کرپشن اور انقلاب

ایک طرف عوام کی پریشانی اور مہنگائی اور دوسری طرف حکومت کے شاہانہ طور طریقے اور کرپشن۔ اس وقت دو ایسے متضاد رخوں میں چلتے ہوئے مسائل ہیں جس کے آپس میں ملنے اور فاصلہ کم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ بلکہ فی الحال تو یہ خلیج بڑھتی ہی نظر آ رہی ہے ۔ حکمران اور سیاستدان مسلسل ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں دوسری پارٹی پہلی پارٹی اور پہلی پارٹی دوسری پر الزام عائد کر رہی ہے کہ حالات کی ذمہ دار وہ ہے۔ حالات کا ذمہ دار جو بھی ہے لیکن اس کے متاثرین عوام ہیں جو مہنگائی کی عفریت کا مقابلہ مکمل طور پر غیر مسلح ہونے کے باوجود کر رہے ہیں ۔ جبکہ حکمران اس سب کچھ سے بے نیاز کرپشن کے چھوٹے بڑے ہر قسم کے سکینڈل میں ملوث ہو رہے ہیں۔

اس وقت مہنگائی پوری دنیا کا مسئلہ ہے لیکن جن ملکوں میں کرپشن زیادہ زوروں پر ہے اور حکمران زیادہ کرپشن میں مبتلا ہیں وہاں حالات زیادہ خراب ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان انہی ممالک میں شامل ہے۔ یہاں حکومتی اخراجات کسی شتر بے مہار کی طرح آزاد ہیں اور بڑھتے بڑھتے ملکی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ بننے والے ہیں۔ جبکہ اس حرص و ہوس نے اداروں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے کوئی ادارہ کرپشن سے محفوظ نہیں ہے۔ اداروں کا معاملہ تو یوں بھی گھمبیر ہے کہ یہاں کرپشن صرف بالائی سطح پر نہیں بلکہ نچلی سطح پر بھی اتنے ہی زور و شور سے موجود ہے بس فرق صرف یہ ہے کہ یہ کرپشن ایک شخص سے شروع ہو کر معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے اور حکومتی کرپشن پورے معاشرے پر براہِ راست اثر ڈال رہی ہے اور دوسرا فرق یہ ہے کہ نچلی سطح پر یہ لوگ اپنے روز مرّہ اخراجات پورے کرنے کیلئے رشوت لیتے ہیں اور بالائی افسران اپنے معیار ِ زندگی کو شاندار بنانے کیلئے ۔ لیکن انہی اداروں میں جب حکومت اور وزارت ملوّث ہوتی ہے تو معاملہ بڑھتے بڑھتے بینکوں اور سوئس بینکوں تک پہنچ جاتا ہے اور در اصل ملک پر اثر انداز بھی تب ہوتا ہے جب ہمارے یہ بڑے کرپشن اور رشوت ستانی پر اتر آتے ہیں ادارے تباہ ہو جاتے ہیں اور عوام کو وہ سہولت مل نہیں پاتی جو ان کا حق ہوتا ہے جس کیلئے وہ ٹیکس پر ٹیکس پر ٹیکس دیتے جاتے ہیں۔

موجودہ حالات میں پی آئی اے کو ہی لیجئے ، ریلویز کی خبر لیجئے، سٹیل ملز کا واقعہ یاد کیجئے ہر جگہ آپ کو کرپشن نظر آئے گی۔ رینٹل پاور پلانٹس ہی لیجئے بجلی کی قیمت آسمان پر پہنچ چکی ہے اور تو اور حج کرپشن پر کیس کو ہی لیجئے یعنی صرف اپنے دیے کو چاند بنانے کے واسطے بستی کے چراغ بجھائے جارہے ہیں اور اسی پریشان عوام کو مزید پریشان کرنے کیلئے معاشیات کی موٹی موٹی اصطلاحاتGDP ، GNP،Growth Rate اور Budget Deficit میں الجھا کر مہنگائی کی توجیہات پیش کی جاتی ہیں جو ایک عام آدمی کی سمجھ سے تو یقیناً بالاتر ہیں ایک درمیانے درجے کے پڑھے لکھے شخص کی سمجھ میں بھی نہیں آتیں۔ ریڑھی لگا کر کمانے والا تو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ بھی مختلف شکلوں میں کافی ٹیکس حکومت کو ادا کر رہا ہے۔ GSTتو اس کا دودھ پیتا بچہ بھی ادا کر رہا ہے۔ ٹیکس تو ایک عام سرکاری تنخواہ دار ملازم بھی ادا کر رہا ہے جس کو اتنی ہی تنخواہ دی جاتی ہے کہ وہ مہینہ بھر کے اخراجات پورے کر سکے لیکن بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طریقوں سے ٹیکس دیتا ہے اور ٹھیک ٹھاک دیتا ہے۔ یوں مہنگائی اور نقد ادائیگی دونوں صورتوں میں متاثر ہوتا ہے اور حکومتی اصطلاحات و توجیہات دراصل عوام کیلئے کسی طرح بھی اہم نہیں ان کیلئے اہم یہ ہے کہ آٹے، دال کے بھاؤ میں کتنی کمی ہوئی، پٹرول کتنا مہنگا ہوا، گھی کی قیمت میں کیا اتار چڑھاؤ آیا۔ بیماری کی صورت میں وہ دوا کس قیمت پر لے گا اور ڈاکٹر کی فیس کتنی دے گا۔

عام آدمی جانتا ہے کہ اس کے اوپر سے یہ سارا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے کرپشن پر قابو پانا پہلی شرط ہے جو چیز ہم باہر سے منگوا رہے ہیں اس کی قیمت پر تو حکومت بین الا قوامی قیمتوں کی توجیہہ پیش کرتی ہے جو چیز ہماری ملکی پیداوار ہے اس پر سو طریقوں سے ٹیکس عائد کر کے عوام کی پہنچ سے دور کر دی جاتی ہے۔ چینی کو ہی لیجئے یہاں مسئلہ بڑی کرپشن کا ہے شوگر ملز بڑے بڑے سیاستدانوں، اسمبلی ممبران اور حکومتی ارکان کے ہیں ۔ لہٰذا یہاں کرپشن بھی بڑی ہے اور تو اور ہم نے تو وہ معدنیات بھی نہیں چھوڑیں جس کی بناوٹ میں کوئی انسانی محنت نہیں لگی لیکن چونکہ اس کو نکالنے میں انسان کا ہاتھ ہے لہٰذا ہم نے تھر کول کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے کیونکہ ہم اسے استعمال کریں گے تو رینٹل پاور میں سے کیسے اپنا ذاتی خزانہ بھر سکیں گے۔ ریکوڈک کا خزانہ ہم نکالیں گے تو عوام کے اوپر خرچ کرنا پڑے گا یوں عوام خوشحال ہو کر حکومتی بڑوں کے مقابلے پر اتر آئیں گے لیکن ہمارے کرتا دھرتا یہ بھول رہے ہیں کہ قطرہ قطرہ پانی بھی گرے تو پتھر میں سوراخ بن ہی جاتا ہے اور پھر پانی رکتا نہیں عوام کا بھی دل ہے اگر سنگ و خشتِ درد سے بھر آیا تو پھر انقلاب فرانس تو پرانی بات ہے انقلاب ایران بھی کل کا معاملہ تھا آج ہی کی مثال لیجئے کہ تیونس کے عوام نے مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر سڑکوں کا رخ کیا اور صدر بن علی کو کرسی صدارت ہی نہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ وہاں نہ پھر معاشیات کی اصطلاحات اس واقع کو روک سکیں اور نہ طاقت کیو نکہ وہ طاقت عوام کی خا موشی تک تھی۔ نپولین کے بقول کسی ملک میں کرائسز برے لوگوں کی جارحیت سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی سے پیدا ہوتے ہیں اور جب حکومتیں اچھے لوگوں کو بولنے پر مجبور کر دیں تو پھر تیونس جیسے حالات پیدا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی حالات کرپشن ہی سے بگڑتے ہیں ۔ ہم ان کو تو ٹھیک نہیں کر سکتے لیکن ایک عام آدمی خود کو درست کرے اور جب اس کا عمل خود اتنا مضبوط ہوگا تو وہ دوسرے پر مٔوثر اور برحق اعتراض کر سکے گا لیکن کرپشن کی دیمک نے ہمارے معاشرے کو کچھ اس طرح کھوکھلا اور مفلوج کر کے رکھ دیا ہے کہ ہر شخص اس میں ملوّث ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہم واقعی اس لعنت کو اپنے معاشرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم اپنے ملک کیلئے واقعی مخلص ہیں تو کرپشن کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور اس کیلئے انقلابی اور ہنگامی بنیادوں پر کام کر نا ہوگا۔ عام آدمی خود سے شروع کرے اور حکومت خود سے لیکن پہلی مثال حکومت کو قائم کرنا ہوگی۔ کرپشن کی وجوہات میں ایک بہت بڑی اور اہم وجہ سادگی اور صبر سے دوری ہے ہم اپنی خواہشات پر صبر کرنا بھول چکے ہیں جس نے حرص و ہوس کو عام کر دیا ہے وہ سادگی جو اسلام کا ایک سنہرا اصول ہے لیکن سادگی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم ضروریاتِ زندگی سے ہی دست کش ہو جائیں لیکن تصنع اور مقابلے کی دوڑ کی جو لعنت ہمارے معاشرے میں پچھلی دو دہائیوں میں بڑھی ہے اسے روک دینا انتہائی ضروری ہے ۔ اس دوڑ کو میڈیا نے جس طرح مہمیز لگائی ہے وہ بھی قابلِ غور ہے ہر ڈرامہ ایک شاہانہ گھر کی کہانی ضرور سناتا ہے ، قیمتی ملبوسات، تزئین و آرائش اور فیشن سب نے مل کر عوام کو سادگی سے دور کر دیا ہے۔ میڈیا جہاں کرپشن کے کیسز سامنے لارہا ہے وہیں سادگی کا بھی پرچار کرے ، اسے فروغ دے اور خود اپنے اینکرز اور ڈرامے کو سادہ اور نفیس بنائے۔

کرپشن نے ہمارے معاشرے کو مہنگائی، تصنع اور بناوٹ جن جن طریقوں سے متاثر کیا ہے ان سب کے کردار ہم خود ہیں بس جس کی پہنچ جہاں تک والا معاملہ ہے۔ لیکن چونکہ ہم خود ہی مریض اور خود ہی بیمار کرنے والے ہیں اس لیے مرض کی نوعیت سے بخوبی واقف ہیں اور اسی لیے علاج نا ممکن نہیں۔ لیکن بہتر حل یہی ہوگا کہ حکومت سادگی اپنائے کرپشن کو روکے کرپٹ افراد کو سزا دے اور اس سزا کی تشہیر کرے ورنہ اگر عوام نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تو خونریزی بھی یقینی ہے اور انقلاب بھی۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508893 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.