اسیر زندان

کنیز بانو اس کا نام تھا،وہ واقعی اسم با مسمی' تھی۔وہ گھر بھر کی کنیز تھی۔ نہیں نہیں آپ لوگ غلط سمجھ رہے ہیں، وہ نوکرانی نہیں تھی، نوکرانی کو بھی اجرت ملتی ہے، اس کو کوئی مارے تو وہ کام چھوڑ سکتی ہے،کنیز بانو تو بے دام کی کنیز تھی،وہ نفیسہ بیگم کی ساتویں اولاد تھی، عمر اس کی آٹھ سال تھی، مگر دیکھنے وہ بہت چھوٹی لگتی تھی ،اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی ماں اور اس کے حصے میں صرف بچا کھچا کھانا ہی آتا تھا۔ اس نے آج تک گوشت نہیں چکھا تھا ،کیونکہ ہر اچھی نعمت پر صرف گھر کے مردوں کا حق تھا،گھر کا اصول تھا کہ پہلے گھر کے مردوں کو کھانا دیا جائے گا ۔دادا ابا، چچا جان، بابا جان ،بڑے بھیا، منجھلے بھیا باقی کے چار بھائی سب دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے، مگر اس کا کام ماں کے چولہے سے بھاگ بھاگ کر گرم روٹیاں پکڑانے کا تھا۔ وہ ننھے ننھے ہاتھوں سے دسترخوان چنتی، مگر اس دسترخوان پر بیٹھنے کی ہمت اس نے نہیں کی تھی۔سب کھانا کھا کر اٹھتے تو ان کے ہاتھ دھلواتی، دستر خواں اٹھاتی، جھوٹے برتن مانجھتی ،پھر کہیں جاکر آخر میں ماں کے ساتھ چند لقمے زہر مار کرتی۔ آج سب گھر کے مردوں نے گوشت کھایا تھا ،مگر اس کی ماں اور اس کے حصے میں صرف بچے ہوئے سالن کا تیل اور مصالحہ سا آیا تھا ،ماں کہتی تھی:
"دھیے! عورت ذات مرد کے برابر بیٹھ کر کھانا نہیں کھاسکتی ۔دیکھ تیرے دادا ابا،چاچا،ابا سب بہت محنت کرتے ہیں انھیں اچھے کھانے کی لوڑ( ضرورت ) ہے۔ تو اور میں تو ویلی نکمیاں( فارغ) گھر بیٹھ کر روٹیاں توڑنے والیاں، سانھوں ( ہمیں )کچھ بھی مل جائے او کافی ہے۔"

کنیز بانو حیرت سے ماں کا منہ تکتی اور سوچتی:
"ماں! تم بھی تو صبح پو دے ویلے سے رات گئے تک جتی رہتی ہو، پھر بھی تو ویلی نکمی کیوں کہلاتی ہو؟"

اسے پتا تھا اس کی ماں گھر کے مردوں سے بھی پہلے اٹھتی اور اس کو بھی جگاتی تھی،وہ اور ماں مل کر مویشیوں کو چارا ڈالتے،گائے کا دودھ دوہتے، لسی بناتے،گھر کے مردوں کے نہانے کا پانی گرم کرتے،اسے پتا تھا کہ صرف چولہے میں لکڑیاں جلاتے جلاتے ماں کا اور اس کا کھانس کھانس کر کیسا برا حشر ہوجاتا تھا ۔پھر سب کے ناشتے بنانا، دن چڑھے کہیں انھیں دو نوالے اپنے منہ میں ڈالنے کا موقع ملتا تھا۔باقی دن بھی پانی بھرتے،کپڑے دھوتے،برتن صاف کرتے،صفائیاں کرتے گزرتا تھا ۔ماں بیچاری تو سیپارہ اور نماز پڑھنا بھی نہیں جانتی تھی،مگر کنیز بانو نے سامنے والی باجی زہرا سے نہ صرف قرآن پاک پڑھ لیا تھا،بلکہ تھوڑی بہت اردو اور انگریزی بھی سیکھ لی تھی۔کنیز بانو چھپ چھپ کر اپنے بھائیوں کی سکول کی کتابیں پڑھتی۔اس کا ذہن ہمیشہ اسے حوصلہ دلاتا کہ اگر وہ پڑھ لکھ گئی تو شاید اس کا نصیب اماں جیسا نہ ہوگا۔وہ افسوس سے اکثر اماں کو پٹتے دیکھتی۔اکثر ابا،دادا ابا اور چاچا غصے میں آکر اس کی ماں کو کپڑے کی طرح دھو ڈالتے۔ماں بیمار ہو یا صحتمند وہ ہر حال میں کام کرتی۔سب کی مار اور گالیاں کھاتی مگر ایک حرف شکایت بھی منہ سے نہ نکالتی۔وہ کنیز بانو کو کہتی:
"تیرا ابا میرے سر دا سائیں ہے۔سائیں دا حق سب تو زیادہ یوندا ہے۔"

کنیز بانو حیرت سے سوچتی:
"اماں ! چل ابا تو تیرا سر دا سائیں ہے۔پر دادا اور چچا کون ہیں، جو تجھے ہر بات پر دھو ڈالتے ہیں ۔"

کنیز بانو دیکھتی ،صبح صبح اس کے بھائی نہا دھو کر یونیفارم پہن کر سکول جانے کےلیے تیار ہوتے، وہ اپنے بھائیوں کو حسرت سے تکتی، اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔روز اس کا دل کرتا کہ وہ ابا کو کہے کہ وہ اسے بھی بھائیوں کے ساتھ سکول جانے دے مگر روز اس کی ہمت جواب دے دیتی۔آج نہ جانے اسے کیا سوجھی، ابا کا ہاتھ پکڑ کر لاڈ سے بولی:
"ابا! مینوں سکول داخل کروادے ۔"

دادا ابا کے ہاتھ سے لاٹھی گر گئی،چاچا منہ دھوتے دھوتے رک گیا، ابا نے پہلے حیرت سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں جلتے دیپ اور اس کی ہونٹوں کی مسکراہٹ نے تائید کی کہ وہ بخوبی جانتی ہے کہ وہ ظالم حاکم وقت سے کیا مطالبہ کر رہی ہے۔ابا نے اپنے بھائی اور باپ کی طرف دیکھا،ان کی نگاہیں شعلے اگل رہی تھیں ،ان کے دانت باہر جھانک رہے تھے،ان کے ماتھوں پر تفکرات کی گہری لکیریں کھنچی ہوئی تھیں۔ابا نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔

کنیز بانو کے منہ پر پنجے کے نشان چھپ گئے،اس کی آنکھوں میں وحشت سمٹ آئی، ابا وحشی جانور کی طرح اس ہر پلنا چاہتا تھا، مگر اماں ہاتھ جوڑے بیچ میں آگئی۔ابا نے کنیز بانو کو جھٹک کر پیچھے کیا اور تمسخر سے بولا:
"واہیات عورت دی واہیات دھی ۔
سکول جاکے وہراں دی برابری کرئے گی۔"

ابا نے نفرت سے زمین پر تھوکا اور بولا:
"اینوں چولہا چوکا سانبھن دے ۔اشرف دی ماں ۔تیری دھی میرے پتراں دی برابری کرن چلی اے ۔"

کنیز بانو کے ذہن کی سب کھڑکیاں ایک ایک کرکے دھڑ دھڑبند ہونے لگیں، وہ دھیرے دھیرے زمین میں درگور ہوتی گئی ،اس کو پتا چل گیا کہ وہ بنت حوا ہے،اس کا مقدر اسی چولہا چوکا اور سر دے سائیں کے ساتھ ہے۔اس نے اپنا سانس بند کرلیا، اس کو پتا چل گیا تھا،اس زندان سے جیتے جی رہائی ممکن نہیں ہے۔اب اس کی آنکھوں میں آنسو تھے،اس کا وجود دھیمی دھیمی آگ میں سلگ رہا تھا۔

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 264314 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More