احمد صغیر صدیقی :ہاں یہ سفر بھی خواب ہے رستہ بھی خواب ہے

 ممتاز ادیب پروفیسر صفدر علی انشاؔ کی ادارت میں کراچی اور حیدرا ٓباد سے شائع ہونے والے علمی و ادبی مجلہ ’’انشا ‘‘کا تازہ شمارہ (دسمبر 2017)موصول ہوا۔ مجلہ ’’ انشا ‘‘کا اداریہ پڑھ رہا تھاکہ یہ خبر پڑھ کر دِل دھک سے رہ گیا کہ احمد صغیر صدیقی بھی اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔اردو تنقید ،فکشن،شاعری ،سفرنامہ ،تحقیق اور لسانیات کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنے کے آرزومند اس یگانۂ روزگار فاضل کی رحلت پر ہر دل سوگوار اور ہر آ نکھ اشک بار ہے ۔ شاعری، افسانہ ،تنقید ،ترجمہ نگاری اوربچوں کے ادب کے فروغ میں احمد صغیر صدیقی کی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے اردو ادب کی ثروت میں جوقابل قدر اضافہ ہوا وہ تاریخ ادب کا اہم واقعہ ہے ۔ احمد صغیر صدیقی اپنی ذات میں ایک انجمن ،دبستان ِ علم وادب اور دائرۃ المعارف تھے ۔ حرفِ صداقت کے ترجمان حریت فکر و عمل کے اس مجاہد نے سدا حق گوئی و بے باکی کو اپنا شعار بنایااور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینا اپنا مطمح نظر ٹھہرایا ۔احمد صغیر صدیقی نے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں کے در کا کبھی طواف نہ کیا اور نہ ہی کبھی وہاں کوئی صدا کی ۔وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ ان کھنڈرات میں موجود حنوط شدہ لاشیں ،جامد و ساکت مجسمے ،سنگلاخ چٹانیں اور نوکیلے پتھردُکھی انسانیت کے مصائب و آلام کی چارہ گری اور ان کے دِلِ صد چاک کے زخم رفو کرنے سے قاصر ہیں ۔احمد صغیر صدیقی 20۔اگست 1938کو بہرائچ (بھارت) میں پیدا ہوئے ۔جب بر صغیر سے برطانوی استعمار کا خاتمہ ہوا اورآزادی کی صبح ِ درخشاں طلوع ہوئی تواحمد صغیر صدیقی ہجرت کر کے پاکستان پہنچے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیارکرلی ۔جامعہ کراچی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ زرعی ترقیاتی بنک پاکستان میں ملازم ہو گئے اور ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے زرعی ترقیاتی بنک پاکستاں کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے منصب پر فائز رہے ۔ زرعی ترقیاتی بنک میں مدت ملازمت کی تکمیل کے بعدوہ اسی منصب سے ریٹائر ہوئے ۔

احمد صغیر صدیقی کے ساتھ میر ا معتبر ربط گزشتہ تین عشروں پر محیط ہے ۔ احمد صغیر صدیقی ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے اور عالمی شہرت کے حامل تما م ادبی مجلات کا وہ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے ۔ان مجلات کی زینت بننے والی تخلیقی تحریروں کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے بلا تاخیر مدیران جرائد کو ارسال کرتے تھے ۔ اُردو نظم و نثر کے زیرک ،فعال اور مستعد نقاد کی حیثیت سے احمد صغیر صدیقی نے اپنی تنقیدی بصیرت اور تجزیاتی مطالعات سے قارئینِ ادب کو بہت متاثر کیا ۔ ادبی مجلات کے خطوط کے حصے میں شائع ہونے والے احمد صغیر صدیقی کے مکاتیب کا شدت سے انتظار کیا جاتا تھا ۔ جب بھی میری کوئی تحریر وطن عزیز کے علمی وادبی مجلات کی زینت بنتی، احمد صغیر صدیقی اس پر اپنی رائے کا بر ملا اظہار کرتے تھے ۔ احمد صغیر صدیقی جہاں کوئی اچھی تحریر پڑھتے اس کی پزیرائی کرنے میں کبھی تامل نہ کرتے ۔ ادبی مجلہ انشا کے حالیہ شمارے کے آخری صفحہ پر مدیر انشا کے نام احمد صغیر صدیقی کا آخری خط شائع ہوا ہے۔اپنے اس مکتوب میں بھی احمد صغیر صدیقی نے مجھے یاد رکھا اور آباد نگر کے اُجڑی غزلیں کہنے والے حزیں مکین ’ ’اسلم کو لسری ‘‘ ( 1946-2016)کے بارے میں انشا میں شائع ہونے والے میرے مضمون کی تحسین کر کے میرا حوصلہ بڑھایا جو اُن کی علم دوستی ،عظمت فکر اور ادب پروری کی دلیل ہے ۔ احمدصغیر صدیقی کی شاعری قلب اورروح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جاتی ہے :
آسماں زاد زمینوں پہ کہیں ناچتے ہیں
ہم وہ پیکر ہیں سرِ عر شِ بریں نا چتے ہیں
اپنا یہ جسم تِھر کتا ہے بس اَپنی دُھن پر
ہم کبھی اَور کسی دُھن پہ نہیں ناچتے ہیں
اپنے رنگوں کوتماشے کا کوئی شوق نہیں
مور جنگل ہی میں رہتے ہیں وہیں ناچتے ہیں
تن کے ڈیرے میں ہے جاں مست قلندر کی طرح
واہمے تھک کے جو رُکتے ہیں یقیں ناچتے ہیں
کب سے اک خواب ہے آنکھوں میں کہ تعبیر بھی ہے
اس میں گاتے ہیں مکاں اور مکیں ناچتے ہیں
ہیں شاخ شاخ پر یشاں تمام گھر میرے
کٹے پڑے ہیں بڑی دور تک شجر میرے

اردو ادب میں سال 1954سے تخلیق ِ ادب کے سلسلے میں نئے تجربات کی راہ ہموار کرنے کے حوالے سے احمد صغیرصدیقی کی تخلیقی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔ اردو فکشن کو نیا آ ہنگ عطاکرنے کے سلسلے میں احمدصغیر صدیقی کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔اردو ناول میں نئے فنی تجربات کے ذریعے احمد صغیر صدیقی کے اسلوب نے خوب سماں باندھا ہے ۔خاص طور پر ناول میں مہم جوئی ،خطرناک حالات سے واسطہ پڑنا ،موت کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈال کر دشواریوں پر قابو پانا، طوفانِ حوادث کے سامنے سینہ سپر رہنا اور ہر قسم کے خوف و ہراس کا مقابلہ کرنا ان ناولوں کی فضا کا نمایاں پہلو ہے ۔ قاری جب ہر سُو دکھوں کے جال بچھے دیکھتا ہے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ کس فضا میں پہنچ گیاہے جہاں قدم قدم پر محیر العقول واقعات،لرزہ خیز سانحات اور عبرت ناک حوادث قاری کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ترجمہ نگاری میں احمد صغیر صدیقی نے جو منفرد اسلوب اپنا یا اس کا اہم ترین وصف یہ ہے کہ ترجمہ میں تخلیق کی چاشنی قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے ۔عالمی ادب سے ماخوذ تخلیقات ،نئے تخلیقی رجحانات،نئی تخلیقات اور ان کے تراجم پر مشتمل کتاب’’ دنیا کی بہترین کہانیاں‘‘ لسانیات اورفن ِ ترجمہ نگاری پر ان کی خلاقانہ دسترس کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ اردو زبان میں بچوں کے ادب کی تخلیق میں احمد صغیر صدیقی نے گہری دلچسپی لی ۔ان کی کتاب ’’ بُوجھو توجانیں ‘‘جو بچوں کے لیے منظوم پہیلیوں پر مشتمل ہے اردو میں اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے ۔ یہاں احمد صغیر صدیقی کے مقبول ناول ’’لمحوں کی گنتی ‘‘، ’’کالی کہانیاں ‘‘ ،’’سائنس فکشن ناول ‘‘، ’’خونی جزیرہ ‘‘ اور ’’خوف گھر ‘‘کی مثال پیش کی جا سکتی ہے ۔ان مہماتی ناولوں میں قاری کی دلچسپی کا وافر سامان موجود ہے ۔مہم جوئی ،تجسس ور انتہائی خوف ناک حالات میں ثابت قدم رہنے کی کیفیت قاری کو ایسے جہان میں پہنچا دیتی ہے جہاں ہر لحظہ نئے خطرے اورنئے حادثات سر اُٹھاتے ہیں۔مافوق افطرت عناصر کی موجودگی ،طلسماتی فضا ،آسیب ،بھوت ،چڑیلیں ،جن اورپریا ں سب خوف کا ماحول پیداکرنے کا سبب ہیں ۔ مہم جوئی ،خوف و ہراس اور مایوسی کے ماحول میں بعض اوقات زندگی ایک جبر ِ مسلسل کا رُوپ دھار لیتی ہے اور موت کی دستک سنائی دینے لگتی ہے ۔ ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار کی حیثیت سے احمدصغیر صدیقی نے اپنے اسلوب میں خطرناک ماحول کی مرقع نگاری کرنے والے عالمی ادب کے نمائندہ مصنفین کے منفرد اسلوب کو بھی پیش نظر ر کھا ہے۔احمدصغیر صدیقی کے اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت جن ممتاز مصنفین کے اثرات کا ہلکا سا پرتو ملتا ہے ان میں سٹیفن کنگ ( Stephen King) ،ایڈگر ایلن پو (Edgar Allen Poe)، ایچ پی لو کرافٹ (H.P Lovecraft) ،آر ایل سٹائن(R. L. Stine)، برام سٹوکر(Bram Stoker)، میری شیلی (Mary Shelley)، اوراگاتھا کرسٹی(Agatha Christie) شامل ہیں ۔ خاک دانِ جہاں میں مکڑا کے چلنے والے منڈکڑی مار کر لیٹنے والے فراعنہ پر احمد صغیر صدیقی نے یہ بات واضح کر دی کہ یہاں زندگی ایک خواب ،سراب اور سطحِ آب پر حباب کے مانند ہے ۔ غیر مختتم خوف ،لرزہ خیز مایوسی، اعصاب شکن دُوں ہمتی اور بیزار کن جمود کی آئینہ دار اس صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے :
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا اُمیدی اس کی دیکھا چاہیے

وادی ٔ خیال میں مستانہ وار گُھومنے اورآسمان میں تھگلی لگانے والے مہم جُو اس طرح جرأت آزما دکھائی دیتے ہیں کہ قاری محو حیرت رہ جاتا ہے ۔ ایسے سخت مقام بھی آتے ہیں جب مُردوں سے شرط باندھ کر سونے والے اپنے سہانے خوابوں کی خیاباں سازیوں کے سحرمیں کھو جاتے ہیں اور کوہِ ندا کی آواز سن کر ساتواں در کھول کر عدم کی جانب سدھار جاتے ہیں۔حسن و رومان کی وادی کے آبلہ پا مسافر جب سائے اورسراب کے موہوم سہارے پر صحرا نوردی جاری رکھتے ہیں تو یہی مہم جوئی ان کے ولولے کی دلیل بن جاتی ہے ۔احمد صغیر صدیقی کے ناولوں میں سمے کے سم کے ثمر ،طوفانِ حوادث کے منھ زور بگولے ،سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے اور دشت فنا کی مسموم ہواؤ ں کے وبال کو سہنے کے بعد بھی اجنبی سی منزلوں کی جانب سر گرم ِ سفر رہنا ان ناولوں کے اسلوب میں نمایاں ہے ۔شامِ الم کے ڈھلتے ہی درد کی ہوا کے بگولے اور رفتگاں کی یاد کے ہیولے قاری کو غم زدہ کر دیتے ہیں۔اس کے باوجود مصنف نے اس امر کی مقدور بھر سعی کی ہے کہ ہجوم غم اور خوف و اضطراب کی تاریکیوں میں دِل کو سنبھال کر منزلوں کی جانب سفر جاری رکھا جائے ۔آزمائش ،ابتلا اور مہم جوئی میں حد ِ فاصل کو بالعموم ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ان میں جو نازک سا فرق ہے اس کو سمجھنے کے لیے انسانی روّیے پر عمیق نگاہ ڈالنا لازم ہے ۔احمد صغیر صدیقی کے ناول قاری کو جس فضا میں پہنچاتے ہیں وہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا کے آئینہ خانے میں حصولِ رزق کے مواقع کی فراوانی سے تن آسانی،عیش و عشرت اور راحت و مسرت کا حصول ممکن ہے۔اس کے نتیجے میں ننگ ِ انسانیت سفہا ،اجلاف و رازال اور گھٹیا عیاش دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کر سرودِ عیش گاتے چلے جاتے ہیں ۔ بے لوث محبت کا بے ساختہ پن ،ہمت مردانہ کی بلا خیزیاں ،عزم صمیم ،ثابت قدمی ،ضمیر کی للکار اور صبر و تحمل کی مظہر پیہم پیکار ہی جرأت آموز مہم جوئی کی پہچان ہے ۔اس نوعیت کی مہم جوئی کے متعدد مظاہر احمد صغیر صدیقی کے ناولوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اردو زبان میں صحت مندانہ تنقید کے فروغ کی خاطر احمد صغیر صدیقی نے نہایت خلوص اور دیانت کا ثبوت دیا۔عملی تنقید پر ان کی کتاب ’’ گوشے اور اُجالے ‘‘ان کے وسیع مطالعہ ،تجزیاتی انداز ،وسعت ِنظر اور تنقیدی بصیرت کی مظہر ہے ۔ان کے شعری مجموعے ’’ اطراف ‘‘ کو قارئین کی طرف سے زبردست پزیرائی ملی ۔
اک خواب ہے یہ پیاس بھی دریا بھی خواب ہے
ہے خواب تُو بھی تیری تمنا بھی خواب ہے
اِک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں
ہم بھی زباں سے اپنی ادا ہونے والے ہیں
ہیں شاخ شاخ پریشاں تمام گھر میرے
کٹے پڑے ہیں بڑی دُور تک شجر میرے
یہ دیکھنا ہے کہ اب ہار مانتا ہے کون
اُدھر ہے وسعت ِاِمکاں اِدھر ہیں پر میرے

ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے احمد صغیر صدیقی نے تخلیق ِ فن کے لمحوں میں جہان دِگر کی نقیب اپنی شاعری کو وہ مسحور کن لے ،آہنگ اور گونج عطا کی ہے جس پر قاری کے دِل کے تار بجنے لگتے ہیں اور رقصِ بسمل کے منظر چشمِ تصور کے سامنے آجاتے ہیں ۔ عملی زندگی کے معروضی حالات ، زندگی کے تضادات ،بے ہنگم ارتعاشات اور جوروستم کے سانحات کو منطقی تصورات سے ہم آ ہنگ کرنے میں تخلیق کار نے جس فنی مہار ت کامظاہرہ کیا ہے وہ لائق صدر رشک و تحسین ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے نہایت خلوص اور دردمندی سے کام لیتے ہوئے اپنے قارئین کو زندگی کی اقدارِ عالیہ سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کا پیغام دیتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ عملی زندگی میں منافقت ،کذب و افترا ،وہم و گمان اور حرص و ہوس سے دامن بچانا از بس ضروری ہے ۔اس شاعری میں کہیں مسرت و شادمانی کی فراوانی ہے تو کہیں آلامِ روزگار کی سوختہ سامانی ،کہیں وفا کا بیان ہے تو کہیں جفا کا عنوان ،کہیں پاسِ وفا مذکور ہے تو کہیں دستِ دعا کے ساتھ خواہشات کی تمنا مستور ہے ۔ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کی کیفیت قاری کے عالم ِ شوقکو اس انداز سے مہمیز کرتی ہے دل میں اِک نئی لہر سی اُٹھتی محسوس ہوتی ہے ۔ہجوم ِ یاس میں جب سینہ و دِ ل پر حسرت ،حیرت ،یاس ،محرومی اور پچھتاوے کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں تو شاعر حوصلے اور امید کا دامن تھام کر نجاتِ دیدہ و دِل کی ساعت کی جستجو میں جس انہماک کا مظاہرہ کرتا ہے اس سے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہوتا ہے ۔اسلوب میں رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے متکلم دکھائی دیتے ہیں۔بے لوث محبت کے جذبات کو فکر و خیال کی تابانی سے مزین کر کے جس دردمندی کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھالا گیا ہے اس کے معجز نما اثر سے شاعری نے ساحری کا روپ دھا ر لیا ہے ۔احمد صغیر صدیقی کی تخلیقی فعالیت حرف صداقت کی امین ہے جہاں کسی مصلحت کا گزر نہیں۔ یہ تخلیقی تحریریں قلب اور روح کو اس انداز میں مزین کرتی ہیں جس طرح نخلستان کو شبنم کے قطرے پیامِ نو بہاردینے کے بعد سیراب کرتے ہیں ۔شکوے اور گِلے کی روش اپنانے کے بجائے احمدصغیر صدیقی نے جس شان استغنا کے ساتھ کٹھن حالات میں گردشِ ایام کو گَلے لگایا ہے وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔احمد صغیر صدیقی افق ادب پر مثلِ ماہتا ب ضوفشاں رہے ۔ان کی الم ناک وفات سے جو خلا پیدا ہوا وہ کبھی پُر نہ ہو سکے گا ۔جانگسل تنہائیوں کا عذاب سہتے ہوئے جب شب ِ تاریک میں کاشانۂ چمن میں جگنو کی مدھم روشنی اور ستارے ٹمٹماتے نظ رآتے ہیں تو ہاتھ دِل سے جُدا نہیں ہوتا ۔ اس سانحہ کے بعداحمد صغیر صدیقی کی یہ پیشین گوئی اب نوائے سروش معلوم ہوتی ہے :
جی بھر کے ستارے جگمگائیں
ماہتاب بجھا دیا گیاہے 

Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 612843 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.