپنے انداز و حکمت عملی سے آگ بھڑکانے میں ایک ہی پیج پر نظر آۓ۔

بدقسمتی سے پیغمبر امن سے محبت کے نام پر پرتشدد واقعات کی ویڈیوز بھی سامنے آ رہی ہیں۔ جن میں راستے بند کر کے آمد و رفت معطل کی جا رہی ہے۔ گاڑیوں، موٹر سائیکل، رکشہ وغیرہ کو آگ لگا کر اور املاک کو نقصان پہنچا کر عشق رسول کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایسا احتجاج جس میں نقصان صرف اور صرف اپنے ملک، غریب مسلمان بھائیوں کا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہرگز نہیں۔ راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، جلاؤ گھیراؤ سے نہ تو دین کی خدمت ہو رہی ہے نہ ملک کی نیک نامی۔

نامساعد حالات میں پروفیسر حافظ محمد سعید حفظہ اللہ، جماعت الدعوۃ پاکستان اور تحریک حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف بہتری کی امید اور روشنی کی کرن نظر آیا۔ محترم حافظ صاحب نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اپنے طرزعمل سے ثابت کیا کہ حکمت اور بصیرت میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ پرامن احتجاج کے ساتھ کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا۔ فرمایا کہ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اور وکلاء سے مشاورت کے بعد مربوط حکمت عملی کے ساتھ اپیل کا حق استعمال کریں گے۔ تاکہ کیس میں رہ جانے والی کمزوریوں، خامیوں اور قانونی سقم کو دور کیا جا سکے۔ عدالتی نظام چونکہ خاص معیار کے تحت کام کرتا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نظر ثانی کی درخواست میں عدلیہ کے سامنے ٹھوس شواہد فراہم کیے جائیں۔ اور اس کے بعد جو بھی فیصلہ آۓ اسے من و عن تسلیم کیا جائے یہی دین فطرت کا حکم، مہذب معاشرے کی پہچان اور اسلامی تاریخ کی روایت ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کی پہلی شرط اور عصمت انبیاء کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری انبیاء کے وارث علماء پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بپھرے ہجوم اور جنونی جتھوں کی منہج نبوی پر تربیت کریں۔ اس کے تدارک کے لئے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ایک ساتھ مل بیٹھ کر تدبیر کرنی ہوگی، تا کہ مستقبل میں ایسی صورتحال پیدا نہ ہو
وما علينا إلا البلاغ المبين

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 108482 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.