گھریلو جرائم سے چشم پوشی.

افسوس ھمارے معاشرے میں گھریلو جرائم سے فرار حاصل کی جاتی ھے. گھر کے بگڑے ھوۓ معاملات کو یا تو مزید بگاڑا جاتا ھے یا فریقین کا ذاتی معاملہ قرار دے کر لوگوں کو خصوصا خواتین کو تنہا کردیا جاتا ہے پھر جب گھروں اور خاندانوں میں جرائم کے کیسز سامنے آتے ھیں تو افسوس کا اظہار کیا جاتا ھے اور زیادتیوں کو صلح کرکے دبادیا جاتا ہے، رشتے ناتوں عزت کا واسطہ دیکر جرائم پر پردے ڈالے جاتے ہیں اور مظالم کا شکار لوگ انصاف کے لیے ٹھوکریں کھاتے ہیں. سوال یہ ھے کہ ایسی نوبت آنے کیوں دی جاتی ہے جب کوئ مجرمانہ واقعہ رونما ھونے کے بعد ھوش آۓ. دراصل اس کے پیچھے وہ عارضی فوائد ھوتے ھیں جنکو دیرپا سمجھنے کی غلطی کی جاتی ہے یا پھر بہتری آجانے کی غیر حقیقی امید تاہم باہمی بات چیت کی ناکامی کے بعد جب انسان کو اس بات کا اندازہ ھوجاۓ کہ اسکی بات کا جواب ھاتھ، ہتھیار یا کسی اور طرح کی انتقامی کاروائ کی صورت میں دیا جاۓ گا تب چونکنے کا مقام ھوتا ھے. اس موقع پر معاملات کو سنجیدہ اور مناسب طور پر حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ظالم سے مذاکرات نہیں ھوسکتے اسلیے ممکنہ جرائم اور مظالم رونما ہونے سے پہلے مناسب و اصولی فیصلے کرلینا بہتر ہے کیونکہ انسانی فطرت زیادہ دیر کسی غیر انسانی رویے کو بردا شت نہیں کرپاتی نتیجہ جلد یا بدیر کبھی مظلوم کی جانب سے اور کبھی ظالم کی سرکشی بڑھ جانے کے سبب بھیانک اور سنگین جرائم کی صورت میں سامنے آتا ھے.

افسوس ھمارے معاشرے میں کہیں نہ کہیں گھریلو تشدد کو سہارا حاصل ھے نہ صرف ظالم بلکہ ظلم سہنے والا بھی خواہ عورت ھو یا مرد جسمانی و ذھنی تشدد کی تکلیف اٹھا کر بھی اسکو گھریلو زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول کرتا ھے. یہ جاہلانہ ذہنیت معاشرے میں موجود ہے حالانکہ ھمارا دین اس قسم کی روایتوں کو جائز قرار نہیں دیتا . مفہوم حدیث کے مطابق ھر شخص اپنی رعیت کے معاملے میں جوابدہ ھے. خاندانی روایت واقدار کا مطلب ھرگز یہ نہیں کہ گھر خاندانوں میں ھونے والے کریہہ افعال و گناہ اور گھناؤنے جرائم و مظالم سے چشم پوشی اختیار کی جاۓ.. جہاں ریاستی سطح پر گھریلو جرائم کے قوانین پر عملدرآمد کی ضرورت ھے وہیں اپنے گھر خاندانوں میں سبکو بالخصوص بڑوں کو ایسے عوامل و افعال پر نظر رکھنے کی ضرورت ھے جہاں کسی مکین یا خاندان کے فرد کے اندر مجرمانہ ذہنیت یا حد سے بڑھا ھوا جارحانہ اور انتقامی رویہ محسوس کیا جاسکے تاکہ گھر خاندانوں کے اندر قتل، جبس بےجا، ھراسگی، تیزاب گردی، مالی استحصال، جنسی زیادتی ، جسمانی و ذہنی تشدد اور دیگر جرائم کا سدباب کیا جاسکے.

Sarah Ibrahim
About the Author: Sarah Ibrahim Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.