زمانے کی سوچ اور تعلیم ِ نسواں کی ضرورت و اہمیت

تو ہے آئینہ اپنی ذات کا
تیرا علم وہنر ہے بے پناہ
تیرے روبرو رونما عکسِ جہاں
تیرے کارواں کو ملا راستہ
بلاشبہ عورت معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد ۔کسی ملک و قوم کے ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ہونے کا زیادہ ترانحصار عورتوں کی تعلیم پر ہے۔عورت معاشرے کی وہ اہم کڑی ہے جسے اسلام نے ہر روپ میں اعلیٰ مقام و مرتبہ دیا ہے جبکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو حقوق دئیے اور ان حقوق میں ایک حق تعلیم کا بھی ہے۔ایک معاشرے میں رہتے ہوئے مذہب ، غیرت ، رسم و رواج کے نام پر عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنانا اور قتل ِ عام کرنا جہالت و گمراہی ہے ۔یہاں اس امر پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ ایک مرد جب تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ اس تعلیم کو بروئے کار لا کر اپنے کنبے کی کفالت کرتا ہے ، معاشی لحاظ سے اپنا رتبہ بڑھاتا ہے ،اپنی تعلیم کے ذریعے اپنی قابلیت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی فیلڈ میں نہ صرف آسانی پیدا کرتا ہے بلکہ ترقی و کامیابی کی راہوں پر گامزن ہو جاتا ہے ۔یہاں میرا سوال یہ ہے کہ کیا اتنی تعلیم وقابلیت رکھنے والا مرد ایک ایسی عورت چاہے گا جو اس سے کسی بھی لحاظ سے کم ہو ؟یعنی تعلیمی لحاظ سے ، ذہنی و فکری سوچ کے اعتبار سے ،جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے واقفیت کی بنا پر ،گھریلوں معاملات کو سلجھانے کے حوالے سے ،یا بچوں کی تربیت کی وجہ سے ․․․․غرض کوئی بھی کیسے بھی حالات ہوں گاڑی اسی صورت میں چل سکتی ہے جب پہیے برابر ہوں اور اس سب میں عورت کا کردار نمایاں ہے ۔مرد میں تعلیم کی کمی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے لیکن عورت میں تعلیم اور علم و عقل کی کمی ایک ایسی خامی ہے جو دنیا کی کوئی خوبی پورا نہیں کر سکتی ۔مرد کی تعلیم و علمی قابلیت محض اس کی ذات تک محدود رہتی ہے جبکہ عورت کی تعلیم و علمی قابلیت پورے کنبے اور نسلوں تک کو سنوار سکتی ہے ۔
تو وہ سیپ ہے جس میں بارش کا قطرہ سمائے اور موتی بن جائے
تو وہ روشنی ہے کہ جو دلوں کو علم کے نور سے منور کر جائے
تو وہ راہ ہے کہ جس پر چل کر ایک ہونہار معاشرہ تشکیل پائے
تو وہ آئینہ ہے کہ جس میں جھانک کر ، ہر شخص اپنا عکس پائے

اب تک کی بحث کا موضوع ایک غیر تعلیم یافتہ عورت رہی لیکن سب سے کمزور مرحلہ جو اس سوال کے ذریعے ہمارے سامنے آئے گا وہ ایک عورت کا دین داری اور دنیا داری کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ایک حافظہ عربی زبان سے نابلدہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کے ترجمہ و تفسیر ، احادیث و تقابل ادیان اور فقہی و اجتہادی مسائل سے دور ہونے کے باوجود ایک عالمہ کے فرائض ادا کر سکتی ہے ؟
البتہ یہ معاملہ اس لحاظ سے کمزور پیچیدہ ہے کیونکہ عصر حاضر میں ایسے ایسے مدارس قائم ہو چکے ہیں جو لڑکیوں کو حافظہ بنانے کے ساتھ ساتھ بنا علمی و عملی قابلیت جانے عالمہ کی سندیں فراہم کر رہے ہیں ۔اس کا نقصان یہ ہے کہ جب ایسی طلباء اپنے اپنے مدرسوں سے نکل کر بنا غور و فکر اور تجزیہ کے رٹی رٹائی باتیں عوام الناس تک پہنچاتی ہیں تو ان کا فائدہ اسلام کے فروغ کو کم اور ان مراکز کو زیادہ ہوتا ہے جن کے موقف کا اظہار وہ کتب ِ مدرسہ پڑھ پڑھ کر کر رہی ہوتیں ہیں ۔البتہ وہ اپنے اپنے اداروں کے فرقوں کو فروغ دیتی ہیں دین اسلام کو نہیں ۔ایک عورت کا کردارزندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتا ہے ۔تاریخ ِ اسلام سے ہی اگر مثال لی جائے تو جب حضرت خدیجہ ؓ کئی ممالک پر محیط کاروباری سرگرمیاں احسن طریقے سے انجام دے سکتی تھیں اور اگر حضرت عائشہؓاحادیث کا بہت بڑا ذخیرہ مرتب کرنے کی استعداد رکھتی تھیں تو آج کی عورت معاشرے میں اپنا ایک مثبت کردار ادا کیوں نہیں کر سکتی ؟کیا آج کی عورت کو دنیاوی تعلیم کے حصّول سے روکنے میں عورت کا ہی ہاتھ ہے یا معاشرے کا مرد طبقہ یہ سوچ رکھتا ہے کہ لڑکیوں کو دنیاوی تعلیم اور جدید علوم و ٹیکنالوجی سے دور رکھنا ہی بہتر ہے ؟
زمانے کے قدموں سے قدم ملا کر
تو رکھ اپنا سر ، فخر سے اٹھا کر
تو اندھیروں کو جلا،بستیاں منور کر
نئے قصّوں ، کہانیوں میں تو نام پیدا کر

بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ لڑکیوں کیلئے صرف دینی تعلیم ہی کافی ہے کیونکہ حالات گوارا نہیں کرتے او ر ان کی غیرت انہیں اجازت نہیں دیتی کہ لڑکی دنیاوی تعلیم کی غرض سے گھر سے باہر نکلے تو ان لوگوں سے میرا سوال ہے کہ اگر لڑکیا ں تعلیم حاصل نہیں کریں گی یا ڈاکٹرز (گائناکالوجسٹس ) نہیں بنیں گی تو ایسے لوگ اپنی بہوؤں ، بیٹیوں یا بیویوں کے علاج و معالجہ اور معائنہ کیلئے مرد ڈٖاکٹروں سے رجوع کریں گے ؟ یہاں ان کی غیرت گوارا کرے گی ؟ ایسے لوگ دین اسلام کے نام پر اپنی ذہنیت تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر اس چیز کو جو ان کی دسترس میں نہ ہو حرام، ناجائز اور مکروح قرار دے دیتے ہیں ۔ایسے لوگ دوسروں کی نظر میں اسلام کو تنگ نظر ثابت کرتے ہیں اور اسلام کا ایک غلط تصور پیش کرتے ہیں جبکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے سب سے پہلے عورتوں کے حقوق پر اور ان کی تعلیم پر زور دیا ہے جب دوسرے مذاہب عورت کو ایک ملعون ، گناہگار اور حقیر چیز سمجھتے تھے اور زمانہ جاہلیت میں اسے سامان کی سی حیثیت دیتے تھے جس کا وراثت میں کوئی حصہ نہ تھا جبکہ اسے وراثت کے طور پر ورثاء ( بیٹوں ، بھائیوں ) کے حوالے کر دیا جاتا تھا ۔اسلام نے عورت ذات کو ایک طاقت بخشی اسے نہ صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ جہاد میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ لا کھڑا کیا نیز اسلامی تاریخ کے اوراق عورت ذات کی جرأت و بہادری کے ان واقعات سے بھرے پڑے ہیں ۔
جکڑے جو قدم تیرے ،جہالت کی زنجیروں میں
ڈٹ کر مقابلہ کر کہ تیری کوکھ سے ہے وہ جنے

جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے اور مزید بڑھ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں لڑکی اور لڑکے میں فرق نہیں سمجھا جاتا ۔دونوں کی تعلیم وتربیت کیلئے علیحدہ اور مخلوط دونوں طرح کے ادارے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مذہب کے نام پر ، پردے کے نام پر ، غیرت کے نام پر اور لڑکی ذات ہونے کی وجہ سے عزت کی نیلامی کے نام پر لڑکیوں کو ان اداروں میں بھیجنے کی بجائے مدارس کے حوالے کر دیتاہے ۔

ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو دنیاوی تعلیم چھڑوا کر مدارس کے رحم و کرم پر توچھوڑ دیتے ہیں بنا یہ جانے کہ وہ قوم کی بیٹیوں کو دین ِ اسلام سیکھا رہے ہیں یا ان کے ذریعے نسلوں میں فرقہ وارانہ فسادات کا زہر گھولنے اور اپنی جماعتوں کے امیروں اور ان کے گدی نشینوں کی اطاعت و پیروی کرنا سکھا رہے ہیں جبکہ ہماری یہی بیٹیاں فرمانِ خداوندِ تعالیٰ اور نبی ﷺکے ارشادات کو پسِ پردہ رکھتے ہوئے انہی امیر ِ جماعت کے فرمان و ارشادات فخریہ انداز میں نسلوں تک منتقل کر رہیں ہیں اور انہیں نہ اس چیز کا احساس ہے اور نہ بنا تعلیم کے کبھی ہو گا ۔یہ تنقید کسی ایک گروہ پر نہیں بلکہ تمام گروہوں پر ہے جو فرمانِ خدا و رسول ﷺ کی بجائے اپنے امیروں کے ارشادات اور قصے کہانیوں کودین اسلام سے جوڑتے ہیں ۔انہیں چاہئے کہ قرآن و حدیث کا حوالہ دیں،قرآن ترجمہ و تفسیر کے ساتھ سیکھائیں، فقہی علوم ومسائلِ اسلام سے واقفیت، اجماع و اجتہاد کا درس ، کفار سے جہاد کر کے اسلام کی سربلندی و اشاعت کیلئے کوشاں ہوں اور اگر اس انداز سے یہ اپنے مدارس کا کام آگے بڑھائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔کیونکہ دین اسلام دکانیں چمکانے کا نام نہیں ہے
حصولِ علم کو اپنے پر لازم کر ․․․․اے عورت !
کہ بنا اس کے تیرے وجود کی پہچان کچھ نہیں

یہ کالم تنقید برائے تنقید نہیں تنقید برائے اصلاح ہے۔ البتہ عصر ِ حاضر میں معاشرے کی اصلاح اور نسلوں میں ایک مثبت سوچ پیدا کرنے کیلئے لڑکیوں کی جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے واقفیت بہت ضروری ہے اور جو لوگ اسلام ،پردے ، عزت اور غیرت کے نام پر لڑکیوں کو پڑھانے کے حق میں نہیں ہیں میری نظر میں وہ انسان ہی نہیں ہیں۔
 

Mehek Rizwan
About the Author: Mehek Rizwan Read More Articles by Mehek Rizwan: 7 Articles with 7084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.